- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
”قربانی کی قربانی“
===========
دانشور: بیس بیس لاکھ کے جانور کی قربانی اور نمود و نمائش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بیس بیس ہزار کے بکرے کی قربانی کرکے انیس لاکھ اسی ہزار سے غریب بچیوں کی شادی کردیں تو کتنا اچھا ہو۔
۔۔۔
عام آدمی: سر ! کبھی آپ نے بیس بیس لاکھ کی قربانی کرنے والوں کا لائف اسٹائل دیکھا ہے۔ یہ ”معمولی کروڑ پتی“ نہیں بلکہ ارب پتی، کھرب پتی لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے لئے بیس لاکھ ایسے ہی ہے جیسے میرے اور آپ کے لئے بیس ہزار۔ پھر یہ لوگ اس قربانی کا سارا گوشت خود نہیں کھاتے بلکہ غریب غرباء میں ہی تقسیم کرتے ہیں۔
۔۔۔
دانشور: پھر بھی اس نمود و نمائش کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیا کم پیسوں میں قربانی نہیں کرسکتے؟
---
عام آدمی: سر یہ تو آپ سمجھ رہے ہیں نا کہ وہ نمود و نمائش کر رہے ہیں۔ نمود و نمائش کا تعلق نیت سے ہوتا ہے، عمل سے نہیں۔ کبھی آپ نے ان کا کچن اور ان کی ڈائننگ ٹیبل پر روزانہ سجنے والے کھانوں کو دیکھا ہے؟ کبھی آپ نے ان کے گھر کروڑوں کی گاڑیوں کا فلیٹ دیکھا ہے؟ کبھی آپ نے ان کا وارڈر روب دیکھا ہے؟ کبھی آپ نے آئے دن ان کی بیگمات کی اوور سیز شاپنگ کا بل دیکھا ہے۔ اگر یہ سب ان کے ”معمولات“ میں ہے تو سال میں ایک مرتبہ بیس لاکھ کی قربانی کیسے نمود و نمائش ہوسکتی ہے، جس کا بیشتر گوشت ان کے درجنوں ملازمین اور دیگر غریب غربا میں تقسیم ہوتا ہے
۔۔۔
دانشور: یہ لوگ پھر غریب غربا کی شادیوں میں مدد کیوں نہیں کرتے؟
۔۔۔
عام آدمی: کیا پتہ کرتے ہوں۔ کم از کم اپنے غریب ملازمین کی بچیوں کی شادی میں تو ضرور مدد کرتے ہوں گے۔ کیا آپ کے خیال میں انہیں یہ مدد آپ کو، میڈیا کو دکھلا کر نمود و نمائش کے لئے کریں؟ قربانی کا جانور تو چھپ کر خرید نہیں سکتے؟ منڈی سے لے کر گھر لانے اور قربانی کرنے تک کے ہفتہ عشرہ کی مدت میں آپ جیسے دانشوروں اور میڈیا کے لئے یہ ”حسرت بھری“ خبر بن جاتی ہے۔ چنانچہ آپ کا قلم اسی بہانے مہنگی قربانی کی مذمت میں افسانے گھڑنے لگتا ہے۔ اور کبھی بلا واسطہ تو کبھی بالواسطہ ”قربانی“ ہی کی نفی کرنے لگتا ہے۔
۔۔۔
دانشور: ہم ”حقائق“ لکھتے ہیں۔ غریبوں کے مسائل پر لکھتے ہیں۔ نمود و نمائش والی قربانی کے خلاف لکھتے ہیں۔
---
عام آدمی: معاف کیجئے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ آپ کو یہ غریب رمضان میں کیوں نظر نہیں آتے۔ آپ نے کبھی ماہ رمضان میں ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کو یہ یاد دلایا کہ ان کے بنک بیلنس کا ڈھائی فیصد غریبوں کا حق ہے۔ یہ زکوٰۃ اُن پر نماز روزے کی طرح فرض ہے۔ اگر سارے امیر یہ زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو کوئی غریب بھوکا نہ رہے۔ مگر آپ زکوٰۃ کی حمایت میں کیوں لکھیں گے؟ آپ کو تو ہر سال قربانی کی مذمت میں لکھنا پسند ہے۔
۔۔۔
دانشور: دیکھو تم جاہل عام آدمی ہو۔ ہم دانشور اور ادیب لوگ ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ غریبوں کے دکھ پر کب اور ”کس زاویے سے“ لکھنا ہوتا ہے۔ اگر یہ امیر لوگ بیس بیس لاکھ کی قربانی کی بجائے یہ رقم غریبوں میں تقسیم کردیں تو یہی ”اصل قربانی“ ہے۔ لیکن تم جاہل عوام قربانی کی اصل حقیقت کیا جانو۔
۔۔۔
عام آدمی: سر! ہم لوگ تو واقعی جاہل اور عام آدمی ہے۔ سیدھے سادے مسلمان ہیں۔ ہمیں دانشوری کا کیا پتہ۔ لیکن ہمیں یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ قربانی والے روز اللہ کو کیا بات سب سے زیادہ پسند ہے۔ عید الاضحیٰ کی قربانی کے بارے میں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے۔
---
دانشور: ارے اس جاہل کو تو کسی مولوی نے ”خراب“ کردیا ہے۔ یہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات کرتا ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور یہ جاہل مسلمان قوم اربوں کھربوں کی رقم محض ایک روز کی قربانی میں ”ضائع“ کردیتی ہے۔ آخر یہ مسلمان قوم ترقی کرے بھی تو کیسے کرے؟ جو سائنس اور ٹیکنالوجی پر پیسے خرچ کرنے کی بجائے قربانی پر ضائع کرے۔
===========
دانشور: بیس بیس لاکھ کے جانور کی قربانی اور نمود و نمائش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بیس بیس ہزار کے بکرے کی قربانی کرکے انیس لاکھ اسی ہزار سے غریب بچیوں کی شادی کردیں تو کتنا اچھا ہو۔
۔۔۔
عام آدمی: سر ! کبھی آپ نے بیس بیس لاکھ کی قربانی کرنے والوں کا لائف اسٹائل دیکھا ہے۔ یہ ”معمولی کروڑ پتی“ نہیں بلکہ ارب پتی، کھرب پتی لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے لئے بیس لاکھ ایسے ہی ہے جیسے میرے اور آپ کے لئے بیس ہزار۔ پھر یہ لوگ اس قربانی کا سارا گوشت خود نہیں کھاتے بلکہ غریب غرباء میں ہی تقسیم کرتے ہیں۔
۔۔۔
دانشور: پھر بھی اس نمود و نمائش کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیا کم پیسوں میں قربانی نہیں کرسکتے؟
---
عام آدمی: سر یہ تو آپ سمجھ رہے ہیں نا کہ وہ نمود و نمائش کر رہے ہیں۔ نمود و نمائش کا تعلق نیت سے ہوتا ہے، عمل سے نہیں۔ کبھی آپ نے ان کا کچن اور ان کی ڈائننگ ٹیبل پر روزانہ سجنے والے کھانوں کو دیکھا ہے؟ کبھی آپ نے ان کے گھر کروڑوں کی گاڑیوں کا فلیٹ دیکھا ہے؟ کبھی آپ نے ان کا وارڈر روب دیکھا ہے؟ کبھی آپ نے آئے دن ان کی بیگمات کی اوور سیز شاپنگ کا بل دیکھا ہے۔ اگر یہ سب ان کے ”معمولات“ میں ہے تو سال میں ایک مرتبہ بیس لاکھ کی قربانی کیسے نمود و نمائش ہوسکتی ہے، جس کا بیشتر گوشت ان کے درجنوں ملازمین اور دیگر غریب غربا میں تقسیم ہوتا ہے
۔۔۔
دانشور: یہ لوگ پھر غریب غربا کی شادیوں میں مدد کیوں نہیں کرتے؟
۔۔۔
عام آدمی: کیا پتہ کرتے ہوں۔ کم از کم اپنے غریب ملازمین کی بچیوں کی شادی میں تو ضرور مدد کرتے ہوں گے۔ کیا آپ کے خیال میں انہیں یہ مدد آپ کو، میڈیا کو دکھلا کر نمود و نمائش کے لئے کریں؟ قربانی کا جانور تو چھپ کر خرید نہیں سکتے؟ منڈی سے لے کر گھر لانے اور قربانی کرنے تک کے ہفتہ عشرہ کی مدت میں آپ جیسے دانشوروں اور میڈیا کے لئے یہ ”حسرت بھری“ خبر بن جاتی ہے۔ چنانچہ آپ کا قلم اسی بہانے مہنگی قربانی کی مذمت میں افسانے گھڑنے لگتا ہے۔ اور کبھی بلا واسطہ تو کبھی بالواسطہ ”قربانی“ ہی کی نفی کرنے لگتا ہے۔
۔۔۔
دانشور: ہم ”حقائق“ لکھتے ہیں۔ غریبوں کے مسائل پر لکھتے ہیں۔ نمود و نمائش والی قربانی کے خلاف لکھتے ہیں۔
---
عام آدمی: معاف کیجئے گا۔ ایسا نہیں ہے۔ آپ کو یہ غریب رمضان میں کیوں نظر نہیں آتے۔ آپ نے کبھی ماہ رمضان میں ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کو یہ یاد دلایا کہ ان کے بنک بیلنس کا ڈھائی فیصد غریبوں کا حق ہے۔ یہ زکوٰۃ اُن پر نماز روزے کی طرح فرض ہے۔ اگر سارے امیر یہ زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو کوئی غریب بھوکا نہ رہے۔ مگر آپ زکوٰۃ کی حمایت میں کیوں لکھیں گے؟ آپ کو تو ہر سال قربانی کی مذمت میں لکھنا پسند ہے۔
۔۔۔
دانشور: دیکھو تم جاہل عام آدمی ہو۔ ہم دانشور اور ادیب لوگ ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ غریبوں کے دکھ پر کب اور ”کس زاویے سے“ لکھنا ہوتا ہے۔ اگر یہ امیر لوگ بیس بیس لاکھ کی قربانی کی بجائے یہ رقم غریبوں میں تقسیم کردیں تو یہی ”اصل قربانی“ ہے۔ لیکن تم جاہل عوام قربانی کی اصل حقیقت کیا جانو۔
۔۔۔
عام آدمی: سر! ہم لوگ تو واقعی جاہل اور عام آدمی ہے۔ سیدھے سادے مسلمان ہیں۔ ہمیں دانشوری کا کیا پتہ۔ لیکن ہمیں یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ قربانی والے روز اللہ کو کیا بات سب سے زیادہ پسند ہے۔ عید الاضحیٰ کی قربانی کے بارے میں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے۔
---
دانشور: ارے اس جاہل کو تو کسی مولوی نے ”خراب“ کردیا ہے۔ یہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات کرتا ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور یہ جاہل مسلمان قوم اربوں کھربوں کی رقم محض ایک روز کی قربانی میں ”ضائع“ کردیتی ہے۔ آخر یہ مسلمان قوم ترقی کرے بھی تو کیسے کرے؟ جو سائنس اور ٹیکنالوجی پر پیسے خرچ کرنے کی بجائے قربانی پر ضائع کرے۔