عبد السلام مدنی
رکن
- شمولیت
- جنوری 23، 2018
- پیغامات
- 28
- ری ایکشن اسکور
- 5
- پوائنٹ
- 52
قربانی فضائل و مسائل کی روشنی میں
عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
(داعی ومترجم جمعیۃ الدعوۃ ‘میسان ‘طائف‘مملکتِ سعودی عرب)
الحمد رب العالمين و الصلاة و السلام على أشرف الأنبياء و المرسلين و من تبعهم بإحسانٍ إلى يوم الدين عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
(داعی ومترجم جمعیۃ الدعوۃ ‘میسان ‘طائف‘مملکتِ سعودی عرب)
· قربانی کا معنی: اونٹ ‘گائے‘بیل‘خصی ‘بکری میں جو عید الأضحی اور ایام تشریق میں بطور تقرب إلی اللہ ذبح کیا جاتا ہے ‘اسے قربانی کہا جاتا ہے (فقہ السنة ازسيد سابق :3/195)
· قربانی کی حکمت :قربانی ایک عظیم عمل ہے جو بہت ساری حکمتوں کے پیش نظر انجام دیا جاتا ہے‘مثلا: (۱)قربانی اللہ کے تقرب کے حصول اور ثواب ِ الہی کے لئے دی جاتی ہے({فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر:2]چنانچہ اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے‘ نیز اللہ تعالی نے فرمایا : {قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} الأنعام:162 ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز ‘میری قربانی ‘میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لئے ہے
) (۲)امام الموحدین حضرت ابراہیم اور امام الأنبیاء جناب محمد ﷺکی سنت کے طور پر بھی دی جاتی ہے (و فدیناہ بذبحِ عظیم (الصافات:۱۰۷))(۳)اپنے اہل و عیال پر بقر عید کے دن توسیع کے لئے بھی قربانی پیش کی جاتی ہے (۴)غرباء‘فقراء ‘مساکین ‘محتاجگان اور ضرورت مندوں پر صدقہ و خیرات کرنے کے لئےہ بھی قربانی پیش کی جاتی ہے (۵)شکرانے کے طور پر بھی قربانی دی جاتی ہے‘اللہ نے فرمایا: ({فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ )(سورۂ الحج :۳۶)ترجمہ:اس سے کھاؤ‘اور ضرورت مندوں اور محتاجوں کو کھلاؤ‘اسی ط؎رح ہم نے انہیں تمہارے لئے تابع کر دیا ‘تاکہ تم شکر گزاری کر سکو۔
· قربانی کا حکم :قربانی کے حکم کے تعلق سے علمائے اسلام میں اختلاف رہا ہے کہ قربانی واجب ہے یا سنتِ مؤکدہ ‘امام ابو حنیفہ ۔رحمہ اللہ ۔ کے علاوہ ائمہ ثلاثہ اور جمہور اہل علم کے یہاں قربانی سنتِ مؤکدہ ہے‘حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہما ) فرمایا کرتے تھے:ھی سنۃ و معروف ترجمہ:یہ سنت ہے‘اور اسلام میں ایک معروف چیز ہے ( بخاری :۵۵۴۵)‘امام ترمذی فرماتے ہیں: ,, اہل علم كے نزديك اسى پر عمل ہے كہ قربانى واجب نہيں ہے بلكہ رسول اللہ ﷺ كى سنتوں ميں سے ايك سنت ہے اور اسى پر عمل كرنا مستحب ہے اور امام سفيان ثورى اور امام ابن مبارك بهى اسى كے قائل ہيں - "(سنن ترمذى :بعد الحديث ؛1506 ‘‘۔‘حضرات ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما)کبھی کبھار قربانی اس خوف سے چھوڑ دیا کرتے تھے کہ اسے واجب نہ قرار دیا جائے (دیکھئے: طبرانی رقم :۳۰۵۸‘بیہقی رقم:۱۹۵۰۸‘ارشاد الفقیہ (۱ ۳۵۲)میں ابن کثیر نے اس کی سند کو ‘‘جید,,کہا ہے‘جبکہ علامہ البانی نے (ارواء الغلیل :۴ ۳۵۵)میں صحیح قرار دیا ہے)جو اس بات کی قوی دلیل ہے‘کہ قربانی واجب نہیں ہے ‘اور دلائل کا جائزہ لینے کے بعد راجح اور قوی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قربانی سنتِ مؤکدہ ہے‘ ہاں اگر کسی نے قربانی کے لئے نذر مانی ہے‘تو ایسی صورت میں اس پر واجب ہوگی ‘جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ,, یوفون بالنذر ‘‘ سورۂ الدہر:۷)ترجمہ :نذر پوری کرتے ہیں ‘نیز نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا: ‘‘مَن نَذَرَ أن يُطيعَ اللهَ فلْيُطِعْه، ومَن نَذَرَ أن يَعْصِيَه فلا يَعْصِه ,,( بخاری رقم:۶۶۹۶)ترجمہ:جس نے اللہ کی اطاعت کے لئے نذر مانی ’تو اسے اپنی نذر پوری کرنی چاہئے‘اور جس نے معصیت کی نمذر مانی ‘تو وہ اللہ کی معصیت نہ کرے
· سب سے افضل اور بہتر قربانی :وہ جانور ہے‘جسے نبیٔ کریمﷺ نے ذبح فرمایا: نبی ٔ کریم ﷺ نے سینگ دار چتکبرا جانور ذبح فرمایا : (بخاری : رقم ۵۵۵۸‘مسلم رقم:۱۹۶۶)
· جانور کو موٹا کرنا ‘اسے خوبصورت بنانا ‘اسے کھا پلا کر موٹا فربہ کرنا‘تعظیم شعائر اللہ میں سے ہے‘یہی بات حضرت ابن عباس ۔رضی اللہ عنہما۔نے ( و من یعظم شعائر اللہ فإنہا من تقوی القلوب)کی تفسیر میں فرمائی ہے(دیکھئے:تفسیرِ طبری :۱۷۱۵۶)‘صحابۂ کرام قربانی کے جانور کو خوب فربہ کرتے تھے‘اس کی نشو و نما میں خوب خوب حصہ لیتے تھے ‘حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں:‘‘ كُنَّا نُسَمِّنُ الْأُضْحِيَّةَ بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُسَمِّنُونَ ,,(دیکھئے:بخاری رقم:)ترجمہ:ہم لوگ مدینہ میں قربانی کے جانور کو خوب موٹا کرتے تھے ‘اور مسلمان (یعنی تمام صحابہ)موٹا فربہ کرتے تھے
· قربانی کا جانور جتنا مہنگا ہوا ‘اس قدر افضل اور اعلی ہوگا ‘جیسا کے نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا:‘‘ أغلاها ثمناً وأنفسها عند أهلها،،ترجمہ:سب سے بہتر وہ جو قیمت کے اعتبار سے مہنگا اور اس گھر والوں کے یہاں نفیس ہو (بخاری رقم:۲۵۱۸)امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں: ‘‘ انسان کے نزدیک قربانی کا جانور دیکھنے میں جتنا اچھا لگے گا‘اللہ کے نزدیک اتنا ہی بہتر ہوگا ,,(صحیح ابن خزیمہ رقم:۱۴۲۹۱)
· سعودى مجلس افتا كا فتوىٰ: قربانی کے بہتر اور افضل ہونے کے تعلق سے مملکتِ سعودی عرب کی مجلسِ افتا کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :‘‘قربانيوں ميں افضل اونٹ، پهر گائے پهر بكرى اور پهراونٹنى يا گائے كى قربانى ميں شركت ہے كيونكہ آپ ﷺ نے جمعہ كے متعلق فرمايا: "جو پہلى گهڑى ميں (مسجد ميں ) گيا گويا كہ اس نے اونٹ كى قربانى كى، اور جو دوسرى گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے گائے كى قربانى كى، اور جو تيسرى گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے سينگ والے مينڈهے كى قربانى كى اور جو چوتهى گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے ايك مرغى كى قربانى كى اور جو پانچويں گهڑى ميں گيا گويا كہ اس نے ايك انڈہ قربان كي,,
اس حديث ميں محل شاہد اللہ تعالىٰ كى طرف تقرب ميں اونٹ، گائے اور بھیڑبكريوں كے درميان ايك دوسرے پر فضيلت كا وجود ہے اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ قربانى اللہ تعالىٰ كا قرب حاصل كرنے كا بہت بڑا ذريعہ ہے اور اونٹ قیمت، گوشت اور نفع كے لحاظ سے سب سے زيادہ ہے- ائمہ ثلاثہ يعنى امام ابوحنيفه،امام شافعی اور امام احمد بھی اسى كے قائل ہيں اور امام مالک نے فرمايا كہ (قربانى ميں ) افضل بھیڑ کا کھیرا ہے پھرگائے اور پھر اونٹ ہے كيونكہ نبى ﷺ نے دو مينڈھے قربان كيے اور آپ ﷺ صرف افضل كام ہى كرتے تھے- اس كے جواب ميں يوں كہا جا سكتا ہے كہ يقينا آپ ﷺ بعض اوقات غير افضل كام كو بھى امت پر نرمى كرنے كى غرض سے اختيار فرما ليا كرتے تھے كيونكہ وہ آپ كى اقتدا كرتے تھے اور آپ يہ پسند نہيں كرتے تھے كہ ان پر مشقت ڈاليں ليكن آپ ﷺ نے اونٹ کو گائے اوربھیڑ بكريوں پر فضيلت بيان كر دى ہے جيسا كہ ابھی پیچھے گذرا ہے- واللہ اعلم(دیکھئے:فتاوىٰ اسلاميہ :۲؍۳۲۰)
· قربانی کی شرائط :کسی بھی عمل کے لئے شرائط ہوتی ہیں‘جب تک انہیں بجانہ لایا جائے‘اللہ وہ عمل قبول نہیں کرتا ‘قربانی کے شرائط میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
· نیت : نیت کا خالص ہونا‘اسے اللہ کے لئے خاص اور خالص کرنا قربانی کی قبولیت کی سب سے عظیم شرط ہے‘اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الانعام :162) ("آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے-)
· حلال مال سے قربانی کیا جائے : قربانی کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ اسے حلال مال سے خریدا گیا ہو‘حرام مال سے خریدا گیا مال ذبح کرنے سے قربانی قبول نہیں ہوتی ہے‘نبی ٔ کریم ﷺ نے فرمایا: }يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ{ البقرة:172( ترجمہ:اے مومنو!ہم نے جو تم کو پاکیزہ مال دیا وہی کھاؤ ‘اور اللہ کا شکر ادا کرو‘اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو‘نیزنبیٔ کریمﷺ نے فرمایا:(أيها الناس إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا)مسلم رقم:۲۳۴۶) ترجمہ:اے لوگو! بے شك اللہ تعالىٰ پاك ہے اور صرف پاكيزہ چيز كو ہى قبول كرتا ہے-"
· قربانی سنت کے مطابق ہو‘چنانچہ اگر کسی نے قربانی وقت سے پہلے کرلی تو اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی ‘جیسا کہ نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا: (عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : ضَحَّى خَالٌ لِي يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ قَبْلَ الصَّلاةِ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ(بخاری رقم :۵۵۶۰ مسلم رقم:۱۹۶۱)ترجمہ:حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ میرے مامو ابو بردہ نے نمازِ عید سے پہلے ہی قربانی کرلی ‘تو آپ ﷺ نے فرمایا:تمہاری یہ بکری گوشت والی بکری ہے(یعنی یہ قربانی گوشت کھانے کے لئے کیا تھا)اس بات پر ابن منذر نے (الإجماع:۱؍۶۰میں)‘ ابن عبد البر نے(التمہید:۲۳؍۱۹۶ میں)اور قرطبی نے (تفسیر قر[طبی ۱۲؍۴۳ میں)اجماع نقل فرمایا ہے)
· قربانی انہیں جانور کی جائز ہوگی جو بیہمۃ الأنعام میں سے ہو ‘بہیمۃ الأنعام میں اونٹ ‘گائے‘بکری شامل ہے)
· قربانی کے جانور کے لئے عمر کا اعتبار :شریعتِ مطہرہ نے قربانی کے جانور کے لئے عمر کا اعتبار کیا ہے‘اس کے بغیر جو قربانی کرے گا‘قبول نہیں ہوگی ‘چنانچہ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا(لاتذبحوا إلامسنة إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن)(مسلم رقم :۱۱۷) ترجمہ: "مُسِنّہ ہى ذبح كرو، الايہ كہ تم پر تنگى ہو تو بھیڑ كا کھیرا ذبح كر لو-)‘چنانچہ اونٹ ۵ سال میں ‘گائے ‘دوسال میں اور بکری ایک سال میں دانتا ہوتا ہے‘یہ عمومی رواج ہے ( دیکھئے:الشرح الممتع:۷؍۴۲۵‘فتاوی اللجنۃ الدائمہ :۱۱؍۴۱۴۔۴۱۵)‘مسنۃ کی تعریف : امام نووّی مُسنہ کی تو ضیح کرتے ہوئےفرماتے ہیں:’’(قال العلماء: المسنة هي: الثنية من كل شيء من الإبل والبقر والغنم فما فوقها، وهذا تصريح بأنّه لا يجوز الجَذَع من غير الضأن في حال من الأحوال، وهذا مجمع عليه على ما نقله القاضي عياض)ترجمہ: مُسنہ اونٹ،گائے،بھیڑ اور بکری میں سے دو دانتا یا اس سے بڑی عمر کا ہونا چاہیے‘قاضی عیاض کے قول کے مطابق اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے(دیکھئے:شرح النووی:۱۱۷؍۱۳(‘امام شوکانی فرماتے ہیں: ‘‘علماء کہتے ہیں: مُسنہ اونٹ،گائے،بھیڑ اور بکری میں سے دو دانتا یا اس سے بڑی عمر کا جانور ہوتا ہے اور حدیث میں صراحت ہے کہ ,,(نیل الأوطار:۵؍۱۲۰)یہ واضح ہونا چاہئے کہ حدیث یا لغت میں جہاں (المسنۃ یا الثنی ) کے الفاظ آئے ہیں‘ان میں کوئی فرق نہیں‘یہ مترادف الفاظ ہیں ‘یعنی وہ جانور جس کے اگلے دو دانت گر گئے ہوں‘لہذا اگر دو دانتا جانور مل جائے تو اسی کی قربانی کی جائے گی (سبل السلام از امیر صنعانی :۴؍۱۳۵۶)‘اگر دو دانت کا جانور نہ ملے ‘اس کی حصولیابی مشکل ہوجائے تو بھیڑ کے کھیرے کی قربانی جائز ہوگی ‘جس کی طرف حدیث میں اشارہ ‘بلکہ صراحت موجود ہے۔
· بھینس کی قربانی :بھینس کی قربانی کے بارے میں خود علمائے اہل حدیث میں اختلاف ہے‘چنانچہ بعض اسے صحیح قرار دیتے ہیں ‘جیسے علامہ ثناء اللہ امرتسری (فتاوی ثنائی :۱؍۵۲۰)‘ جبکہ دوسری طرف بعض علمائے اہل حدیث بڑی شدت سے اس کا انکار کرتے ہیں‘جن میں حافظ عبد اللہ روپڑی (فتاوی اہل حدیث ۲؍۴۲۶۔۴۲۷))جیسے علمائے اہل حدیث شامل ہیں ‘عصرِ حاضر کے بعض محققین بھی اس میں سرِ فہرست شامل ہیں‘شیخ عنایت اللہ سنابلی مدنی نے اس کے جواز کے متعلق ایک کتابچہ(بھینس کی قربانی ایک علمی جائزہ) بھی ترتیب دیا ہے‘جس میں اس کے جواز کو ثابت کیا گیا ہے‘دونوں فریق اپنے اپنے انداز سے دلائل پیش کرتے ہیں‘ جن حضرات نے اسے لغوی اعتبار سے (نوع من البقر)صحیح گردانا‘انہوں نے اس کی قربانی کے جواز کا فتوی صادر فرمایا‘اور جنہوں نے بہیمۃ الأنعام کو قرآن کی توضیح و تصریح کے مطابق یہ سمجھا کہ قرآن میں تو باقاعدہ بہیمۃ الأنعام کی صراحت کردی گئی ہے‘ لہذا انہیں موسوم بہیمۃ الأنعام کی قربانی ہوگی ‘انہوں نے بھینس کی قربانی کو غیر مشروع و غیر مسنون قرار دیا ‘ذاتی طور پرمیرامیلان اس کے جواز کی طرف ہے ‘اور یہی قول راحج معلوم ہوتا ہے‘کیوں کہ قرآن و حدیث کو بغیر لغت کے نہیں سمجھا جا سکتا ہے‘البتہ مجھے اس پر اصرار نہیں‘جسے جو دلائل وزنی معلوم ہوں‘اسے اس پر عمل کرنا چاہئے ‘اور اس موضوع پر شدت اختیار نہیں کرنا چاہئے
· بے نمازی کی قربانی :آج کے اس دور میں جس بے رحمی سے انتہائی شاطرانہ طور پر نماز ترک کی جارہی ہے‘انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے‘اور ایسے ہی لوگ عیدین کے لئے سب سے آگے رہتے ہیں‘جو نماز روزہ میں پیچھے رہتے ہیں ‘ عام مشاہدہ ہی ہے کہ قربانی کا بکرا سب سے مہنگا وہی خریدتے ہیں‘اور قربانی کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘حالانکہ ان کی قربانی مشکوک ‘مشتبہ اور راجح ترین قول کے مطابق درست نہیں ہے‘کیوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:فصل لربک وانحر (نماز پڑھو اور قربانی کرو) یہاں گوکہ معنی یہ ہے کہ پہلے نماز پڑھو‘پھر قربانی کرو ‘مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نماز پڑھو اور قربانی کرو یعنی جو نماز نہیں پڑھتا اسے قربانی کا کوئی حق نہیں ۔
· قربانی کا وقت:قربانی کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ وقت پر ذبح کیا جائے ‘چنانچہ اگر کسی نے وقت سے پہلے قربانی کرلی تو اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی ‘جیسا کہ مذکورہ حدیث میں بیان ہوا
· ذبح کے وقت کیا کہنا چاہئے ؟ذبح کے وقت کی دعا یہ ہے («وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفاً وما أنا من المشركين، إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا من المسلمين». ثم إذا باشر الذبح أن يقول: «باسم الله والله أكبر، اللهم هذا منك ولك )بعض علماء نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے‘اور لکھا کہ بسم اللہ اکبر کہہ کر قربانی کرنی چاہئے ‘لیکن محققین علماء نے اسے صحیح کہا ہے (دیکھئے‘ابو داؤد:۲۸۰۵‘شیخ محفوظ الرحمن فیضی کی کتاب :چند مضامینِ فیضی ص؍۱۲۱۔۱۲۷ )
· افضل یہ ہے کہ انسان خود ذبح کرے‘اگر کسی کو وکیل بنادے تو بھی جائز ہے ‘نبیٔ کریمﷺ نے خوداونٹ (نحر) ذبح فرمائے‘باقی کو ذبح کرنے کے لئے حضرت علی کو مقرر فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے کو بھی ذبح کرنے کے لئے مقرر کیا جا سکتا ہے’ (دیکھئے: حج سے متعلق حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہما)کی لمبی حدیث مسلم رقم:۱۲۱۸ )
· قربانی کا جانور بیچا نہیں جا سکتا ہے ‘اگر کسی نے کوئی جانور قربانی کے لئے خریدا‘تو اس کا بیچنا قطعی جائز نہیں ہوگا ‘دیکھئے: ( مسلم رقم:۴۲۲۴)ہاں اگر کوئی اس جانور سے بہتر ‘افضل‘موٹا اور فربہ خریدنے کی نیت سے بیچنا چاہے تو اس کی گنجائش ہوگی ‘کیوں کہ یہ افضل قربانی کی طرف پیش رفت شمار ہوگی ‘اور افضل قربانی بہر حال اہم ہے
· قربانی کے جانور کے لئے بے عیب ہونا ضروری ہے‘نبی کریمﷺ نے فرمایا :( "أربع لا تجوز في الأضاحي: العوراء البيّن عورها، والمريضة البيّن مرضها، والعرجاء البيّن ظلعها والكسير التي لا تنقي)(ابوداؤد رقم:۲۸۰۲‘ارواء الغلیل میں البانی اسے صحیح کہا ہے:۱۱۴۸)ترجمہ: "چار جانور قربانى ميں جائز نہيں : واضح طور پر آنكھ كا كانا، ايسا بيمار جس كى بيمارى واضح ہو، لنگڑا جس كا لنگڑا پن ظاہر ہو،اور ايسا كمزور جس ميں چربى نہ ہو,,یہاں بطور فائدہ شیخ ابن عثیمین کی ایک تقسیم ذکر کرنا مناسب خیال کرتا ہوں ‘شیخ فرماتے ہیں‘جس ترجمہ کچھ یوں ہے:‘‘عیوب کی تین قسمیں کی جا سکتی ہیں:پہلی قسم :جس کی دلیل سنت میں واضح طور پر موجود ہے‘یعنی ایسا کانا جس کا کانا پن واضح ہو‘ایسا بیمار ‘جس کی بیماری واضح ہو‘ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو‘اور ایسا کمزور جس میں کوئی چربی نہ ہو‘ان عیوب پر واضح نص موجود ہے کہ ان کی قربانی جائز نہ ہوگی ‘جو عیوب ان جیسے ہوں گے‘یا اس سے اوپر تو ان کو انہیں پر قیاس کیا جائے گا ’دوسری قسم :جن جانوروں کی قربانی ناجائز ہونے کی ممانعت وارد ہوئی ہے‘جو عیوب ان کے کان یا سینگ میں ہوتے ہیں‘چاہے سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا کان پھٹا ہوا ہو چاہے لمبائی میں یا چوڑائی میں یا آدھے سے کم کٹا ہوا ہو ‘ان کے جائز نہ ہونے کے تعلق سے حضرت علی کی روایت موجود ہے ‘لیکن یہ ممانعت کراہت پر محمول ہوگی ‘کیوں کہ چار عیوب کو محصور کرنے والی حدیث موجود ہے‘کہ ان عیوب والے جانور کی قربانی جائز نہ ہوگی ‘تیسری قسم :وہ عیوب جن کے متعلق ممانعت تو وارد نہیں ہے ‘البتہ وہ (عیوب) سلامتی میں قادح ضرور ہیں‘تو ان عیوب سے قربانی کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا‘اور نہ ہی ان کی قربانی مکروہ ہوگی ‘اور نہ ہی حرام ‘گوکہ لوگوں کے یہاں انہیں معیوب سمجھا جاتا ہو ‘جیسے ایسا کانا ‘جس کا کاناپن واضح نہ ہو‘نیز ایسا جانور جو معمولی لنگڑاتا ہو‘جس کا دانت ہلکا سا ٹوٹا ہوا ‘چنانچہ یہ عیب تو ہیں‘مگر ایسے عیوب نہیں کہ جو قربانی کے جائز ہونے میں رکاوٹ ہوں‘اور نہ ہی یہ عیوب کراہیت کو ثابت کرتے ہیں‘کیوں کہ ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے‘اور اصل چیز برائت ہے ,,(الشرح الممتع ۷؍۴۴۰)لہذا معمولی عیب دار جانور کی قربانی باتفاق درست ہے(دیکھئے:سبل السلام ۴؍۱۳۵۶‘عون المعبود:۸؍۱۸)حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:‘‘ "أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ والْأُذُنَ، ولَا نُضَحِّيَ بِعَوْرَاءَ، ولَا مُقَابَلَةٍ، ولَا مُدَابَرَةٍ، ولَا خرقاء، ولَا شَرْمَاءَ ,,(ابو داؤد رقم:۲۸۰۴‘جرمذی رقم:۱۴۹۸‘نسائی رقم :۴۳۷۸‘و سندہ حسن)ترجمہ: رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قربانی کے جانور کی آنکھ کان اچھی طرح سے دیکھ لیں‘اور ہم ایسے جانور کی قربانی ہرگز نہ کریں جس کے کان آگے سے کٹ کر لٹکے ہوں‘یا پیچھے سے کٹ کر لٹکے ہوں‘ایسا جانور جس کے کان طول و عرض میں پھٹے ہوں اور ایسا جانور جس کے کان میں گول سوراخ ہو‘‘
· حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے ‘اس میں کوئی حرج نہیں ہے ‘حضرت ابو سعيدسے روايت ہے وہ كہتے ہيں كہ ميں نے رسول اللہ ﷺ سے پيٹ كے بچے كے متعلق سوال كيا تو آپ ﷺ نے فرمايا "اگر تم چاہو تو کھالو اور مسددكہتے ہيں كہ ہم نے كہا اے اللہ كے رسول! ہم اونٹنى' گائے اور بكرى ذبح كرتے ہيں تو ہم اس كے پيٹ ميں بچہ پاتے ہيں كيا ہم اسے پھینک ديں يا اسے کھاليں ؟ آپ ﷺ نے فرمايا:"اگر تم چاہو تو اسے کھالو كيونكہ اس كا ذبح اس كى ماں كا ذبح كرنا ہى ہے۔(ابو داود:2827‘یہ حدیث حسن درجے کی ہے‘دیکھئے:مسند احمد:۳ ۴۳‘صحیح ابن حبان رقم:۵۸۸۹)‘یہی فتوی علامہ محمد بن إبراہیم آل الشیخ کا تھا‘فرماتے ہیں: ‘‘ حاملہ بکری کی قربانی درست ہے‘جس طرح سے دوسرے جانور کی قربانی جائز ہے ‘شرط یہ ہے کہ وہ عیوب سے پاک ہو‘جن سے قربانی کے جانوروں کا پاک ہونا ضروری ہے,,(دیکھئے:فتاوی و رسائل محمد بن إبراہیم آل الشیخ ۶؍۱۲۷)
اس صحيح حديث سے معلوم ہوا كہ حاملہ جانور خواہ اونٹنى ہو، گائے ہو يا بكرى ہو اسے قربانى كے ليے ذبح كيا جاسكتا ہے اور اس كے پيٹ كے بچے كو ذبح كيے بغير کھانا درست ہے ‘امام خطابی فرماتے ہیں:‘‘ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مذبوحہ جانور کے بچے کو کھانا جائز ہے‘بشرطیکہ کہ اس کی ماں کو ذبح کیا گیا ہو خواہ بچے کو دوبارہ ذبح نہ ہی کیا جائے (دیکھئے:عون المعبود:۸؍۳۴۔۳۵),,ليكن اگر طبعى كراہت كے پيش نظر اسے پھینک ديا جائے تب بھی كوئى حرج نہيں كيونكہ نبى ﷺ نے صحابہ كو لازمى طور پر پيٹ كا بچہ کھانے كا حكم نہيں ديا بلكہ اسے ان كى طبيعت و چاہت پر ہى معلق رکھا-
علاوہ ازیں جو حضرا ت اس کی کراہت کی بات کرتے ہیں‘یا اسے ناپسند کرتے ہیں‘یا اسے حرام و مکروہ سمجھتے ہیں‘وہ سراسر غلطی پر ہیں‘یہ انسان کی طبیعت پر موقوف و منحصر ہے چاہے تو کھالے اور اگر ناطبیعت پر ناگوار گزرے تو اسے چھوڑ دے ‘کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
· ذبح کرنے کے آداب
(۱)جانور کو ذبح کرنے سے پہلے چھری کو خوب تیز کر لیا جائے(مسلم رقم:۱۹۵۵)
(۲)جانور کے سامنے چھری تیز نہ کیا جائے (صحیح الترغیب رقم۱۰۹۰)
(۳)جانور کو قبلہ رخ کرلینا بھی محبوب عمل ہے ‘اور آداب میں شامل ہے(ابو داؤد رقم ۲۷۹۵ٰ سندہ صحیح )
(۴)اونٹ کے علاوہ دوسرے جانور کو لٹاکر ذبح کرنا (دیکھئے:مسلم رقم ۱۹۶۷)
(۵)ذبح کرتے وقت ذبیحہ کے پہلو پر قدم رکھنا (دیکھئے:بخاری رقم ۵۰۵۸‘مسلم رقم:۱۹۶۶)
(۶)جانور ذبح کرنے سے پہلے دعا پڑھنا (ابوداؤد رقم :۲۷۹۵)
(۷)اونٹ کو کھڑے کھڑےنحر کرنا‘اللہ تعالی کے فرمان فاذکروااسم اللہ علیہا صوافّ(الحج :۳۶)کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ صوافّ کی تفسیر قیاما ہے‘یعنی اونٹ کو کھڑے کھڑے نحر کرنا(دیکھئے:بخاری کتاب الحج باب نحر البد قائما)‘نبیٔ کریمﷺ کے عمل کے بارے میں حضرت انس نے فرمایا کہ جب آپﷺ نے اونٹ ذبح کئے تو کھڑے نحر فرمایا تھا‘دیکھئے:بخاری رقم:۱۷۱۲‘ابوداؤد رقم:۱۷۹۶)(۸)
· قربانی کے وقت اگر بسم اللہ کہنا بھول جائے تو کوئی حرج نہیں ‘کیوں کہ اللہ نے بھول چوک معاف فرمادیا ہے (دیکھئے :ابن ماجہ رقم:۲۰۴۳‘و سندہ صحیح )
· ذبح کرتے وقت اگر جانور کی گردن علیحدہ ہوجائے تو کوئی حرج نہیں (دیکھئے بخاری قبل رقم:۵۵۱۰)
· عيد الاضحى اور اس كے بعد تين دن یعنى تيرہ 13/ذو الحجہ كى شام تك قربانى كى جاسكتى ہے كيونكہ عيد الاضحى كے بعد 11،12،13ذو الحجہ كے دنوں كو ايام تشريق كہتے ہيں(دیکھئے:تفسير احسن البيان :ص82 ،نيل الاوطار :ج3/ص490("
اور تمام ايام تشريق كو ذبح كے دن قرار ديا گيا ہے اس كى دليل مندجہ ذيل حديث ہے: (عن جبير بن مطعم عن النبي صلی اللہ علیہ و سلم :كل أيام التشريق ذبح)ترجمہ:تمام ايام تشريق ذبح كے دن ہيں) -" (احمد : رقم:16797)طبراني رقم:۱۵۸۳‘بیہقی رقم:۱۰۵۲۵‘صحيح ابن حبان :۳۸۴۲، صحيح الجامع الصغير :۴۵۳۷(
· ایام تشریق کی راتوں میں بھی قربانی کی جاسکتی ہے (دیکھئے :المغنی ابن قدامہ :۹؍۴۵۴‘نووی کی کشف القناع:۳؍۱۰)
· اگر کسی کے پاس وقتی طور پر پیسے نہ ہوں‘اورقرض لے کر قربانی دینے کی نوبت آجائے ‘جسے بعد میں ادا کرنے کی امید ہو تو قرض لے کر قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ایسا کرنا ضروری نہیں مگر بہتر ضرور ہے(دیکھئے:مجموع فتاوی ابن تیمیہ ۲۶؍۳۰۵)
· اونٹ میں دس اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:( نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ) (مسلم رقم:1318)‘نیز نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا: كنَّا معَ رسولِ اللهِ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ في سفرٍ ، فحضرَ الأضحى ، فاشترَكنا في الجزورِ عن عشرةٍ ، والبقرةِ عن سبعةٍ(ابن ماجہ رقم:۲۵۵۳ٰ صححہ الألبانی)ترجمہ:ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں تھے‘عید الأضحی آگئی تو ہم اونٹ میں دس آدمی شریک ہوگئے اور گائے میں سات آدمی ,,یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں‘مگر ایسا ضروری نہیں ‘کچھ لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ ان کی غلط فہمی ہے
· پورے گھر والے کی طرف سے ایک بکری کافی ہے حضرت ابو ایوب انصاری رصی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ( كَانَ الرَّجُلُ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِالْشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ )(ترمذی رقم:۱۵۰۵‘ابن ماجہ رقم:۳۱۴۷علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)ترجمہ: ‘‘نبیٔ اکرمﷺ کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے پورے گھر والے کی طرف سے ایک بکری کی قربانی دیا کرتے تھے ‘چنانچہ وہ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تھے ,, ۔لہذا ایک بکری ایک گھر کی طرف سے کافی ہے گوکہ اس گھر میں ۱۰۰ سو زائد افراد ہوں (الشرح الممتع ۵؍۲۷۵‘فتاوی اللجنۃ الدائمہ:۱۱؍۴۰۸)
· عورتیں بھی قربانی کرسکتی ہیں ‘حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو قربانی کرنے کا حکم دیتے تھے‘اور وہ اپنے ہاتھوں سے قربانی کیا کرتی تھی (دیکھئے بخاری قبل رقم :۵۵۵۹‘مصنف ابن ابی شیبہ رقم:۸۱۶۹‘فتح الباری ۱۰؍۲۵)‘جو لوگ عورتوں کے ذبح کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں وہ سراسر غلطی پر ہیں اور اسوۂ صحابہ سے دور
· جو قربانی کا ارادہ رکھے ‘وہ اپنے بال ‘ناخن ‘چمڑے میں سے کچھ بھی نہ لے‘جیسا کہ نبیٔ کریمﷺ نے فرمایا: (إذا رأيتم هلال ذي الحجة وأراد أحدكم أن يضحي فليمسك عن شعره وأظفاره)(مسلم :۳۶۵۵)
ترجمہ:جب تم ذو الحجہ كا چاند ديكھ لو اور تم ميں سے كوئى قربانى كا ارادہ ركهتا ہو تو وہ اپنے بال اور ناخن كاٹنے سے رك جائے- اگر کسی نے اپنے بال ناخن کاٹ لئے(چاہے عمدا کاٹے یا سہوا) تو اسے توبہ و استغفار کرنا چاہئے ‘اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا‘اور نہ ہی اسے فدیہ دینا ہوگا( دیکھئے:(المغنی از ابن قدامہ :۹؍۴۳۷‘مرداوی کی الانصاف:۴؍۸۰)
· قربانی کے گوشت کی تقسیم کا مسئلہ : بعض علما نے كہا ہے كہ قربانى كا گوشت تقسيم كرنے كا افضل طريقہ يہ ہے كہ گوشت كے تين حصے كيے جائيں - ايك حصہ خود کھايا جائے،دوسرا حصہ اپنے اقربا اور دوست احباب وغيرہ كو كهلا ديا جائے اور تيسرا حصہ غرباء و مساكين ميں تقسيم كر ديا جائے- امام احمد بھی اسى كے قائل ہيں - ان حضرات كى دليل ابن عمر سے مروى يہ قول ہے كہ انہوں نے كہا كہ
‘‘قرباني كا تيسرا حصہ تمہارے ليے ہے اور تيسرا حصہ تمہارے گهروالوں كے ليے ہے اور تيسرا حصہ مساكين كے ليے ہے,,(مزيد تفصيل كيلئے:دیکھئے: المغنى لابن قدامہ :۹؍۳۷۹)
اگر چہ علما نے اس تقسيم كو افضل كہا ہے ليكن يہ تقسيم ضرورى نہيں ہے بلكہ حسب ِضرورت ،حالات كے مطابق بھی گوشت تقسيم كيا جاسكتا ہے يعنى اگر فقراء ومساكين زيادہ ہوں تو زيادہ گوشت صدقہ كر دينا چاہيے اور اگر ايسا نہ ہو بلكہ اكثر وبيشتر لوگ خوشحال ہوں تو زيادہ گوشت خودبھی استعمال كيا جاسكتا ہے اور اسى طرح آئندہ ايام كے ليے ذخيرہ بھی كيا جاسكتا ہے كيونكہ قرآن ميں مطلقاً قربانى كا گوشت کھانے اور کھلانے كا حكم ديا گيا ہے جيسا كہ ارشادِ بارى ہے :﴿وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّـهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ﴾ (الحج : ۳۶)
"قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہیں نفع ہے۔ پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں اسے (خود بھی) کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ-"
ايك اور آيت ميں ہے كہ ‘‘اپنے فائدے حاصل كرنے كے ليے آجائيں اور ان چوپايوں پر جو پالتو ہيں ، ان مقررہ دنوں ميں اللہ كا نام ياد كريں - پس تم خود بھی کھاؤ اور فقيروں كو کھلاؤ
درج بالا آيات سے معلوم ہوا كہ حسب ِضرورت قربانى كا گوشت کھایا اور کھلایا جاسكتا ہے، البتہ تين دن سے زيادہ ذخيرہ كرنے سے رسول اللہ ﷺ نے خاص مصلحت كے تحت ابتداے اسلام ميں منع فرما ديا تھا جيسا كہ ايك حديث ميں ہے كہ
"حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روايت ہے كہ نبى ﷺ نے فرمايا: كوئى بھی اپنى قربانى كا گوشت تين دن سے اوپر نہ کھائے۔"(مسلم رقم:۵۱۰۰)
ليكن پھر اس كى اجازت دے دى تھی جيسا كہ ايك دوسرى حديث ميں ہے كہ
حضرت سلمہ بن اكوع رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
"تم ميں سے جو قربانى كرے تيسرے دن كے بعد اس كےگھر میں اس ميں سے كوئى چيز باقى نہ ہو- پس اگلے سال صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول ﷺ! كيا اس سال بھی ہم اسى طرح كريں جس طرح ہم نے گذشتہ سال كيا؟ آپ ﷺ نے فرمايا :کھاؤ اور کھلاؤ اور ذخيرہ كرو۔ بے شك اُس سال لوگ مشقت ميں تھے تو ميں نے ارادہ كيا كہ تم ان كى مدد كر دو(بخارى رقم:۵۵۶۹)مذكورہ دلائل سے يہ بات ثابت ہو جاتى ہے كہ قربانى كے گوشت كے تين يا دو حصے کرکے تقسيم كرنا ضرورى نہيں بلكہ حالات كے مطابق كسى بھی طريقے سے گوشت کھایا اور کھلایا جاسكتا ہے اور ذخيرہ اندوزی بھی کی جا سکتی ہے
امام ابن قدامہ رحمه الله فرماتے ہیں:‘‘تين دنوں سے زيادہ قربانيوں كا گوشت ذخيرہ كرنا جائز ہے,, (دیکھئے:المغنى :۹؍۳۸۱)
· قربانی کا گوشت کفار کو دیا جا سکتا ہے‘قربانی کے اہم مسائل میں ایک مسئلہ قربانی کے گوشت کو کافروں کو دینے سے متعلق ہے کہ کیا قربانی کا گوشت کافروں کو جو مانگنے آتے ہیں دیا جا سکتا ہے ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ قربانی کا گوشت انہیں بلاشبہ دیا جا سکتا ہے‘اللہ تعالی نے فرمایا: (( لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ)(الممتحنۃ:۸)ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ احسان اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے جنگ نہیں لڑتے، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کرتے، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘ابن قدامہ فرماتے ہیں: (یہ بھی جائز ہے کہ اس [قربانی کے گوشت]سے کافر کو بھی کھلایا جائے۔۔۔، کیونکہ یہ نفلی صدقہ ہے، اس لئے یہ ذمی اور قیدی کو کھلانا جائز ہے، جیسے کہ دیگر صدقات انہیں دئے جا سکتے ہیں )(دیکھئے: المغنی ۹؍۴۵۰‘فتاوی اللجنۃ الدائمہ:۱۱؍۲۴۲‘مجموع فتاوی ابن باز :۱۸؍۴۸)
· قربانی کا گوشت خود کھانا ضروری نہیں ہے ‘بعض لوگ جو ایسا سمجھتے ہیں‘وہ درست نہیں ہے‘قربانی کرنے والا اگر نہ چاہے تو کھانا ضروری نہیں ہے
· قربانی کے گوشت سے روزہ افطار کرنے کا عقیدہ درست نہیں ہے ‘البتہ یہ آپﷺ کا معمول تھا کہ عید الأضحی کے لئے بغیر کھائے پئے نماز عید کے لئے نکلتے تھے ‘اور گوشت سے کھانے کی ابتدا فرماتے تھے‘کلیجے سے کھانے کی ابتدا بھی کوئی ضروری نہیں ( مجموع فتاوی و رسائل شیخ محمد بن عثیمین ۱۶؍۱۲۰)
· نبیٔ کریمﷺکی طرف سے قربانی کرنا بدعت ہے‘صحابۂ کرایم رضوان اللہ علیہم سے زیادہ کسی کو بھی آپ سے محبت نہیں ہوسکتی ہے ‘اس کے باوجود ان میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا ہے‘نہ ہی کسی صحیح اور صریح حدیث سے ایسا ثابت نہیں ہے‘جو اس کے بعدت ہونے کی واضح دلیل ہے‘اس تعلق سے جو حدیث مروی ہے ‘وہ ضعیف ہے‘محققین علمائے حدیث نے اس صراحت کی ہے(دیکھئے :)
· میت کی طرف سے قربانی :مستقل طور پرمیت کی طرف سے قربانی نہ رسول اللہﷺ سے ثابت ہے‘نہ صحابہ ٔ کرام سے اور اسلاف ِ عظام سے اور نہ ہی امامانِ دین متبوعین سے ‘نہ ہی ایسی کوئی صحیح اور صریح دلیل موجود ہے ‘ہاں یہ ضرور ہے کہ علمائے محققین خود اس بارے میں مختلف موقف رکھتے ہیں ‘تاہم صحیح اور راجح بات یہی ہے کہ میت کی طرف سے مستقلا قربانی درست نہیں ہے ‘میت کو فائدہ پہنچانے‘ثواب پہنچانے اور اس کے میزانِ حسنات میں اضافہ کے اور بھی صحیح طریقے شریعت نے بتلائے ہیں‘انہیں اپنانا چاہئے۔
· اگر قربانی کا جانور گم ہوجائے تو مالک کو اختیار ہے کہ دوسرا جانور خریدے یا نہ خریدے (دیکھئے:السنن الکبری ۹؍۲۸۹‘و سندہ صحیح )
· قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اگر عیب دار ہوجائے تو اسی کی قربانی کی جائے‘اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ‘جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر سے مروی ہے (دیکھئے السنن الکبری ۹؍۲۸۹ و سندہ صحیح )
· قربانی کے چرم کو اپنے مصرف میں لایا جا سکتا ہے‘اسے دوسرے کو ہدیہ کیا جا سکتا ہے‘مگر اسے بیچا نہیں جا سکتا ہے(دیکھئے:فیض القدیر :۶؍۱۲۱‘المغنی ۹؍۱۹۵)
· قربانی کا چمڑا قصاب کو بطورِ اجرت دینا بھی ناجائز ہے (دیکھئے:مسلم رقم ۱۳۱۷)
· چرمہائے قربانی کو مدرسین کی تنخواہوں‘طلباء کے قیام و طعام کے لئے دیا جاسکتا ہے‘یہی فتوی علمائے محققین کا ہے (دیکھئے:فتاوی اہل حدیث ۵؍۱۰۶‘مجموعہ فتاوی عبد اللہ غازی فوری (کتاب الصلاہ ص ۳۰۴)
· قربانی کی جگہ صدقہ و خیرات کرنا :قربانی ایک مستقل امتیازی عبادت ہے‘اور صدقہ و خیرات دوسری مستقل عبادت ‘اس لئے ہر عبادت کی اپنی جگہ ایک الگ مقام اور جگہ ہے‘صدقہ و خیرات کو قربانی کا بدل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ‘جو لوگ ایسا حالات کے پیش نظر فتوی دیتے ہیں وہ صریح غلطی پر ہیں ‘ان کا یہ نظریہ بے بنیاد اور لا اساس ہے ‘اس سے کئی چیزیں لازم آتی ہیں
(۱)اس بے بنیاد فتوی سے یہ لازم آئے گا کہ قربانی نہ کرکے صلہ رحمی کو بجالایا جائے ‘کیوں کہ صلہ رحمی تو ضروری ہے‘صلہ رحمی نہ کرنا تو باعثِ دخول جہنم ہے‘کئی لعنتوں کا سبب ہے‘اور دنیا و آخرت میں بربادی کا سبب بھی ہے
(۲)اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اسلام نے ۔نعوذ باللہ ۔ غریبوں کے مسائل کا حل پیش نہیں کیا
(۳)جو قربانی کے بدلے صدقہ کا فتوی صادر فرماتے ہیں ‘اس سے بہت ساری عبادتوں کو یکسر نظر انداز کرنا بھی لازم آئے گا ‘وغیرہ وغیرہ
اس لئے یہ کہنا کہ قربانی کی جگہ صدقہ و خیرات ‘اور غریبوں میں انفاق سے کام لیا جائے ‘بے بنیاد ‘مضحکہ خیز اور عجیب و غریب بات ہے‘بیشک آپ صدقہ و خیرات کیجئے‘لیکن قربانی کا بدل قرار نہ دیجئے‘کیا دونوں ایک ساتھ انجام نہیں دیا جا سکتا ہے ؟ بیشک دیا جا سکتا ہے‘تو پھر قربانی کو صدقہ میں کیوں تبدیل کریں ؟
قربانی سے متعلق بعض اغلاط و بدعات
(۱)قربانی کرنے سے پہلے جانور کو دھونا
(۲)قربانی کرنے سے پہلے پورے گھر والوں کا جانور کے پاس جمع ہونا
(۳)قربانی اور عقیقہ ایک ساتھ کرنا:بعض لوگ عقیقہ کے جانور ہی میں قربانی کافی سمجھتے ہیں‘جو غلط ہے‘کیوں کہ قربانی ایک الگ چیز ہے‘اور عقیقہ دوسرا الگ حکم (دیکھئے:تحفۃ المولود از ابن القیم ص؍ ۶۸)
(۴)قربانی کے جانور کے پاس جاکر رونا
(۵)جانور ذبح کرتے ہوئے سب کا اجتماعی طور پر دعا پڑھنا
(۶)
قربانی سے متعلق بعض ضعیف احادیث
(۱)استفرهوا ضحاياكم فإنها مطاياكم على الصراط"
(3)
(۲)عظموا ضحاياكم فإنها على الصراط مطاياكم" وفي لفظ: "أسمنوا ضحاياكم فإنها مطاياكم
انظر: خفاء 1/337و 2/1794، المشتهر 197، تلخيص 4/1953، حسن الأثر 507، خلاصة البدر 2/2675، الغماز 23، الضعيفة 1/74، التحديث 172، الموسوعة 2444، و13960، موسوعة ابن حجر 5/261.
(3) قالوا: يا رسول الله ما هذه الأضاحي، قال: سنة أبيكم إبراهيم، قالوا: فما لنا فيها يا رسول الله، قال: بكل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف، قال: بكل شعرة من الصوف حسنة
انظر: الكشف الإلهي 1/296، الضعيفة 2937، تنوير العينين 329، خلاصة البدر 1/606، المعتبر 9، تخريج الضعاف 361، زاد المعاد 2/324، فيض 3/3476، المجموع 8/386، نيل الأوطار 5/131، تحفة الأحوذي 5/95، الضحايا 88، الدراية 1/191، التلخيص 2/18 و 3/118، المسند 3/2050 نصب الراية 2/115و 4/206، المستدرك 1/300، أستار 2433، الدارقطني 2/21، الكامل 7/2670، المتناهية 1/770، القبس 2/639، الموسوعة 8704، التحقيق 2/1365، رسالة لطيفة 19، مختصر استدراك الحاكم 1/68، شرح الفتح القدير 9/522، اللؤلؤ المصنوع 363 و1512، الحاوي بتخريج الفتاوي 786، الأحاديث والآثار التي تكلم عليها شيخ الإسلام مجلة الحكمة 6/42.
(4)
(5)