• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
10696203_687697154631890_3563328302292149041_n.jpg


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس کے پاس قُربانی کرنے کی گُنجائش ہو اور وہ قُربانی نہ کرے تو وہ ہمارے مُصلے کے پاس بھی نہ آئے

( مسند أحمد : 16/120 ، ،
صحيح الترغيب :1087 ، ، مشكلة الفقر : 102(الألباني))
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
سب گھر والوں كى جانب سے ايك قربانى كرنا كافى ہے !!!

ميں اور ميرى بيوى اپنے والد كے ساتھ رہتے ہيں، كيا ہم سب كى جانب سے ايك قربانى كافى ہے يا كہ دو جانور ذبح كرنا ہونگے ؟

الحمد للہ:

آپ كو ايك ہى قربانى كافى ہے، كيونكہ آدمى اور اس كے گھر والوں كى جانب سے ايك ہى قربانى كافى ہونا سنت سے ثابت ہے.

عطاء بن يسار كہتے ہيں كہ ميں نے ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں قربانى كس طرح ہوتى تھى ؟

تو انہوں نے جواب ديا: آدمى اپنےاور اپنے گھر والوں كى جانب سے ايك بكرى ذبح كرتا اور وہ خود بھى كھاتا اور دوسروں كو بھى كھلاتا تھا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1505 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.


مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر ميرى بيوى ميرے والد كے ساتھ ايك ہى گھر ميں رہتى ہو تو كيا ميرے اور ميرے والدين كے ليے ايك ہى قربانى كافى ہو گى ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اگر واقعتا ايسا ہى جيسا كہ آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے كہ باپ اور بيٹا ايك ہى گھر ميں رہتے ہيں تو پھر آپ اور آپ كى بيوى اور آپ كے والدين اور آپ دونوں كے گھروالوں كى جانب سے ايك ہى قربانى سنت كے مطابق ادا ہو جائيگى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 404 ).

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/45544


الاسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
كيا خصى جانور قربانى كرنا جائز ہے ؟

خصى شدہ جانور كى قربانى كرنے كا حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:

خصى جانور كى قربانى كرنے ميں كوئى ممانعت نہيں، ليكن اگر ايسا كرنے سے اس كے گوشت كو ضرر اور نقصان ہوتا ہو تو پھر منع ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قربانى ميں مانع عيوب بيان فرمائے ہيں جن ميں درج ذيل عيب شامل ہيں:

" واضح كانا، واضح بيمار جانور، لنگڑا، لاغر اور كمزور جس كى ہڈى كا گودہ ہى ختم ہو چكا ہو.

ان عيوب ان عيوب كو بھى قيا كيا جائيگا جو اس سے بھى زيادہ شديد ہيں، مثلا چلنے پھلنے سے عاجز، اور اندھا، اور اگلى يا پچھلى ايك ٹانگ كٹى ہونا... اس كى تفصيل سوال نمبر ( 36755 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے اس كا مطالعہ كريں.

ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ خصى جانور كو ان عيوب سے ملحق نہيں كيا جائيگا، ليكن اگر يہ گوشت ميں كسى قسم كا ضرر پيدا كرتا ہو تو پھر جائز نہيں.

امام نووى رحمہ اللہ سے ايك خصى سانڈھ كى قربانى كرنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے جواز كا فتوى ديا تھا.

ديكھيں: مواھب الجليل ( 3 / 239 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/45152
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
چاند نظرآنے کےبعد جب کوئي اپنے بال مونڈے تواس کایہ کام غلط ہے لیکن اس کی قربانی صحیح ہے

جب اس نے ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہونے کےبعد اپنے بال مونڈ لیے توکیا اس کی قربانی صحیح اورقبول ہوگي اس نے قربانی کی بھی نیت کررکھی تھی ؟

الحمدللہ:

شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں :

جی ہاں اس کی قربانی مقبول ہوگي لیکن وہ گنہگار ہوگا ، لیکن عام لوگوں میں جویہ مشہور ہوچکا ہے کہ جس نے بھی عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بال یا ناخن وغیرہ کاٹ لیے اس کی قربانی ہی نہيں ہوتی یہ بات صحیح نہیں ، کیونکہ ان تینوں اورقربانی کے صحیح ہونے میں کوئي تعلق ہی نہيں پایا جاتا ۔ اھـ دیکھیں الشرح الممتع لابن عثیمین رحمہ اللہ ( 7 / 533 ) ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/33818
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ايسے ملك ميں رہائش پذير ہے جہاں قربانى ذبح كرنا منع ہے كيا وہ قربانى كى قيمت صدقہ كر سكتا ہے ؟

ميں اور ميرا خاندان ايسے ملك ميں بستے ہيں جہاں ذبح كرنے كى اجازت نہيں، اس ليے ہميں كيا كرنا چاہيے، اور كيا ہم قربانى كى قيمت صدقہ كر سكتے ہيں ؟

الحمد للہ:

اگر تو ذبح سے مقصود قربانى يا عقيقہ كا جانور ہے، اور جہاں آپ رہائش پذير ہيں وہاں ذبح كرنا مشكل ہے تو آپ كے ليے افضل يہى ہے كہ آپ اس شخص كو قربانى كى رقم كسى دوسرے ملك ارسال كريں جو آپ كى طرف سے قربانى كا جانور ذبح كر دے، جہاں فقراء و مساكين اور قربانى كے اہل اور محتاج لوگ ہوں؛ كيونكہ قربانى يا عقيقہ كا جانور ذبح كرنا اس كى قيمت صدقہ كرنے سے زيادہ اولى اور افضل ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

فرع: ہمارے نزديك عقيقہ كرنا جانوى كى قيمت صدقہ كرنے سے افضل ہے، امام احمد رحمہ اللہ اور ابن منذر نے بھى يہى كہا ہے " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 414 ).

اور " مطالب اولى النھى " ميں ان كا كہنا ہے:

( اور اس كا ذبح كرنا ) يعنى قربانى ذبح كرنا ( اور ) عقيقہ ( كا جانور ذبح كرنا ) اس كى قيمت صدقہ كرنے سے بالنص افضل ہے، يعنى اس پر امام احمد رحمہ اللہ نے بالنص بيان كيا ہے ( اور اسى طرح قربانى بھى اس حديث كى بنا پر ( يوم النحر والے دن ابن آدم كا خون بہانے سے زيادہ اللہ تعالى كو كوئى بھى عمل محبوب نہيں، اور وہ روز قيامت آئيگا تو اس كے سينگ، اور كھر اور اس كے بال اپنے ساتھ لائيگا، اور زمين پر گرنے سے قبل اللہ تعالى كے ہاں خون مقام حاصل كر ليتا ہے، چنانچہ اس سے اپنے نفسوں كو اچھا بناؤ"

اسے ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قربانى كا جانور خود ذبح كيا اور قربانى كے اونٹ بھى اور ان كے بعد آنے والے خلفاء نے بھى ذبح كيا؛ اور اگر قربانى كے جانور كى قيمت صدقہ كرنا افضل ہوتى تو اس كو نہ چھوڑتے " انتہى.

مذكورہ بالا حديث علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الضعيفہ حديث نمبر ( 526 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا جس ملك اور علاقے ميں شخص خود موجود ہو اسى جگہ قربانى كا جانور ذبح اور نحر كرنا جائز ہے، يا كہ اس كى قيمت اپنے ملك يا كسى دوسرے اسلامى ملك ارسال كرنى جائز ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

افضل يہى ہے كہ جب آپ كے اہل و عيال آپ كے ساتھ ہوں تو اپنے ملك ميں ہى قربانى كريں، اور اگر آپ كے اہل و عيال كسى اور جگہ ہوں اور ان كے ليے قربانى كرنے والا كوئى نہيں تو آپ ان كو قربانى كرنے كے ليے رقم ارسال كريں " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى الشيخ بن عثيمين ( 24 / 207 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/85039
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
قربانى كے جانور ميں عمر كا خيال ركھنا !!

كيا قربانى كے جانور كے ليے كوئى عمر معين ہے ؟

اور كيا ڈيڑھ سال كى گائے قربانى ميں ذبح كي جا سكتى ہے ؟


الحمد للہ:

اول:

علماء كرام كا اتفاق ہے كہ شريعت مطہرہ نے قربانى كے جانور كے ليے عمر كى حد متعين كى ہے اس سے كم عمر كا جانور ذبح كيا جائے تو اس كى قربانى نہيں ہو گى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 176 ).

اس كى دليل كئى ايك احاديث ميں پائى جاتى ذيل ميں چند ايك احاديث پيش كى جاتى ہيں:

بخارى اور مسلم نے براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" ميرے ايك ماموں جن كا نام ابوبردہ تھا نماز عيد سے قبل ہى قربانى كا جانور ذبح كر ديا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

" تيرى بكرى ايك عام گوشت والى بكرى تھى "

تو انہوں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس گھر كى ايك بكرى كا جذعہ ہے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5556 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 1961 )


اور ايك روايت ميں ہے كہ:

" عناق جذعۃ " كے لفظ ہيں.

اور بخارى كى ايك روايت ميں ہے:

" ميرے پاس جذعہ ہے جو دوندے سے بھى بہتر ہے، كيا ميں اسے ذبح كر لوں ؟ "

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

ذبح كر لو، اور تيرے علاوہ كسى اور كے ليے صحيح نہيں "

اور ايك روايت ميں ہے:

" تيرے بعد كسى اور كے ليے جائز نہيں "

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے نماز سے قبل ذبح كيا تو اس نے وہ جانور اپنے ليے ذبح كيا ہے، اور جس نے نماز كے بعد ذبح كيا تو وہ اس كى قربانى ہے، اور اس نے مسلمانوں كى سنت پر عمل كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5563 ).

اس حديث ميں ہے كہ بكرى كا جذعہ قربانى كے ليے جائز نہيں، اور جذعہ كا معنى آگے بيان كيا جا رہا ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ تھذيب السنن ميں كہتے ہيں:

قولہ: " اور تيرے بعد كسى اور كے علاوہ كفائت نہيں كرے گا "

يہ قطعى نفى ہے كہ اس كے بعد كسى كے ليے بھى جائز نہيں " انتہى.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" دو دانتے ( دوندا ) كے علاوہ كوئى جانور ذبح نہ كرو، ليكن اگر تمہيں وہ ملنا مشكل ہو جائے تو پھر بھيڑ كا جذعہ ذبح كر لو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1963 ).

اس حديث ميں بھى اس بات كى صراحت پائى جاتى ہے كہ دو دانتا ہى ذبح كرنا ضرورى ہے، ليكن بھيڑ كى نسل سے جذعہ كفائت كر جائيگا.

مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

علماء كرام كا كہنا ہے كہ:

" مسنہ اونٹ، گائے، بكرى ميں سے دو دانتے اور اس سے زيادہ والے كو كہتے ہيں، يہ صراحت اس ليے ہے كہ بھيڑ كے جذعہ كے علاوہ كوئى بھى جذعہ كسى بھى حالت ميں جائز نہيں " انتہى.

اور حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حديث كا ظاہر يہ تقاضا كرتا ہے كہ: بھيڑ كا جذعہ بھى اس وقت جائز ہے جب دو دانتا نہ ملے، اور اجماع اس كے خلاف ہے، چنانچہ اس كى تاويل كرنا ضرورى ہے كہ اسے افضليت پر محمول كيا جائےگا، اس كى تقدير يہ ہو گى كہ: مستحب يہ ہے كہ دو دانتے كے علاوہ كوئى نہ ذبح كيا جائے " انتہى

ديكھيں: التلخيص ( 4 / 285 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ نے بھى مسلم كى شرح ميں ايسے ہى كہا ہے.

اور عون المعبود ميں ہے:

" يہ تاويل لازمى اور متعين ہے " انتہى.

پھر قربانى ميں بھيڑ كے جذعہ كے جواز ميں كچھ احاديث ذكر كى ہيں جن ميں سے ايك يہ بھى ہے:

عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ بھيڑ كے جذعہ كى قربانى كى "

سنن نسائى حديث نمبر ( 4382 ) حافظ رحمہ اللہ نے اس كى سند كو قوى كہا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں قربانى كى شروط ميں ہے:

دوسرى شرط:

وہ جانور قربانى كى عمر كو پہنچا ہوا ہو، وہ اس طرح كہ اونٹ، گائے اور بكرى ميں سے دو دانتا يا اس سے زيادہ ہو، يا پھر بھيڑ سے جذعہ سے بڑا ہو، بھيڑ كے علاوہ دو دانتے سے كم عمر كا كوئى جانور قربانى كے ليے جائز نہيں، اور نہ ہى بھيڑ كے جذعہ سے كم عمر كا...

اس شرط پر سب فقھاء متفق ہيں، ليكن جذعہ اور دو دانتا كى تفسير ميں ان كے مابين اختلاف پايا جاتا ہے " انتہى.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 5 / 83 ).

اور ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس جانور كى قربانى دى جاتى ہے ان ميں سے اور بكرى كے جذعہ كى قربانى كرنا جائز نہيں، صرف بھيڑ كے جذعہ كى قربانى ہو سكتى ہے، بلكہ سب جانوروں ميں سے دو دانتا يا اس سے زيادہ عمر كا جانور ذبح كرنا جائز ہے، اور سنت نبويہ كے مطابق بھيڑ كا جذعہ قربانى كيا جا سكتا ہے " انتہى

ديكھيں: ترتيب التمھيد ( 10 / 267 ).

اور " المجموع " ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" امت كا اس پر اجماع ہے كہ اونٹ، گائے اور بكرى ميں سے دو دانتا ہى قربانى كرنا جائز ہے، اور بھيڑ كا جذعہ ذبح كيا جا سكتا ہے، اور يہ مذكورہ اشياء قربانى ميں كفائت كرتى ہيں، الا يہ كہ جو ہمارے اصحاب ابن عمر اور امام زھرى نے بيان كيا ہے كہ:

" بھيڑ ميں سے جذعہ كفائت نہيں كرتا "

اور عطاء، اوزاعى كہتے ہيں كہ: اونٹ، گائے، بكرى اور بھيڑ سب كا جذعہ كفائت كرےگا " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 366 ).

دوم:

بالتحديد قربانى كى عمر ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:

احناف اور حنابلہ كے ہاں بھيڑ ميں سے جذعہ اسے كہتے ہيں جو مكمل چھ ماہ كا ہو.

اور مالكيہ اور شافعيہ كے ہاں ايك سال كا جذعہ شمار ہوتا ہے.

اور مسنۃ يعنى دو دانتا: احناف، مالكيہ، حنابلہ كے ہاں بكرى ميں دو دانتا ايك سال كا ہے، اور شافعيہ كے ہاں دو سال كا.

گائے ميں سے احناف، شافعيہ، حنابلہ كے ہاں دو دانتا وہ ہے جو مكل دو سال كا ہو، اور مالكيہ كے ہاں مكمل تين برس كا.

اور اونٹ ميں سے احناف، شافعيہ، مالكيہ، حنابلہ كے ہاں دو دانتا وہ ہے جو مكمل پانچ برس كا ہو.

ديكھيں: بدائع الصنائع ( 5 / 70 ) البحر الرائق ( 8 / 202 ) التاج والاكليل ( 4 / 363 ) شرح مختصر خليل ( 3 / 34 ) المغنى ( 13 / 368 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " احكام الاضحيۃ " ميں كہتے ہيں:

" اونٹ ميں سے دو دانتا وہ ہے جو مكمل پانچ برس كا ہو، اور گائے ميں مكمل دو سال كا، اور بكرى ميں سے ايك سال كا.

اور جذعہ جو نصف سال كا ہو، چنانچہ اونٹ، گائے، بكرى ميں سے دو دانتے سے كم عمر كا جانور قربانى كرنا صحيح نہيں، اور نہ ہى بھيڑ ميں سے جذعہ سے چھوٹا جانور " انتہى.

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ بھيڑ ميں سے چھ ماہ كا جانور قربانى كے ليے جائز ہے، اور بكرى ميں سے ايك برس اور گائے ميں سے دو سال، اور اونٹ ميں سے پانچ برس كا قربانى كرنا جائز ہے، اس سے چھوٹا جانور نہ تو حج كى قربانى ميں لگےگا اور نہ ہى عام قربانى ميں، كيونكہ كتاب و سنت كے دلائل ايك دوسرے كى تفسير كرتے ہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 377 ).

اور كاسانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

عمروں كا يہ اندازہ جو ہم نے كہا ہے وہ نقص منع كرنے كے ليے ہے نہ كہ زيادہ منع كرنے كے ليے؛ تا كہ كوئى شخص اس سے كم عمر كا جانور ذبح كرے گا تو يہ جائز نہيں، اور اگر وہ اس سے بڑى عمر كا جانور ذبح كرتا ہے تو جائز ہوگا، اور يہ افضل ہوگا، اور قربانى ميں نہ تو حمل اور نہ ہى چھوٹا سا بچہ، اور نہ ہى بچھڑا، اور فصيل ذبح كرنا جائز ہے، كيونكہ شريعت ميں وہى عمريں بيان ہوئى ہيں جو ہم بيان كر چكے ہيں اور ان كا نام نہيں ليا گيا " انتہى

ديكھيں: البدائع الصنائع ( 5 / 70 ).

چنانچہ اس سے يہ واضح ہوا كہ دو سال سے چھوٹى گائے ذبح كرنا جائز نہيں، كسى بھى امام نے اسے جائز نہيں كہا.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/41899
 
Top