ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
قرض حسنہ
کوئی مسلمان اپنا مال سو دپر نہ دے کہ اس کے مال (کی برکت) کو ختم کردے اور مقروض کی نیند حرام کردے، بلکہ اسلام نے توقرض حسنہ کی ترغیب دی ہے اور ایسے شخص سے، جو قرض حسنہ دے، بہترین اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
((مَن ذَالَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضٰعِفُهُ لَهُ اَضْعَافاً كَثِيْرَةً))
’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر زیادہ دے۔(البقرۃ:245)
تنگ دست کو خوشحالی اور فراخی تک مہلت دینا اور قرض معاف کرنے کی ترغیب دینا ،جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
((وَاِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلَي مَيْسَرَةٍ وَاَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ))
’’اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہوتو اسے(سے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت دو اوراگر قرض معاف ہی کردد تو تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے ، اگرتم سمجھو۔‘‘(البقرۃ:280)
مختلف ذرائع سے تعاون کرنا
یعنی اجتماعی ، فنی اور زرعی تعاون کرنا۔ اجتماعی تاوان کی ضمانت و کفالت ، کاشتکاروں اور فنون کے ماہرین کو مالی مدد دینا جوان کو مالی لحاظ سے مستحکم کرے ، ان کی پیدوار کو بڑھائے اور جس کے نتیجے میں امت خیروبرکت سے مالامال ہو ،مدارس کھولنا ، ہسپتال تعمیرکرنا اور معذوروں کی بحالی کے لیے ادارے قائم کرنا بھی باہمی تعاون کے ضمن میں آتاہے ۔ اللہ تعالی نے جامع انداز میں فرمایا ہے:
((وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْويٰ))
’’ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔‘‘(المائدۃ:2)
اس باہمی تعاون کے سائے میں معاشرہ پھلے پھولے گا اور یہ سود جیسے گناہ سے محفوظ ہوگا۔
کوئی مسلمان اپنا مال سو دپر نہ دے کہ اس کے مال (کی برکت) کو ختم کردے اور مقروض کی نیند حرام کردے، بلکہ اسلام نے توقرض حسنہ کی ترغیب دی ہے اور ایسے شخص سے، جو قرض حسنہ دے، بہترین اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
((مَن ذَالَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضٰعِفُهُ لَهُ اَضْعَافاً كَثِيْرَةً))
’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر زیادہ دے۔(البقرۃ:245)
تنگ دست کو خوشحالی اور فراخی تک مہلت دینا اور قرض معاف کرنے کی ترغیب دینا ،جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
((وَاِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلَي مَيْسَرَةٍ وَاَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ))
’’اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہوتو اسے(سے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت دو اوراگر قرض معاف ہی کردد تو تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے ، اگرتم سمجھو۔‘‘(البقرۃ:280)
مختلف ذرائع سے تعاون کرنا
یعنی اجتماعی ، فنی اور زرعی تعاون کرنا۔ اجتماعی تاوان کی ضمانت و کفالت ، کاشتکاروں اور فنون کے ماہرین کو مالی مدد دینا جوان کو مالی لحاظ سے مستحکم کرے ، ان کی پیدوار کو بڑھائے اور جس کے نتیجے میں امت خیروبرکت سے مالامال ہو ،مدارس کھولنا ، ہسپتال تعمیرکرنا اور معذوروں کی بحالی کے لیے ادارے قائم کرنا بھی باہمی تعاون کے ضمن میں آتاہے ۔ اللہ تعالی نے جامع انداز میں فرمایا ہے:
((وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْويٰ))
’’ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔‘‘(المائدۃ:2)
اس باہمی تعاون کے سائے میں معاشرہ پھلے پھولے گا اور یہ سود جیسے گناہ سے محفوظ ہوگا۔