- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(قسط:10)(( دائرہ معارف سیرت ، Daira Marif Seerat،محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ))(تعارف و امتیازات)
عصر حاضر کا ممتاز ترین سیرت النبی انسائیکلوپیڈیا ، علمی و تحقیقی ، دعوتی و تربیتی اور فکری و منہجی کئی خصوصیات کا حامل
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
(( دائرہ معارف سیرت ، محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم )) تعارف و امتیازات(حصہ: 10) دائرہ معارف سیرت ؛ منہج اہل السنہ اور اتحاد امت کا ترجمان
رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں اہل اسلام کے باہمی اتحاد و اتفاق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ایک پیغمبر، ایک قرآن، ایک قبلہ اور ایک ہی مقصد حیات۔ یہ سب امور اتحاد امت کا باعث ہیں۔
رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کے اتحاد و نظم کے لیے مثالی اقدامات فرمائے۔ کسی موقع پر بھی اسلامی جمعیت کو افتراق و انتشار سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ تمام سیرت طیبہ اسی کی آئینہ دار ہے ، ایک مثال بھی اس کے برعکس نہیں مل سکتی ،
باجماعت نماز پنجگانہ کی ففرضیت، فرضیت جمعہ، تعمیر مسجد، میثاق مدینہ، مواخات مدینہ، کعبہ کی بنیاد ابراہیمی پر عدم تعمیر، منافقین کے قتل سے احتراز اور حجۃ الوداع۔ یہ تمام نبوی واقعات اتحاد امت کے مثالی اقدام ہیں۔
اتحاد و اتفاق کے متعلق نبوی تعلیمات اور افتراق و انتشار سے بچاؤ اور احتراز کے بارے میں آپ کی ہدایات، یہ آپ کی سیرت طیبہ کا نمایاں ترین وصف و موضوع ہے۔ رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال پُر ملال کے عظیم سانحہ پر بھی پاسبان اسلام نے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ رہبر اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جدائی کے متصل بعد آپ کے جاں نشین کا انتخاب کر لیا گیا۔
رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جدائی کے بعد دعوتی، فکری، تنظیمی اور سیاسی کسی طرح کا کوئی خلل واقعہ نہیں ہوا۔ لشکر اسامہ کی روانگی، فتنہ ارتداد کا انسداد اور منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی سے مثالی اسلامی اتحاد و قوت کا بول بالا ہوا۔
دائرہ معارف سیرت بھی امت کے اتحاد و اصلاح کی فکری مندی کا آئینہ دار ہے، اس کے امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل ومشکلات کو زیر بحث لایا گیا ہے ،امت کے اتحاد و اتفاق کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ،
رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اہل عرب کو امت کے اسلامی تصور میں پرویا۔ انھیں ایک قوم اور ایک ملت بنایا۔ان میں مثالی اتحاد و اتفاق قائم کیا۔ شہادت عمر فاروق کی صورت میں فتنوں کو پنپنے کا موقع ملا۔ امت میں افتراق و انتشار جنم لینے لگا۔ امت تقسیم در تقسیم ہوتی گئی۔
حتی کہ کمزور ایمان و عقیدہ، اخلاقی و سیاسی زوال اور متعصبانہ فقہی گروہی اختلاف کے باعث امت ہر میدان میں کمزور در کمزور ہوتی گئی۔ ہر میدان میں اپنے مسلک و فقہ کی تائید و حمایت میں سب کچھ کیا جانے لگا۔ فقہی احکام و مسائل اور سیرت نگاری میں بھی مسلکی فکر و عمل پروان چڑھنے لگا۔ مختلف مسالک اور مکاتب فکر نے خاص مقصد کے تحت حیات طیبہ کو لکھا۔
مسلکی اور گروہی عصبیت کے باعث وحدت امت پارہ پارہ ہوئی۔ مسلک و گروہ ہی حق و باطل کا معیار قرار دیے جانے لگے۔ فقہی اور مسلکی امتیازی پہلوؤں کو داعی اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت نگاری میں اجاگر کیا جانے لگا۔ اس نوعیت کی سیرت نگاری اتحاد امت سے زیادہ افتراق امت کا باعث بنی۔
رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سوانح حیات مخصوص مسلک و گروہ ہی کی نمائندہ قرار پائی۔ اگرچہ اس طرز نگارش کے افراد و معاشرے کی اصلاح و تربیت کے حوالے سے محدود مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے۔ اہل اسلام کی رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کے جذبات پروان چڑھے۔
رحمۃ للعالمین، سیرت شبلی اور رحیق المختوم جیسی کتب سیرت سے مثبت تبدیلی آئی۔مسلکی و گروہی سیرت نگاری کے بجائے پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہمہ گیر سوانح حیات کی اہمیت و افادیت کو شدت سے محسوس کیا جانے لگا۔
دائرہ معارف سیرت میں اسی عظیم مقصد و مشن کو بخوبی نبھایا گیا ہے۔ سطحی مناظرانہ مباحث، فرقہ واریت اور غیر مستند امور سے احتراز برتا گیا ہے۔ کسی مخصوص مسلک و فقہ کی نمائندگی کے بجائے ہمہ گیر اور عالمگیر پیغمبر کی سیرت کے جذبے سے اسے مرتب کیا گیا ہے۔
اتحاد امت اور اصلاح قوم و ملت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اہل السنہ کے تمام مکاتب فکر اور سب دینی مسالک کو نمائندگی دی گئی ہے۔کسی بھی مسلک اور مکتبہ فکر کے بارے میں تحقیر و تنقیص پر مبنی انداز اختیار نہیں کیا گیا نہ کسی مسلمان کو یہ زیبا ہے۔
دائرہ معارف سیرت میں اختلافی مواقع پر قرآن و حدیث، اسوہ نبوی اور اقوال سلف کی روشنی میں حقیقت وصواب کو اجازگر کرنے کی سعی کی گئی ہے، نہ کہ کسی مخصوص مسلک کی نمائندگی۔ بطور مثال ملاحظہ کیجیے: باب:٩، سید العالمین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا انداز، باب:٧٣، جناب ابی طالب کا ایمان۔
دائرہ معارف سیرت کی آخری جلد میں مصادر و مراجع اور ہر جلد کے آغاز میں اراکین مجلس مشاورت کا تذکرہ ہے۔ اس سے بھی مختلف مسالک کی تائید و نمائندگی کے عمل کی تائید ہوتی ہے۔ اراکین مجلس اور مصادر سیرت میں مختلف مسالک کے افراد و کتب کا تذکرہ ہے۔
مقدمہ سیرت میں مختلف مسالک و مکاتب کی خدماتِ سیرت کا بھی تذکرہ ہے۔ دائرہ معارف کو امت اسلامیہ کی مشترکہ میراث اور تمام اہل السنہ کی نمائندہ تالیف کے طور پر مرتب کیا گیا ہے۔ رب العالمین اسے امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق اور تربیت و بیداری کا باعث بنائے ،
عصر حاضر کا ممتاز ترین سیرت النبی انسائیکلوپیڈیا ، علمی و تحقیقی ، دعوتی و تربیتی اور فکری و منہجی کئی خصوصیات کا حامل
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
(( دائرہ معارف سیرت ، محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم )) تعارف و امتیازات(حصہ: 10) دائرہ معارف سیرت ؛ منہج اہل السنہ اور اتحاد امت کا ترجمان
رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں اہل اسلام کے باہمی اتحاد و اتفاق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ایک پیغمبر، ایک قرآن، ایک قبلہ اور ایک ہی مقصد حیات۔ یہ سب امور اتحاد امت کا باعث ہیں۔
رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں کے اتحاد و نظم کے لیے مثالی اقدامات فرمائے۔ کسی موقع پر بھی اسلامی جمعیت کو افتراق و انتشار سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ تمام سیرت طیبہ اسی کی آئینہ دار ہے ، ایک مثال بھی اس کے برعکس نہیں مل سکتی ،
باجماعت نماز پنجگانہ کی ففرضیت، فرضیت جمعہ، تعمیر مسجد، میثاق مدینہ، مواخات مدینہ، کعبہ کی بنیاد ابراہیمی پر عدم تعمیر، منافقین کے قتل سے احتراز اور حجۃ الوداع۔ یہ تمام نبوی واقعات اتحاد امت کے مثالی اقدام ہیں۔
اتحاد و اتفاق کے متعلق نبوی تعلیمات اور افتراق و انتشار سے بچاؤ اور احتراز کے بارے میں آپ کی ہدایات، یہ آپ کی سیرت طیبہ کا نمایاں ترین وصف و موضوع ہے۔ رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وصال پُر ملال کے عظیم سانحہ پر بھی پاسبان اسلام نے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ رہبر اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جدائی کے متصل بعد آپ کے جاں نشین کا انتخاب کر لیا گیا۔
رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جدائی کے بعد دعوتی، فکری، تنظیمی اور سیاسی کسی طرح کا کوئی خلل واقعہ نہیں ہوا۔ لشکر اسامہ کی روانگی، فتنہ ارتداد کا انسداد اور منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی سے مثالی اسلامی اتحاد و قوت کا بول بالا ہوا۔
دائرہ معارف سیرت بھی امت کے اتحاد و اصلاح کی فکری مندی کا آئینہ دار ہے، اس کے امت مسلمہ کے اجتماعی مسائل ومشکلات کو زیر بحث لایا گیا ہے ،امت کے اتحاد و اتفاق کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ،
رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اہل عرب کو امت کے اسلامی تصور میں پرویا۔ انھیں ایک قوم اور ایک ملت بنایا۔ان میں مثالی اتحاد و اتفاق قائم کیا۔ شہادت عمر فاروق کی صورت میں فتنوں کو پنپنے کا موقع ملا۔ امت میں افتراق و انتشار جنم لینے لگا۔ امت تقسیم در تقسیم ہوتی گئی۔
حتی کہ کمزور ایمان و عقیدہ، اخلاقی و سیاسی زوال اور متعصبانہ فقہی گروہی اختلاف کے باعث امت ہر میدان میں کمزور در کمزور ہوتی گئی۔ ہر میدان میں اپنے مسلک و فقہ کی تائید و حمایت میں سب کچھ کیا جانے لگا۔ فقہی احکام و مسائل اور سیرت نگاری میں بھی مسلکی فکر و عمل پروان چڑھنے لگا۔ مختلف مسالک اور مکاتب فکر نے خاص مقصد کے تحت حیات طیبہ کو لکھا۔
مسلکی اور گروہی عصبیت کے باعث وحدت امت پارہ پارہ ہوئی۔ مسلک و گروہ ہی حق و باطل کا معیار قرار دیے جانے لگے۔ فقہی اور مسلکی امتیازی پہلوؤں کو داعی اعظم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت نگاری میں اجاگر کیا جانے لگا۔ اس نوعیت کی سیرت نگاری اتحاد امت سے زیادہ افتراق امت کا باعث بنی۔
رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سوانح حیات مخصوص مسلک و گروہ ہی کی نمائندہ قرار پائی۔ اگرچہ اس طرز نگارش کے افراد و معاشرے کی اصلاح و تربیت کے حوالے سے محدود مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے۔ اہل اسلام کی رسول ﷲ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کے جذبات پروان چڑھے۔
رحمۃ للعالمین، سیرت شبلی اور رحیق المختوم جیسی کتب سیرت سے مثبت تبدیلی آئی۔مسلکی و گروہی سیرت نگاری کے بجائے پیغمبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ہمہ گیر سوانح حیات کی اہمیت و افادیت کو شدت سے محسوس کیا جانے لگا۔
دائرہ معارف سیرت میں اسی عظیم مقصد و مشن کو بخوبی نبھایا گیا ہے۔ سطحی مناظرانہ مباحث، فرقہ واریت اور غیر مستند امور سے احتراز برتا گیا ہے۔ کسی مخصوص مسلک و فقہ کی نمائندگی کے بجائے ہمہ گیر اور عالمگیر پیغمبر کی سیرت کے جذبے سے اسے مرتب کیا گیا ہے۔
اتحاد امت اور اصلاح قوم و ملت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اہل السنہ کے تمام مکاتب فکر اور سب دینی مسالک کو نمائندگی دی گئی ہے۔کسی بھی مسلک اور مکتبہ فکر کے بارے میں تحقیر و تنقیص پر مبنی انداز اختیار نہیں کیا گیا نہ کسی مسلمان کو یہ زیبا ہے۔
دائرہ معارف سیرت میں اختلافی مواقع پر قرآن و حدیث، اسوہ نبوی اور اقوال سلف کی روشنی میں حقیقت وصواب کو اجازگر کرنے کی سعی کی گئی ہے، نہ کہ کسی مخصوص مسلک کی نمائندگی۔ بطور مثال ملاحظہ کیجیے: باب:٩، سید العالمین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا انداز، باب:٧٣، جناب ابی طالب کا ایمان۔
دائرہ معارف سیرت کی آخری جلد میں مصادر و مراجع اور ہر جلد کے آغاز میں اراکین مجلس مشاورت کا تذکرہ ہے۔ اس سے بھی مختلف مسالک کی تائید و نمائندگی کے عمل کی تائید ہوتی ہے۔ اراکین مجلس اور مصادر سیرت میں مختلف مسالک کے افراد و کتب کا تذکرہ ہے۔
مقدمہ سیرت میں مختلف مسالک و مکاتب کی خدماتِ سیرت کا بھی تذکرہ ہے۔ دائرہ معارف کو امت اسلامیہ کی مشترکہ میراث اور تمام اہل السنہ کی نمائندہ تالیف کے طور پر مرتب کیا گیا ہے۔ رب العالمین اسے امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق اور تربیت و بیداری کا باعث بنائے ،