- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی خصوصیات ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
امت کی کثرت اور اہل اسلام کی حالت زار
ﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو یہ خصوصیت بھی عطا کی ہے کہ آپ کی امت تعداد میں دیگر تمام امتوں سے بڑھ کر ہو گی۔ آنحضرت ﷺ نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:(( أَنَا أَکْثَرُ النَّاسِ تَبَعًا)) ( أبو ٰیعلی، المسند:٣٩٧٣ و ابن مندہ، الایمان:٢/٨٥٧ ) ''میرے پیروکار تعداد میں سب سے زیادہ ہوں گے۔''
آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے نام یہ پیغام دیا: ''خوب چاہنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کیا کرو۔ میں تمھاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔'' (سنن أبی داود:٢٠٥٠ و سنن الترمذی:٣٢٢٧ )
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''یاد رکھو! میں حوض کوثر پر تمھارا پیش رو ہوں۔ میں تمھاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔ میرے بعد باہمی جنگ و جدال میں مبتلا مت ہونا۔'' (سنن ابن ماجہ:٣٩٤٤ و أحمد بن حنبل، المسند:١٩٠٦٩)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ''ہر پیغمبر کو معجزات سے نوازا گیا جنھیں دیکھ کر لوگ ان پر ایمان لائے، لیکن مجھے جو معجزہ عطا کیا گیا، وہ ﷲ کی وحی ہے جو اس نے میری طرف کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ روزِ قیامت میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے۔(صحیح البخاری:٧٢٧٤ و صحیح مسلم:١٥٢)
آنحضرت ﷺ کی امت صرف تعداد ہی میں زیادہ نہیں ہو گی ، بلکہ دخول جنت میں بھی سب سے بڑھ کر ہو گی، جس کی وضاحت آنحضرت ﷺ نے یوں فرمائی ہے: ''میرے سامنے سے امتوں کا گزر ہوا، کسی نبی کے ساتھ چند لوگ تھے، کسی کے ساتھ دو اور کسی کے ساتھ ایک امتی تھا۔ کچھ پیغمبر ایسے بھی تھے جن کا ماننے والا کوئی بھی نہ تھا۔ اسی دوران میں ایک سوادِ اعظم دکھائی دیا تو میں نے خیال کیا کہ یہی میری امت ہو گی، لیکن مجھے بتایا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کی امت ہے۔ پھر مجھے آفاق کے اطراف میں دیکھنے کا کہا گیا۔ میں نے دیکھا تو ہر طرف لوگ ہی لوگ دکھائی دیے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے۔'' (صحیح البخاری:٥٧٠٥ و صحیح مسلم:٢٢٠ )
آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق آدھے جنتی آپ کی امت سے ہوں گے اور آدھے جنتی دیگر تمام امتوں کو ملا کر ہوں گے۔(صحیح البخاری:٦٥٢٨ و صحیح مسلم:٢٢١)
رسول اللہ ﷺ نے کثرت امت کو باعث فخر و امتیاز قرار دیا ، لیکن عصر حاضر میں اکثر مسلمان شعوری یا غیر شعوری طور پر صہیونی پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے ، وہ بھی منصوبہ بندی کے نام پر کم سے کم بچے لینے کا ہر ممکنہ حربہ اختیار کرتے ہیں ، اگرچہ اس کے بہانے جو بھی بیان کیے جائیں ، عالمی استعمار آبادی کم کرنے کے ایسے ایسے ہتھکنڈے اپنا کر رہا ہے کہ تاریخ انسانی میں اس جیسی بھیانک مثال نہیں ملتی اور وہ بھی خاص کر مسلمان کے خلاف،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
امت کی کثرت اور اہل اسلام کی حالت زار
ﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو یہ خصوصیت بھی عطا کی ہے کہ آپ کی امت تعداد میں دیگر تمام امتوں سے بڑھ کر ہو گی۔ آنحضرت ﷺ نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:(( أَنَا أَکْثَرُ النَّاسِ تَبَعًا)) ( أبو ٰیعلی، المسند:٣٩٧٣ و ابن مندہ، الایمان:٢/٨٥٧ ) ''میرے پیروکار تعداد میں سب سے زیادہ ہوں گے۔''
آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے نام یہ پیغام دیا: ''خوب چاہنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کیا کرو۔ میں تمھاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔'' (سنن أبی داود:٢٠٥٠ و سنن الترمذی:٣٢٢٧ )
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''یاد رکھو! میں حوض کوثر پر تمھارا پیش رو ہوں۔ میں تمھاری کثرت کی وجہ سے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔ میرے بعد باہمی جنگ و جدال میں مبتلا مت ہونا۔'' (سنن ابن ماجہ:٣٩٤٤ و أحمد بن حنبل، المسند:١٩٠٦٩)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ''ہر پیغمبر کو معجزات سے نوازا گیا جنھیں دیکھ کر لوگ ان پر ایمان لائے، لیکن مجھے جو معجزہ عطا کیا گیا، وہ ﷲ کی وحی ہے جو اس نے میری طرف کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ روزِ قیامت میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے۔(صحیح البخاری:٧٢٧٤ و صحیح مسلم:١٥٢)
آنحضرت ﷺ کی امت صرف تعداد ہی میں زیادہ نہیں ہو گی ، بلکہ دخول جنت میں بھی سب سے بڑھ کر ہو گی، جس کی وضاحت آنحضرت ﷺ نے یوں فرمائی ہے: ''میرے سامنے سے امتوں کا گزر ہوا، کسی نبی کے ساتھ چند لوگ تھے، کسی کے ساتھ دو اور کسی کے ساتھ ایک امتی تھا۔ کچھ پیغمبر ایسے بھی تھے جن کا ماننے والا کوئی بھی نہ تھا۔ اسی دوران میں ایک سوادِ اعظم دکھائی دیا تو میں نے خیال کیا کہ یہی میری امت ہو گی، لیکن مجھے بتایا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کی امت ہے۔ پھر مجھے آفاق کے اطراف میں دیکھنے کا کہا گیا۔ میں نے دیکھا تو ہر طرف لوگ ہی لوگ دکھائی دیے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے۔'' (صحیح البخاری:٥٧٠٥ و صحیح مسلم:٢٢٠ )
آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق آدھے جنتی آپ کی امت سے ہوں گے اور آدھے جنتی دیگر تمام امتوں کو ملا کر ہوں گے۔(صحیح البخاری:٦٥٢٨ و صحیح مسلم:٢٢١)
رسول اللہ ﷺ نے کثرت امت کو باعث فخر و امتیاز قرار دیا ، لیکن عصر حاضر میں اکثر مسلمان شعوری یا غیر شعوری طور پر صہیونی پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے ، وہ بھی منصوبہ بندی کے نام پر کم سے کم بچے لینے کا ہر ممکنہ حربہ اختیار کرتے ہیں ، اگرچہ اس کے بہانے جو بھی بیان کیے جائیں ، عالمی استعمار آبادی کم کرنے کے ایسے ایسے ہتھکنڈے اپنا کر رہا ہے کہ تاریخ انسانی میں اس جیسی بھیانک مثال نہیں ملتی اور وہ بھی خاص کر مسلمان کے خلاف،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے