• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:15)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( اندازِ تکلم وگفتگو ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

اندازِ تکلم وگفتگو ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد

♻ رسول کریم ﷺ ہر لحاظ سے تمام نوع انسانی سے ممتاز تھے۔ عمل و کردار کے لحاظ سے بھی اور قول و گفتار کے اعتبار سے بھی۔ آپ کا اندازِ گفتگو انتہائی شاندار اور طرزِ تکلم عدیم المثال تھا۔ آپ کی بات بالکل واضح اور جامع ہوا کرتی تھی۔ آپ فصیح الکلامی اور بلیغ اللسانی کے بلند ترین درجے پر فائز تھے ،

♻ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمھاری طرح رکے بغیر اور جلدی جلدی باتیں نہیں فرماتے تھے۔ آپ کا انداز تکلم بہت ہی واضح، آسان اور ٹھہراؤ سے مزین ہوتا تھا۔ ہر سننے والا آپ کی بات سن کر یاد کر لیتا۔(صحیح البخاری:٣٥٦٨ و البیہقی، السنن الکبریٰ:٥٧٥٧)

♻ رسول ﷲ ﷺ کی مبارک گفتگو ایسے پروقار انداز سے ہوتی تھی کہ اگر کوئی کلمات شمار کرنا چاہتا تو کرلیتا۔ آپ اس قدر آسان اور واضح کلام فرمایا کرتے کہ ہر سننے والا سمجھ بھی لیا کرتا تھا۔ (صحیح البخاری:٣٥٦٧ و سنن أبی داود:٤٩٣٩)

♻ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو انتہائی عمدہ، بہترین اسلوب سے مزین اور روانی سے بھرپور ہوا کرتی تھی۔ بات کی اہمیت و افادیت اور تفہیم و تعلیم کی غرض سے آپ بات کو تین بار بھی دہرایا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کبھی ایک لفظ بھی بار بار دہرایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری:٤٦٩٨، ٦٢٤٤و صحیح مسلم:٢٤٩٣)

♻ مربی اعظم ﷺ بغیر مقصد کے بےجا بات سے گریز فرماتے، اکثر خاموش ہی رہا کرتے۔ آپ جب بھی بات کرتے تو آپ کی بات جوامع الکلم پر مشتمل ہوتی۔ نہ تو اس میں بے جا طوالت ہوتی اور نہ ہی باعث تشویش اختصار ہوتا۔ (أحمد بن حنبل،المسند:٢٠٨١٠ و البیہقی، شعب الأیمان:١٣٦٢)

♻امام ابن قیم رحمہ اللہ نبی کریم ﷺ کے اندازِ تکلم کے بارے میں لکھتے ہیں: نبی اکرم ﷺ تمام نوع انسانی سے بڑھ کر فصیح اللسان تھے، شیریں بیان تھے ، الفاظ کی ادائیگی اور گرفت کا اعلیٰ ملکہ رکھتے تھے۔ آپ کی بات دلوں میں اتر جایا کرتی ، جس سے روحیں آپ کی گرویدہ ہو جاتی تھیں۔ آپ کی اس خوبی کے معترف دشمن بھی تھے۔(ابن القیم ، زاد المعاد:175/1)

♻آنحضرت ﷺ کے کلام میں سلاست، روانی، فصاحت، بلاغت اور جامعیت جیسی تمام صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اس کی شہادت خود آپ کی زبان مبارک سے ملتی ہے۔ آپ نے فرمایا:(( أَنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ )) (الزرقانی، شرح المواہب:296/5 والخرکوشی، شرف المصطفیٰ :49/2 ) ''میں عرب بھر سے فصیح اللسان ہوں۔''

♻ آنحضرت ﷺ کاکلام مبارک دنیا بھر کے ادباء، بلغاء اور فصحاء سے بڑھ کر تھا۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر دھیمے انداز سے گفتگو فرماتے تھے ، جیسے موتی جھڑ رہے ہوں۔ حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: آپ شیریں گفتار تھے۔ آپ کی بات نہایت واضح تھی، کلام میں نہ تو نقص تھا اور نہ ہی بے جا بھرتی ، بلکہ اس قدر منظم کلام تھا ، جیسے لڑی میں پروئے ہوئے موتی ترتیب وار جھڑ رہے ہوں۔(الحاکم، المستدرک:٤٣٣٣ و الطبرانی، المعجم الکبیر:٣٦٠٥)

♻ نبی مکرم ﷺ کا کلام انتہائی شیریں اور آسان ہوتا اور دل و دماغ میں جاگزیں ہو جاتا۔ابہام، الجھاؤ، تکلف اور بے اعتدالی سے پاک ہوتا۔ الفاظ سادہ اور عام فہم ہوتے۔ آپ کی اسی فصاحت و بلاغت پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی حیران ہوئے۔ انھوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ کو یہ سب کچھ کس نے سکھایا ہے؟! آپ نے فرمایا: ''میرے پروردگار نے ۔''
(السہمی، تاریخ جرجان،ص:١٨٨ و الہندی، کنزالعمال:٣٢٠٢٤)

♻ عصر حاضر میں امت مسلمہ ہمہ گیر زوال و ناکامی سے دوچار ہے ، دعوت وتربیت اور تعلیم و افراد سازی کے بنیادی اصولوں میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ مخاطبین کو ان کی زبان میں دعوت وتعلیم دی جائے ، اسی لیے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اپنی قوم و زبان میں بعثت ہوئی ، عصر حاضر میں اہل اسلام مغرب سے مرعوبیت کے باعث اغیار کی تعلیم و زبان کی نقالی کو بہت اہمیت دینے لگے ہیں ، اگرچہ دعوتی و تربیتی مقصد کے پیش نظر کسی حد تک دیگر زبانوں کی تعلیم و تدریس اور فنی استفادہ مقصود شریعت اور اسوہ نبوی ہے ،

♻ لیکن دیگر اقوام کی تہذیب وثقافت کی نقالی کی بالکل گنجائش نہیں، ہماری دینی زبان عربی ، قومی زبان اردو ، مادری زبان پنجابی ، لیکن دفتری اور تعلیمی زبان انگریزی ، کیا آزاد قومیں ایسی ہوتی ہیں ، ہماری تو زبان بھی اپنی نہیں ، زبان صرف زبان نہیں ہوتی ، بلکہ زبان تہذیب و ثقافت کی ترویج کا ماثر ترین ذریعہ ہے ، جس کا اندازہ انگریزی پسند طبقے کی فکر وعمل سے لگایا جا سکتا ہے ،

♻ جدید فکری وتہذیبی جنگ میں امت مسلمہ کا دشمن نظریاتی اور عملی طور پر انتہائی مکار اور عیار ہے ، عالمی الحادی استعمار نے دجل وفریب سے اہل اسلام کو ہر میدان میں ضرب کاری لگائی ہے، مسلمان ہمہ گیر زوال وناکامی سے بری طرح دوچار ہیں ، اہل اسلام کا دینی ورثہ اردو ، فارسی اور عربی زبان میں محفوظ ہے ،لیکن انتہائی مکاری سے ان تینوں زبانوں سے ہی انہیں محروم کر دیا گیا ہے ، داعیان اسلام ، مربیان ملت اور مصلحین قوم کو دعوتی و تربیتی اور تعلیمی و تدریسی فرائض کی انجام دہی میں کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے ، ان میں سے ایک مسئلہ زبان وبیان میں عدم مہارت ولیاقت کا ہوتا ہے ، پڑھے لکھے طبقے میں جس زبان میں دعوت واصلاح کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے ، لوگوں کی اس میں دلچسپی نہیں ہوتی ،

♻اگر داعیان دین مطلوبہ زبان میں دعوت و تربیت کی کوشش کرتے ہیں تو عدد مہارت کی وجہ سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں ، اسی وجہ سے عوام اور حقیقی مصلحین قوم وملت میں خلا بڑا جا ہے ، المیہ تو یہ ہے کہ اکثر خطباء وداعیان دین قومی زبان اردو میں بھی کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، فصاحت و بلاغت ، اختصار و جامعیت ، اسلوب تکلم وگفتگو ، روانگی وسلاست، طرز گفتار وانداز کلام ، اشارات و کنایات ، تشبیہات و تلمیحات اور دیگر کئی لسانی و زبانی چیزیں ہیں ، جن کی دعوت واصلاح میں بہت اہمیت ہوتی ہے، لیکن دینی اداروں اور اسلامی مراکز میں زبان دانی اور لسانی مہارت کی طرف توجہ نا ہونے کے برابر ہے ، عصر علوم کی تعلیم کے نام سے دینی درسگاہوں میں اس کی تلافی کی کوشش ہونے لگی ہے ، لیکن اس کے باعث حقیقی مقصد ومشن میں کئی طرح کی کمزوریاں جنم لینے لگی ہیں ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top