- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہﷺ کے خصائص وامتیازات ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
امام الانبیاء اور خطیب الانبیاء ہونے کا شرف
نبی کریم ﷺ تمام انبیاء سے آخر میں مبعوث ہوئے، جبکہ مقام و مرتبہ سب سے بلند پایا۔ آپ کی رفعت و بلندی کا ایک انداز آپ کو امام النّبیین اور خطیب النّبیین کی خصوصیت سے نوازا جانا بھی ہے۔
آنحضرت ﷺ اپنی اس خصوصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: (( إِذَا کَانَ یَوْمُ القِیَامَۃِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِیِّیْنَ وَخَطِیبَہُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِہِمْ، غَیْرَ فَخْرٍ)) (سنن الترمذی:٣٦١٣ و سنن ابن ما جہ:٤٣١٤) ''روز قیامت بغیر کسی فخر کے میں انبیاء کا امام، ان کا خطیب اور ان کا صاحبِ شفاعت ہوں گا۔''
دنیا میں آپ ﷺ کے امام الانبیاء ہونے کی مثال معراج کے موقع پر آپ کا تمام انبیائے کرام کا امام بننا ہے۔
آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے: (( دَخَلْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَجُمِعَ لِیَ الْأَنْبِیَاءُ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ، فَقَدَّمَنِی جِبْرِیلُ حَتّٰی أَمَمْتُہُمْ)) (سنن النسائی:٤٤٩ و المقریزی، إمتاع الأسماع:276/8) ''میں بیت المقدس میں داخل ہوا تو میرے لیے تمام انبیاء کو جمع کیا گیا، پھر حضرت جبرائیل نے مجھے آگے کر دیا تو میں نے ان کی امامت کی۔''
ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت نماز ہونے پر میں نے ان کی امامت کی۔
دوسری حدیث میں یہ وضاحت بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بیت المقدس میں دو رکعت نماز ادا کی تھی۔ (صحیح مسلم:١٦٢ ،١٧٢)
انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کے بارے میں کتب احادیث اور سیرت و تاریخ میں مکمل تفصیل مذکور ہے۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے امام و خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ تمام نوع انسانی کے بھی امام و خطیب ہیں۔
آپ نے فرمایا: ''روز قیامت میں لوگوں کا امام ہوں گا۔ میں ہی ان کاخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا، لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں۔''( أحمد بن حنبل، المسند:٢١٢٥٦ و ابن أبی شیبہ، المصنف:٣١٦٤٠)
انبیاء و رسل علیہم السلام سمیت تمام نوع انسانی کا امام و خطیب ہونا رسولِ کریمﷺ کی ایسی عظیم خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی امت کو بھی تمام امتوں پر فضیلت و برتری سے نوازا ، اہل اسلام ہی نوع انسانی کی قیادت وسیاست کے حقدار ہیں،لیکن امت مسلمہ کی فکری وعملی پسماندگی کی وجہ سے عالمی قیادت ان سے چھن چکی ہے ، عظمت رفتہ کے حصول اور انسانیت کی عالمی قیادت وسیاست کے لیے ضروری ہے کہ امت مسلمہ عمل وکردار کے اعتبار سے امام الانبیاء اور خطیب الانبیاء ﷺ کے حقیقی امتی بنیں، لیکن ابھی تک اہل اسلام کی حالت زار قابل رحم ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
امام الانبیاء اور خطیب الانبیاء ہونے کا شرف
نبی کریم ﷺ تمام انبیاء سے آخر میں مبعوث ہوئے، جبکہ مقام و مرتبہ سب سے بلند پایا۔ آپ کی رفعت و بلندی کا ایک انداز آپ کو امام النّبیین اور خطیب النّبیین کی خصوصیت سے نوازا جانا بھی ہے۔
آنحضرت ﷺ اپنی اس خصوصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: (( إِذَا کَانَ یَوْمُ القِیَامَۃِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِیِّیْنَ وَخَطِیبَہُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِہِمْ، غَیْرَ فَخْرٍ)) (سنن الترمذی:٣٦١٣ و سنن ابن ما جہ:٤٣١٤) ''روز قیامت بغیر کسی فخر کے میں انبیاء کا امام، ان کا خطیب اور ان کا صاحبِ شفاعت ہوں گا۔''
دنیا میں آپ ﷺ کے امام الانبیاء ہونے کی مثال معراج کے موقع پر آپ کا تمام انبیائے کرام کا امام بننا ہے۔
آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے: (( دَخَلْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَجُمِعَ لِیَ الْأَنْبِیَاءُ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ، فَقَدَّمَنِی جِبْرِیلُ حَتّٰی أَمَمْتُہُمْ)) (سنن النسائی:٤٤٩ و المقریزی، إمتاع الأسماع:276/8) ''میں بیت المقدس میں داخل ہوا تو میرے لیے تمام انبیاء کو جمع کیا گیا، پھر حضرت جبرائیل نے مجھے آگے کر دیا تو میں نے ان کی امامت کی۔''
ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت نماز ہونے پر میں نے ان کی امامت کی۔
دوسری حدیث میں یہ وضاحت بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بیت المقدس میں دو رکعت نماز ادا کی تھی۔ (صحیح مسلم:١٦٢ ،١٧٢)
انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کے بارے میں کتب احادیث اور سیرت و تاریخ میں مکمل تفصیل مذکور ہے۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے امام و خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ تمام نوع انسانی کے بھی امام و خطیب ہیں۔
آپ نے فرمایا: ''روز قیامت میں لوگوں کا امام ہوں گا۔ میں ہی ان کاخطیب اور صاحب شفاعت ہوں گا، لیکن یہ کوئی فخر کی بات نہیں۔''( أحمد بن حنبل، المسند:٢١٢٥٦ و ابن أبی شیبہ، المصنف:٣١٦٤٠)
انبیاء و رسل علیہم السلام سمیت تمام نوع انسانی کا امام و خطیب ہونا رسولِ کریمﷺ کی ایسی عظیم خصوصیت ہے جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی امت کو بھی تمام امتوں پر فضیلت و برتری سے نوازا ، اہل اسلام ہی نوع انسانی کی قیادت وسیاست کے حقدار ہیں،لیکن امت مسلمہ کی فکری وعملی پسماندگی کی وجہ سے عالمی قیادت ان سے چھن چکی ہے ، عظمت رفتہ کے حصول اور انسانیت کی عالمی قیادت وسیاست کے لیے ضروری ہے کہ امت مسلمہ عمل وکردار کے اعتبار سے امام الانبیاء اور خطیب الانبیاء ﷺ کے حقیقی امتی بنیں، لیکن ابھی تک اہل اسلام کی حالت زار قابل رحم ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے