- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
ہنسنا ومسکرانا ،نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد
ہنسنے کا مطلب ہے منہ کھول کر آواز سے کھلکھلانا، جبکہ مسکرانے اور تبسم کا مفہوم ہے بغیر منہ کھولے چہرے پر فرحت اور خوشی کے اثرات ظاہر ہونا۔
خوش طبعی، مزاح اور مسکرانا لازم و ملزوم ہیں۔ مزاح کے ساتھ ساتھ آپ کا ہنسنے اور مسکرانے کا انداز بھی کتب سیرت و تاریخ میں محفوظ ہے۔ آپ کی حیات طیبہ کا کوئی گوشہ بھی امت سے مخفی نہیں اور نہ ہی انسانی زندگی کا کوئی ایسا لمحہ اور حصہ ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ کی ہدایات موجود نہ ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کی عادات و خصائل میں سے ایک آپ کا ہنسنا اور مسکرانا ہے۔ آپ کی اس عادت مبارکہ کے متعلق بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے مشاہدے کا تذکرہ کیا ہے۔جو کتب کے اوراق کے محفوظ ہے، اس میں بھی امت کے لیے کئی طرح رہنمائی موجود ہے ،
دوسروں کی نسبت انسان اپنے اہل خانہ سے بے تکلفی سے پیش آتا ہے۔ گھریلو زندگی میں آپ کی عادت مبارکہ کیا تھی؟ آپ کی رفیقہ حیات ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی اس قدر زور سے ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کا کوا نظر آنے لگے۔ آپ اکثر تبسم ہی فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری:٦٠٩٢ و صحیح مسلم:٨٩٩)
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اظہار فرحت کے لیے صرف مسکرا دیتے تھے۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ آپ زیادہ تر مسکرایا ہی کرتے تھے۔ (سنن الترمذی:٣٦٤٢ و الطبرانی، المعجم الکبیر:155/22)
آنحضرت ﷺ کے ہنسنے اور تبسم فرمانے کے بارے میں متعدد روایات مذکور ہیں۔ ایک روز چند قریشی خواتین آپ سے بآواز بلند باتیں کر رہی تھیں۔ اس دوران میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آ گئے۔ ان کا سن کر وہ عورتیں بھاگ کر چھپ گئیں ، جس پر آنحضرت ﷺ ہنسنے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ! اللہ آپ کو یوں ہی خوش و خرم رکھے۔ پھر انھوں نے ہنسنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ''جو عورتیں میرے پاس ابھی موجود تھیں ، مجھے ان پر ہنسی آ رہی ہے، وہ تمھارے آنے پر جلدی سے چھپ گئی ہیں۔'' (صحیح البخاری:٣٦٨٣ و صحیح مسلم:٢٣٩٦)
غزوہ حنین کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے شریکِ جہاد خواتین میں سے سیدہ ام ُسلیم رضی اللہ عنہا کے پاس خنجر دیکھا۔آپ نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایاکہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آئے گا تو میں یہ خنجر اس کے پیٹ میں گھونپ دوں گی۔ حضرت ام ُسلیم رضی اللہ عنہا کی یہ بات سن کر آپ مسکرانے لگے۔ (صحیح مسلم:١٨٠٩)
ایک بار دورانِ خطبہ جمعہ کچھ لوگوں نے آپ سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپ نے دعا فرمائی تو ہفتہ بھر بارش ہوتی رہی۔ اگلے جمعے لوگوں نے آپ سے بارش رکنے کی دعا کے متعلق درخواست کی تو یہ سن کر آپ مسکرانے لگے۔ پھر بارش رکنے کی دعا مانگی جس سے مطلع صاف ہو گیا۔ (صحیح البخاری:١٠٢١ وسنن أبی داود:١١٧٤)
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں: میرے قبول اسلام کے بعد جب بھی نبی مکرم ﷺ کی مبارک نظریں میرے چہرے پر پڑتیں تو آپ تبسم فرمایا کرتے۔ (صحیح البخاری:٣٨٢٢ و صحیح مسلم:٢٤٧٥)
کبھی کبھار آپ ﷺ کھلکھلا کر بھی ہنس لیا کرتے تھے، جیسے ایک یہودی عالم آپﷺ کے پاس آ کر کہنے لگا: اے محمد! ہم نے پڑھ رکھا ہے کہ روزِ قیامت تمام آسمان اللہ عزوجل کی ایک انگلی پر ہوں گے، تمام زمینیں ایک انگلی پر ہوں گی، تمام درخت ایک انگلی پر ہوں گے، پانی اور تمام مال و دولت ایک انگلی پر ہوں گے اور تمام مخلوقات ایک انگلی پر ہوں گی۔ تب ﷲ تعالیٰ فرمائے گا: صرف میں بادشاہ ہوں۔
اس یہودی عالم کی باتیں سن کر آنحضرت ﷺ اس قدر کھلکھلا کر ہنسے کہ آپ کی داڑھیں مبارک نظر آنے لگیں، پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی:( وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہ، یَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہ، وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o ) ( الزمر:67/39 و صحیح البخاری:٤٨١١ و صحیح مسلم:٢٧٨٦) ''انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کرنے کا حق ہے، حالانکہ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔''
غزوہ اُحد میں کفار کی طرف سے مسلمانوں پر جب دوبارہ حملہ ہوا، اس موقع پر ایک مشرک مسلمانوں کو خاصا نقصان پہنچا رہا تھا۔ حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ آنحضرت ﷺ کے دفاع میں مشرکین پر تیر برسا رہے تھے۔ آپ نے حضرت سعد سے فرمایا: ''تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں! خوب تیر برساؤ۔'' ایک مشرک سامنے آیا تو حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ نے اسے بغیر پھل والا تیر مارا۔ جیسے ہی تیر اسے لگا، وہ آدمی نیچے گرا اور ننگا ہوگیا۔ حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ کے اس کارنامے پر آنحضرت ﷺ خوب ہنسے حتیٰ کہ آپ کی داڑھیں مبارک دکھائی دینے لگیں۔ (صحیح مسلم:٤٢ و أحمد بن حنبل،المسند:١٦٢٠)
کتب سیرت و حدیث میں ایسے خوش نصیبوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو آپﷺ کی مسکراہٹ کا سبب بنے، جیسے حمار لقب کے عبداللہ نامی صحابی کے بارے میں مذکور ہے کہ رسول ﷲ ﷺ ان کی وجہ سے کئی بار ہنسے۔ (صحیح البخاری:٦٧٨٠)
اسی طرح حضرت نعیمان بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کا بھی ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو سرکار دوعالم ﷺ کی خوش طبعی کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ کتب میں ان کی خوش طبعی کے متعدد واقعات بھی مذکور ہیں۔ (الزرکلی، الأعلام:41/8و ابن عبدالبر ، الاستیعاب : ٤/ ٨٨)
ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں مذکور ہے کہ کبھی کبھار وہ بھی آپ کو ہنسانے کی غرض سے کوئی بات کر دیا کرتی تھیں۔ (ابن سعد الطبقات الکبریٰ:54/8 و الذہبی، سیرأعلام النبلاء :268/8 )
منقول ہے کہ درج ذیل آیات مبارکہ کے بعد آنحضرتﷺ نے ہنسنا ترک کر دیا تھا، صرف تبسم ہی فرمایا کرتے تھے:(اَفَمِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَo وَتَضْحَکُوْنَ وَلاَ تَبْکُوْنَo) (النجم:/،60،59/53 والقرطبی ، التفسیر ، النجم:٥٩، ٦٠) ''کیا اس بات پر تم تعجب کرتے ہو؟ ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔''
امام الھدیٰ ﷺ نے ہنسنے ہنسانے اور خوش طبعی کے بھی اصول بیان فرمائے ہیں ۔ اسلام نے بندہ مومن کو اس قدر آزاد نہیں چھوڑا کہ وہ ہنسانے کی غرض سے غلط بیانی کرے ، بلکہ ایسے طرز تکلم کی شدید مذمت کی گئی اور بار ہا اسے ہلاکت و تباہی کا باعث قرار دیا گیا۔
ارشاد نبوی ہے :(( وَیْلٌ لِلَّذِی یُحَدِّثُ بِالْحَدِیثِ لِیُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ، وَیْلٌ لَہُ وَیْلٌ لَہُ)) (سنن أبی داود:٤٩٩٠ و الألبانی، صحیح الجامع:٧١٣٦) ''وہ آدمی تباہی اور بربادی کا حقدار ہے جو لوگوں کو ہنسانے کی غرض سے جھوٹ بولتا ہے۔ ایسا آدمی تباہ وبرباد ہو، ایسا آدمی تباہ و برباد ہو۔''
آنحضرت ﷺ نے ایسے فعل پر بھی ہنسنے سے منع فرمایا ہے ، جس میں آدمی کا اختیار نہ ہو اور جو انسان کی تحقیر و استہزاء کا سبب بنے، جیسے آپ نے کسی کی ہوا خارج ہونے پر ہنسنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ''تم اس عمل پر کیوں ہنستے ہو جو تم خود بھی کرتے ہو۔'' (صحیح البخاری:٤٩٤٢و صحیح مسلم:٢٨٥٥)
پروردگار عالم نے نوعِ انسانی کو فرمایا:( فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا) (التوبہ:82/9 )'' لوگوں کو کم ہنسنا اور زیادہ رونا چاہیے۔''
ہادیِ عالم ﷺ نے فرمایا: ''ہنسی مزاح کم سے کم کیا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔'' سنن الترمذی:٢٣٠٥ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٥٠٦ )
ہنسنے مسکرانے اور مذاح وخوش طبعی جیسے امور میں نبوی ہدایات کی پاسداری کے مثالی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، بصورت دیگر کئی طرح کے اخلاقی وسماجی اور تربیتی و معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں ، ہنسی مزاح جب مذاق اڑانے اور تحقیر وتذلیل کی صورت میں ہو ، تو پھر اس سے عداوت و نفرت پیدا ہوتی ہے ، باہمی اختلاف وانتشار جنم لیتا ہے ، رشتے ناطے کمزور ہوتے اور سماجی وسیاسی تعلقات بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان گناہ گار ہوتا ہے اور رب تعالیٰ کی ناراضگی کا حقدار قرار پاتا ہے ،
جس دین حنیف نے ہنسی مزاح اور ہنسنے مسکرانے جیسے امور میں اس قدر شاندار ہدایات دی ہیں ، اس عالمگیر پیغام ربانی کی اہمیت وافادیت کے کیا ہی کہنے ، کیا اس دین لاریب کی صداقت و حقانیت پر ذرہ بھر بھی شک و شبہ کیا جا سکتا ہے ، لیکن اسلام کے نام لیواؤں کا مثالی وہمہ گیر اور ابدی وآفاقی پیغام ہدایت سے تعلق و ناطہ شدید کمزور ہوتا جا رہا ہے ، ہنسی مزاح اور مسکرانے جیسے امور تو کیا ، بنیادی عقائد و ایمانیات اور افکار و نظریات میں بھی یہ شرعی ہدایات اور نبوی تعلیمات سے اعراض برتنے لگے ہیں ، ان کے فرحت وشادمانی کے پروگرام اور ہنسی مزاح کے انداز و اطوار میں بھی کئی طرح سے ربانی ہدایات کی پامالی ہوتی ہے ،
مذہب بیزار جدید تہذیب والحاد تو خوش طبعی اور ہنسنے مسکرانے میں کسی طرح کے اخلاقی وسماجی اصول وآداب کا پابند ہی نہیں ، ان کا مقصد حیات ہی لہو ولعب اور کھیل کود ہے، خود کو جانور کی ارتقائی شکل تصورکرنے والا مذہب بیزار انسان ، تمام شعبہ ہائے زندگی میں اخلاقی اقدار وروایات کا باغی ہوا ، مغربی تہذیب ومعاشرے میں ہنسی مذاح کا تو مطلب ہی شتر بے مہار کی طرح تمام اخلاقیات کو پامال کرنا ہے ، طنز ومزاح ، فملمیں ، ڈرامے اور ان کے متعلقہ افراد وادارے سب صہیونیت کی عالمکاری کابہت ماثر ہتھیار ہیں ،
سونے ومعدنیات کے ذخائر ، ذرائع ابلاغ ، طباعت خانے اورسینما گھروں پر بالادستی حاصل کرنا صہیونی پروٹو کولز کا حصہ ہے ، یہ سب کچھ اب تقریبا یہودیوں کے قبضے میں ہے ، ان کے ذریعے سے وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو رہے ہیں ، ہالی وڈ ، بالی وڈ اور لالی وڈ صہیونیت کی عالمگیریت کے سب سے بڑا اور سریع ترین ذریع ہیں ، لوگ فلمیں ، ڈرامے اور مزاحیہ پروگرام وقت گزاری اور تفریح کے طور پر دیکھتے ہیں ، لیکن شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ مذہب بیزار جدید تہذیب والحاد سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
ہنسنا ومسکرانا ،نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد
ہنسنے کا مطلب ہے منہ کھول کر آواز سے کھلکھلانا، جبکہ مسکرانے اور تبسم کا مفہوم ہے بغیر منہ کھولے چہرے پر فرحت اور خوشی کے اثرات ظاہر ہونا۔
خوش طبعی، مزاح اور مسکرانا لازم و ملزوم ہیں۔ مزاح کے ساتھ ساتھ آپ کا ہنسنے اور مسکرانے کا انداز بھی کتب سیرت و تاریخ میں محفوظ ہے۔ آپ کی حیات طیبہ کا کوئی گوشہ بھی امت سے مخفی نہیں اور نہ ہی انسانی زندگی کا کوئی ایسا لمحہ اور حصہ ہے جس کے بارے میں آپ ﷺ کی ہدایات موجود نہ ہوں۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کی عادات و خصائل میں سے ایک آپ کا ہنسنا اور مسکرانا ہے۔ آپ کی اس عادت مبارکہ کے متعلق بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے مشاہدے کا تذکرہ کیا ہے۔جو کتب کے اوراق کے محفوظ ہے، اس میں بھی امت کے لیے کئی طرح رہنمائی موجود ہے ،
دوسروں کی نسبت انسان اپنے اہل خانہ سے بے تکلفی سے پیش آتا ہے۔ گھریلو زندگی میں آپ کی عادت مبارکہ کیا تھی؟ آپ کی رفیقہ حیات ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی اس قدر زور سے ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے گلے کا کوا نظر آنے لگے۔ آپ اکثر تبسم ہی فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری:٦٠٩٢ و صحیح مسلم:٨٩٩)
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اظہار فرحت کے لیے صرف مسکرا دیتے تھے۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ آپ زیادہ تر مسکرایا ہی کرتے تھے۔ (سنن الترمذی:٣٦٤٢ و الطبرانی، المعجم الکبیر:155/22)
آنحضرت ﷺ کے ہنسنے اور تبسم فرمانے کے بارے میں متعدد روایات مذکور ہیں۔ ایک روز چند قریشی خواتین آپ سے بآواز بلند باتیں کر رہی تھیں۔ اس دوران میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آ گئے۔ ان کا سن کر وہ عورتیں بھاگ کر چھپ گئیں ، جس پر آنحضرت ﷺ ہنسنے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ! اللہ آپ کو یوں ہی خوش و خرم رکھے۔ پھر انھوں نے ہنسنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ''جو عورتیں میرے پاس ابھی موجود تھیں ، مجھے ان پر ہنسی آ رہی ہے، وہ تمھارے آنے پر جلدی سے چھپ گئی ہیں۔'' (صحیح البخاری:٣٦٨٣ و صحیح مسلم:٢٣٩٦)
غزوہ حنین کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے شریکِ جہاد خواتین میں سے سیدہ ام ُسلیم رضی اللہ عنہا کے پاس خنجر دیکھا۔آپ نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایاکہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آئے گا تو میں یہ خنجر اس کے پیٹ میں گھونپ دوں گی۔ حضرت ام ُسلیم رضی اللہ عنہا کی یہ بات سن کر آپ مسکرانے لگے۔ (صحیح مسلم:١٨٠٩)
ایک بار دورانِ خطبہ جمعہ کچھ لوگوں نے آپ سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپ نے دعا فرمائی تو ہفتہ بھر بارش ہوتی رہی۔ اگلے جمعے لوگوں نے آپ سے بارش رکنے کی دعا کے متعلق درخواست کی تو یہ سن کر آپ مسکرانے لگے۔ پھر بارش رکنے کی دعا مانگی جس سے مطلع صاف ہو گیا۔ (صحیح البخاری:١٠٢١ وسنن أبی داود:١١٧٤)
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں: میرے قبول اسلام کے بعد جب بھی نبی مکرم ﷺ کی مبارک نظریں میرے چہرے پر پڑتیں تو آپ تبسم فرمایا کرتے۔ (صحیح البخاری:٣٨٢٢ و صحیح مسلم:٢٤٧٥)
کبھی کبھار آپ ﷺ کھلکھلا کر بھی ہنس لیا کرتے تھے، جیسے ایک یہودی عالم آپﷺ کے پاس آ کر کہنے لگا: اے محمد! ہم نے پڑھ رکھا ہے کہ روزِ قیامت تمام آسمان اللہ عزوجل کی ایک انگلی پر ہوں گے، تمام زمینیں ایک انگلی پر ہوں گی، تمام درخت ایک انگلی پر ہوں گے، پانی اور تمام مال و دولت ایک انگلی پر ہوں گے اور تمام مخلوقات ایک انگلی پر ہوں گی۔ تب ﷲ تعالیٰ فرمائے گا: صرف میں بادشاہ ہوں۔
اس یہودی عالم کی باتیں سن کر آنحضرت ﷺ اس قدر کھلکھلا کر ہنسے کہ آپ کی داڑھیں مبارک نظر آنے لگیں، پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی:( وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہ، یَوْمَ الْقِیٰـمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہ، وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ o ) ( الزمر:67/39 و صحیح البخاری:٤٨١١ و صحیح مسلم:٢٧٨٦) ''انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کرنے کا حق ہے، حالانکہ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔''
غزوہ اُحد میں کفار کی طرف سے مسلمانوں پر جب دوبارہ حملہ ہوا، اس موقع پر ایک مشرک مسلمانوں کو خاصا نقصان پہنچا رہا تھا۔ حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ آنحضرت ﷺ کے دفاع میں مشرکین پر تیر برسا رہے تھے۔ آپ نے حضرت سعد سے فرمایا: ''تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں! خوب تیر برساؤ۔'' ایک مشرک سامنے آیا تو حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ نے اسے بغیر پھل والا تیر مارا۔ جیسے ہی تیر اسے لگا، وہ آدمی نیچے گرا اور ننگا ہوگیا۔ حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ کے اس کارنامے پر آنحضرت ﷺ خوب ہنسے حتیٰ کہ آپ کی داڑھیں مبارک دکھائی دینے لگیں۔ (صحیح مسلم:٤٢ و أحمد بن حنبل،المسند:١٦٢٠)
کتب سیرت و حدیث میں ایسے خوش نصیبوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو آپﷺ کی مسکراہٹ کا سبب بنے، جیسے حمار لقب کے عبداللہ نامی صحابی کے بارے میں مذکور ہے کہ رسول ﷲ ﷺ ان کی وجہ سے کئی بار ہنسے۔ (صحیح البخاری:٦٧٨٠)
اسی طرح حضرت نعیمان بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کا بھی ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو سرکار دوعالم ﷺ کی خوش طبعی کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ کتب میں ان کی خوش طبعی کے متعدد واقعات بھی مذکور ہیں۔ (الزرکلی، الأعلام:41/8و ابن عبدالبر ، الاستیعاب : ٤/ ٨٨)
ام المومنین سیدہ سودہ رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں مذکور ہے کہ کبھی کبھار وہ بھی آپ کو ہنسانے کی غرض سے کوئی بات کر دیا کرتی تھیں۔ (ابن سعد الطبقات الکبریٰ:54/8 و الذہبی، سیرأعلام النبلاء :268/8 )
منقول ہے کہ درج ذیل آیات مبارکہ کے بعد آنحضرتﷺ نے ہنسنا ترک کر دیا تھا، صرف تبسم ہی فرمایا کرتے تھے:(اَفَمِنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَo وَتَضْحَکُوْنَ وَلاَ تَبْکُوْنَo) (النجم:/،60،59/53 والقرطبی ، التفسیر ، النجم:٥٩، ٦٠) ''کیا اس بات پر تم تعجب کرتے ہو؟ ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔''
امام الھدیٰ ﷺ نے ہنسنے ہنسانے اور خوش طبعی کے بھی اصول بیان فرمائے ہیں ۔ اسلام نے بندہ مومن کو اس قدر آزاد نہیں چھوڑا کہ وہ ہنسانے کی غرض سے غلط بیانی کرے ، بلکہ ایسے طرز تکلم کی شدید مذمت کی گئی اور بار ہا اسے ہلاکت و تباہی کا باعث قرار دیا گیا۔
ارشاد نبوی ہے :(( وَیْلٌ لِلَّذِی یُحَدِّثُ بِالْحَدِیثِ لِیُضْحِکَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ، وَیْلٌ لَہُ وَیْلٌ لَہُ)) (سنن أبی داود:٤٩٩٠ و الألبانی، صحیح الجامع:٧١٣٦) ''وہ آدمی تباہی اور بربادی کا حقدار ہے جو لوگوں کو ہنسانے کی غرض سے جھوٹ بولتا ہے۔ ایسا آدمی تباہ وبرباد ہو، ایسا آدمی تباہ و برباد ہو۔''
آنحضرت ﷺ نے ایسے فعل پر بھی ہنسنے سے منع فرمایا ہے ، جس میں آدمی کا اختیار نہ ہو اور جو انسان کی تحقیر و استہزاء کا سبب بنے، جیسے آپ نے کسی کی ہوا خارج ہونے پر ہنسنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ''تم اس عمل پر کیوں ہنستے ہو جو تم خود بھی کرتے ہو۔'' (صحیح البخاری:٤٩٤٢و صحیح مسلم:٢٨٥٥)
پروردگار عالم نے نوعِ انسانی کو فرمایا:( فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا) (التوبہ:82/9 )'' لوگوں کو کم ہنسنا اور زیادہ رونا چاہیے۔''
ہادیِ عالم ﷺ نے فرمایا: ''ہنسی مزاح کم سے کم کیا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔'' سنن الترمذی:٢٣٠٥ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٥٠٦ )
ہنسنے مسکرانے اور مذاح وخوش طبعی جیسے امور میں نبوی ہدایات کی پاسداری کے مثالی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، بصورت دیگر کئی طرح کے اخلاقی وسماجی اور تربیتی و معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں ، ہنسی مزاح جب مذاق اڑانے اور تحقیر وتذلیل کی صورت میں ہو ، تو پھر اس سے عداوت و نفرت پیدا ہوتی ہے ، باہمی اختلاف وانتشار جنم لیتا ہے ، رشتے ناطے کمزور ہوتے اور سماجی وسیاسی تعلقات بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان گناہ گار ہوتا ہے اور رب تعالیٰ کی ناراضگی کا حقدار قرار پاتا ہے ،
جس دین حنیف نے ہنسی مزاح اور ہنسنے مسکرانے جیسے امور میں اس قدر شاندار ہدایات دی ہیں ، اس عالمگیر پیغام ربانی کی اہمیت وافادیت کے کیا ہی کہنے ، کیا اس دین لاریب کی صداقت و حقانیت پر ذرہ بھر بھی شک و شبہ کیا جا سکتا ہے ، لیکن اسلام کے نام لیواؤں کا مثالی وہمہ گیر اور ابدی وآفاقی پیغام ہدایت سے تعلق و ناطہ شدید کمزور ہوتا جا رہا ہے ، ہنسی مزاح اور مسکرانے جیسے امور تو کیا ، بنیادی عقائد و ایمانیات اور افکار و نظریات میں بھی یہ شرعی ہدایات اور نبوی تعلیمات سے اعراض برتنے لگے ہیں ، ان کے فرحت وشادمانی کے پروگرام اور ہنسی مزاح کے انداز و اطوار میں بھی کئی طرح سے ربانی ہدایات کی پامالی ہوتی ہے ،
مذہب بیزار جدید تہذیب والحاد تو خوش طبعی اور ہنسنے مسکرانے میں کسی طرح کے اخلاقی وسماجی اصول وآداب کا پابند ہی نہیں ، ان کا مقصد حیات ہی لہو ولعب اور کھیل کود ہے، خود کو جانور کی ارتقائی شکل تصورکرنے والا مذہب بیزار انسان ، تمام شعبہ ہائے زندگی میں اخلاقی اقدار وروایات کا باغی ہوا ، مغربی تہذیب ومعاشرے میں ہنسی مذاح کا تو مطلب ہی شتر بے مہار کی طرح تمام اخلاقیات کو پامال کرنا ہے ، طنز ومزاح ، فملمیں ، ڈرامے اور ان کے متعلقہ افراد وادارے سب صہیونیت کی عالمکاری کابہت ماثر ہتھیار ہیں ،
سونے ومعدنیات کے ذخائر ، ذرائع ابلاغ ، طباعت خانے اورسینما گھروں پر بالادستی حاصل کرنا صہیونی پروٹو کولز کا حصہ ہے ، یہ سب کچھ اب تقریبا یہودیوں کے قبضے میں ہے ، ان کے ذریعے سے وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو رہے ہیں ، ہالی وڈ ، بالی وڈ اور لالی وڈ صہیونیت کی عالمگیریت کے سب سے بڑا اور سریع ترین ذریع ہیں ، لوگ فلمیں ، ڈرامے اور مزاحیہ پروگرام وقت گزاری اور تفریح کے طور پر دیکھتے ہیں ، لیکن شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ مذہب بیزار جدید تہذیب والحاد سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے