• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:18)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( تواضع و انکساری ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

تواضع و انکساری ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد

♻آنحضرت ﷺ عجز و انکساری اور تواضع جیسی عظیم صفات سے بھی بدرجہ اتم متصف تھے۔ تواضع کا مطلب ہے کہ اللہ عزوجل کے احکامات دل و جاں سے تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا۔ تواضع اگر انسانوں کے سامنے ہو تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ کسی کی عزت و تعظیم کی خاطر خود کو اپنے حقیقی مرتبے سے بھی کم ظاہر کرنا اور فضیلت و منصب میں اپنے سے کم تر کی بھی عزت و تکریم کرنا، ( المناوی، التوقیف،ص:212 و ابن حجر، فتح الباری:339/12)

♻ ظاہری نمود و نمائش سے پرہیز بھی عجز و انکساری میں شامل ہے ۔ غرور و تکبر، نمود و نمائش ، دکھلاوا و ریاکاری اور بڑے پن کا اظہار عجز و انکساری اور تواضع کی ضد ہے ۔ ان بری عادات و اطوار کے متعلق رہبر اعظم ﷺ نے مثالی ہدایات تعلیم فرمائی ہیں اور کے برے انجام و وبال سے بھی با خبر کیا ہے ،

♻آنحضرت ﷺ احکام خداوندی کی بجا آوری میں سب سے بڑھ کر متواضع تھے۔ لوگوں سے میل جول اور طرزِ زندگی میں بھی آپ نے ہمیشہ تواضع کا پہلو اختیار کیا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں تواضع و انکساری آپ کی سیرت طیبہ کا نمایاں ترین حصہ ہے، کسی موقع پر بھی آپ نے اس سے پہلو تہی اختیار نہیں کی ، چاہے حالات جیسے بھی ہوں ،


♻ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نیچے زمین پر بھی بیٹھ جایا کرتے، زمین ہی پر بیٹھ کر کھا پی لیتے ۔ آپ بکری خود باندھتے ۔ اگر غلام َجو کی روٹی کی دعوت دیتا تو آپ اسے بھی قبول کرلیتے تھے۔ (الطبرانی، المعجم الکبیر:١٢٤٩٤والألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٢١٢٥)

♻سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ مریض کی بیمار پرسی کیا کرتے، جنازوں میں شریک ہوتے ، گدھے پر سواری کرتے اور غلام کی بھی دعوت قبول فرمایا کرتے تھے ۔ بنو قریظہ کے متعلق فیصلے کے دن جس گدھے پر سوار ہوکر آپ تشریف لائے ، اس کی لگام کھجور کی چھال کی تھی اور گدھے کا پالان بھی کھجور کی چھال کا تھا۔ (سنن الترمذی:١٠١٧ و سنن ابن ماجہ:٤١٧٨)

♻ سرور کونین ﷺ تمام معاملات زندگی میں تواضع پسند تھے۔ آپ نے کسی کی آمد پر تعظیماً کھڑے ہونے سے سختی سے منع فرمایا اور ایسا چاہنے والے کو جہنم کا حقدار قرار دیا۔ (سنن الترمذی:٢٧٥٤،٢٧٥٥ وأحمد بن حنبل،المسند:١٦٨٤٥)

♻ غزوہ احزاب سے قبل رسول مقبول ﷺ خود خندق کی کھدائی میں شریک رہے ۔ خندق سے مٹی اُٹھا اُٹھا کر باہر لاتے ، جس کی وجہ سے آپ کا جسم مبارک مٹی سے بھر جاتا، لیکن اس میں نہ تو آپ نے کراہت محسوس کی اور نہ ہی اپنے منصب اور شان و عظمت کے منافی سمجھتے ہوئے اس سے احتراز برتا ۔ اسی طرح مسجد قباء کی تعمیر اور مسجد نبوی کی تعمیر میں بھی بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔

♻ یہ بھی نبی اکرم ﷺ کے کمال تواضع کی نادر مثال ہے کہ نبوت و رسالت کی عظیم ذمہ داری کے باوجود آپ اپنے اہل خانہ کو بھر پور وقت دیا کرتے، گھر کے کام کاج میں شریک ہوتے ، جوتے خود اپنے دست مبارک سے گانٹھ لیا کرتے اور کپڑوں کو ٹانکا بھی خود لگا لیتے تھے۔ (صحیح البخاری:٦٧٦ و أحمد بن حنبل،المسند:٢٤٧٤٩)

♻ سرتاج رسل ﷺ کی صفت ِ تواضع کا اندازہ لگانے کے لیے یہ دعا کیا ہی شاندار ہے ، جو آپ اکثر کیا کرتے تھے: (( اَللّٰہُمَّ ! أَحْیِنِی مِسْکِینًا وَأَمِتْنِی مِسْکِینًا وَاحْشُرْنِی فِی زُمْرَۃِ الْمَسَاکِینِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) ''اے اللہ! مجھے حالت مسکینی میں زندہ رکھنا، مسکینی کی حالت میں دنیا سے اُٹھانا اور روز قیامت مسکینوں ہی میں شمار کرنا۔''

♻ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس دعا کی وجہ پوچھی ، تو آپ نے فرمایا: ''صاحب ایمان مساکین مالدار لوگوں سے چالیس برس قبل جنت میں جائیں گے ۔ اے عائشہ! کبھی کسی مسکین کو خالی ہاتھ نہ بھیجنا، اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی دینے کو ہو۔ اے عائشہ ! مسکینوں سے محبت کیا کرنا اور انھیں اپنے قریب بٹھانا، روزِ قیامت اللہ عزوجل تمھیں اپنا قرب نصیب فرمائے گا۔'' ( سنن الترمذی:٢٣٥٢ و البیہقی، السنن الکبریٰ:١٣١٥٢)

♻ رسول ﷲ ﷺ نے امت کو بھی عجز و انکساری کی ترغیب دی ہے۔ آپ نے فرمایا: ''صدقہ و خیرات کرنے سے مال کم نہیں ہوتا، معاف کرنے سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے اور تواضع اختیار کرنے سے اللہ عزوجل رفعت عطا فرماتا ہے۔''(صحیح مسلم:٢٥٨٨ و سنن الترمذی:٢٠٢٩)

♻ اسی طرح امام کائنات ﷺ نے تواضع کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ''جو انسان قدرت ہونے کے باوجود صرف رضائے الٰہی کی خاطر تواضع اختیار کرتے ہوئے فاخرانہ لباس پہننا ترک کر دیتا ہے ، روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اسے تمام مخلوق کے سامنے بلا کر اختیار دیں گے کہ وہ جو بھی جنتی لباس پسند کرنا چاہے کر لے ۔'' (سنن الترمذی:٢٤٨١ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٧١٨)

♻ عصر حاضر میں کمزور ایمان وعقیدے اور جدید تہذیب والحاد کے مسلمانوں پر بھیانک اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، اہل اسلام مغربی تہذیب وثقافت کے باعث تمام شعبہ ہائے زندگی میں انتہائی گھمبیر صورتحال سے دو چار ہیں ، عبادات ومعاملات میں تواضع و انکساری ، دین پسندی، فکر آخرت، رضائے الٰہی ، زہد و قناعت ، تقوی وللہیت ، اخوت و بھائی چارگی اور احترام و خیرخواہی رخصت ہوتی جارہی ہے ، تواضع و انکساری اور تحمل و برداشت کے برعکس خود پسندی ، خود غرضی ، نمود و نمائش ، انانیت ، عداوت و بغض اور انتقام و نفرت جیسے منفی جذبات وبائی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں ،

♻ جدید فکر وتہذیب مذہب بیزاری اور اخلاق کشی پر مبنی ہے ، اس لیے ان کے ہاں رضائے الٰہی کی خاطر تحمل و برداشت اور حصولِ اجر و ثواب کے لیے تواضع و انکساری کا تصور بھی نہیں پایا جاتا ، بلکہ حقوق و مفادات ، مساوات وآزادی اور ترقی وروشن خیالی جیسے خوشنما نعروں کے ذریعے انسانوں کو بغاوت وسرکشی اور انانیت وخود غرضی کا خوگر بنانا جاتا ہے ، انتہائی مضبوط انتظامی و حفاظتی حصار میں محبوس انسانوں کو اگر کچھ وقت کے لیے آزاد کے دیا جائے ، تو یہ حیوانیت ودرنگی کا ایسا مظاہرہ کریں کہ جنگلی جانوروں کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں ، چند برسوں قبل نیویارک میں کچھ وقت کے لیے بجلی منقطع ہوئی ، اس غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ پر جدید تہذیب والحاد کے حاملین نے انسانیت سوز جس عمل وکردار کا مظاہرہ کیا ، اس کے تذکرے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مغرب کے انسان نما حیوان کی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top