- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
اسلامی طریقہ ملاقات ، اسوہ نبوی اور جدید تہذیب والحاد
انسانی معاشرے میں باہمی میل جول زندگی کا اہم ترین پہلو ہے ۔ اس بارے میں بھی آنحضرت ﷺ کے افعال واقوال سے مزین وافر ہدایات موجود ہیں۔ باہمی میل جول اور ملاقات کے حوالے سے آپ نے ایسا اُسوہ پیش کیا ، جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ آپ نے ہر اس بات کا لحاظ رکھا ، جس میں انسان کی عزت و تکریم ہے اور اسے اختیار کر کے باہمی عداوت اور بدگمانی سے بچا جا سکتا ہے۔ سیرتِ نبوی سے اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
نبی کریم ﷺ ملاقات کے وقت سب سے پہلے سلام کرنا پسند کرتے ۔ بغیر سلام کیے بات کرنے والے کو پہلے سلام کرنے کا حکم فرماتے۔ اگر کوئی اندر آنے کی اجازت لینے سے پہلے سلام نہ کہتا تو آپ اسے پہلے سلام کرنے اور پھر اندر آنے کی اجازت مانگنے کی تلقین کرتے۔ (سنن الترمذی:٢٦٩٩، ٢٧١٠ )
آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا: '' ہرمسلمان ملاقات کے وقت سلام کہے۔'' (صحیح مسلم:٢١٦٢)
سلام کے ساتھ مصافحے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''جو مسلمان ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے ہیں ، جدا ہونے سے قبل انھیں معاف کر دیا جاتا ہے۔'' اسی طرح بوقتِ ملاقات پہلے سلام کرنے والے کو آپ نے بہتر گردانا، (صحیح البخاری:٦٠٧٧ و سنن أبی داود:٥٢١٢ )
آنحضرت ﷺ ملاقات کے وقت مصافحہ بھی کیا کرتے اور معانقہ بھی کرلیتے تھے۔(سنن أبی داود:٥٢١٤ و أحمد بن حنبل،المسند:٢١٤٤٣)
آنحضرت ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آپ کے ہاں آتیں، آپ کھڑے ہوکر آگے بڑھتے ۔ اپنی لخت جگر کا ہاتھ پکڑ لیتے ، ان کو بوسہ دیتے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھالیتے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا بھی آپ کی آمد پر اسی طرح کرتی تھیں۔ (سنن أبی داود:٥٢١٧ و الحاکم، المستدرک:٤٨٠٧)
مصافحہ کرتے ہوئے اگر کوئی آدمی رسول مقبول ﷺ کا دست مبارک تھام لیتا ، تو آپ خود سے ہاتھ نہ چھڑاتے ، بلکہ جب وہ چاہتا خود ہی چھوڑتا۔ آپ اس کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر باتیں کرتے ، اپنا چہرہ مبارک اِدھر اُدھر نہ پھیرتے اور نہ کسی کی موجودگی میں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھتے ۔ آپ ملاقاتی کی طرف صرف چہرہ مبارک ہی نہ کرتے ، بلکہ مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ (سنن الترمذی:٢٤٩٠ و سنن ابن ماجہ:٣٧١٦ و أحمد بن حنبل،المسند:٦٨٤)
نبی مکرم ﷺ کسی کی آمد پر کھڑے ہوکر آگے بھی تشریف لے جاتے اور اس کا استقبال کرتے۔(سنن الترمذی:٢٧٣٢ و الحاکم،المستدرک:٤٨٠٧)
آنحضرت ﷺ نے معاشرے کے تمام افراد کو عزت و شرف کا مقام دیا اور انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ آپ صرف اپنے ہاں آنے والوں ہی سے حسن سلوک نہ فرماتے ، بلکہ جو لوگ عذر کی بنیاد پر آپ کی زیارت سے محروم تھے،ان کے ہاں خود تشریف لے جاتے ، ان کی بیمار پرسی کرتے ، انھیں دلاسا دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ (صحیح البخاری:٥٦٦٣ و صحیح مسلم:٩٢٥ و سنن الترمذی:١٠١٧)
اگر آنحضرت ﷺ کی خواتین سے ملاقات ہوتی ، تو آپ انھیں بھی سلام کہتے ، البتہ ان سے مصافحہ نہ کیا کرتے تھے ۔ آپ نے فرمایا: ''میں خواتین سے مصافحہ نہیں کرتا۔'' (صحیح مسلم:١٨٦٦ و سنن أبی داود:٥٢٠٤ و سنن ابن ماجہ:٢٨٧٤، ٢٨٧٥ )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بچوں کو بھی سلام کرتے تھے ۔ سلام کے علاوہ آپ کا بچوں کے سرپر دست شفقت پھیرنا اور ان کے لیے دعا فرمانا بھی ثابت ہے ۔ چھوٹے بچے کو آپ اپنی گود میں بھی بٹھا لیتے تھے۔ (صحیح البخاری:٦٢٤٧ و صحیح مسلم:٢١٤٤ و النسائی، السنن الکبریٰ:١٠٠٨٨)
آنحضرت ﷺ ملاقات کے لیے آنے والے مہمان کی آمد پر اس کا پُرتپاک استقبال کرتے اور اسے خوش آمدید کہتے۔ آپ اپنی چچازاد حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کے آنے پر انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔ (صحیح البخاری:٥٣،٣٥٧، ٣٦٢٣ و صحیح مسلم:١٧،٣٣٦،٢٤٥٠)
نبی اکرم ﷺ مہمان کی آمد پر خوش آمدید کہہ کر خوشی کا اظہار فرماتے ۔ اس کے علاوہ الوداع کرتے ہوئے دعا دینا بھی آپ کا معمول تھا ۔ مہمان کو رخصت کرتے وقت آپ فرماتے : (( اَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِینَکَ وَأَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیمَ عَمَلِکَ)) (سنن أبی داود:٢٦٠٠) ''میں تمھارے دین اور تمھاری امانت کو اﷲ کے حوالے کرتا ہوں اور تمھارے آخری اعمال اچھے ہوں، یہ بھی ﷲ کے سپرد ہیں۔''
آنحضرت ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی سے ملاقات کے لیے جاتے ، تو اندر آنے کی اجازت طلب کرتے ۔ دروازے کے سامنے کھڑے ہونے کے بجائے دروازے سے ہٹ کر کھڑے ہوتے تھے۔ (سنن الترمذی:٢٦٩٩، ٢٧١٠ و أحمد بن حنبل، المسند:٢٢٣٩٨،٤٨٨٤)
ملاقات کے لیے اجازت طلب کرنے والا اپنے نام کے بجائے بس ''میں'' کہتا تو آپ اسے اچھا نہ گردانتے تھے۔ حدیث مبارکہ میں اس حوالے سے واقعہ بھی مذکور ہے ، (صحیح البخاری:٦٢٥٠وصحیح مسلم:٢١٥٥)
نبی کریم ﷺ نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت ملنے سے پہلے اندر جھانکنا شدید ناپسند کیا اور فرمایا: ''طلب اجازت کا حکم اس نظر سے بچاؤ ہی کے لیے تو دیا گیا ہے۔'' مزید فرمایا: ''صرف تین بار اجازت مانگنی چاہیے، پھر بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانا چاہیے ۔''
(صحیح البخاری:٦٢٤١، ٦٢٤٥ و صحیح مسلم:٢١٥٦،٢١٥٣)
رسولِ اکرم ﷺ نے ملاقات کے وقت مسکراتے چہرے سے ملنا باعث اجر و ثواب قرار دیا اور مزید فرمایا: ''یہ کوئی حقیر عمل نہیں ہے۔'' (صحیح مسلم:٢٦٢٦وأحمد بن حنبل،المسند:١٤٨٧٧)
سرور کونین ﷺ کسی کی آمد پر لوگوں کے بت بن کر کھڑے ہونے کو شدید برا جانتے اور اسے اپنے لیے پسند کرنے والے کو جہنم کا حقدار ٹھہرایا۔ علاوہ ازیں آپ نے کسی کی ملاقات پر سجدہ کرنے اور جھکنے سے بھی منع فرمایا ۔ نہ اپنے لیے کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت دی اور نہ ہی امت کے کسی فرد کے لیے اسے جائز ٹھہرایا، (سنن أبی داود:٢١٤ و سنن الترمذی:٢٧٢٨، ٢٧٥٥ و سنن ابن ماجہ:١٨٥٢)
نبی کریم ﷺ نے اجازت کے بغیر کسی کی خاص نشست پر بیٹھنے سے منع فرمایا ۔ یہ بھی فرمایا کہ جہاں کسی کا اختیار ہو وہاں کوئی اور امامت نہ کرائے ۔ نیز کسی کو اس کی جگہ سے کھڑا کر کے خود وہاں بیٹھنے سے بھی منع فرمایا ،(صحیح البخاری:٦٢٦٩ و صحیح مسلم:٦٧٣،٢١٧٧ و أحمد بن حنبل،المسند:١٧٠٩٢)
وقت ملاقات یہود و نصاریٰ کو پہلے سلام کہنے سے رسول رحمت ﷺ نے منع کیا ۔ اہل کتاب کے خبث باطن کی وجہ سے ان کے سلام کے جواب میں صرف ''وعلیکم'' کہنا ہی کافی قرار دیا۔ (صحیح البخاری:٥٢٣٣ وصحیح مسلم:٢٠، ٢١٦٧)
تین افراد پر مشتمل مجلس میں ایک کو چھوڑ کر دو کا باہم سرگوشی کرنا ، اسے بھی رسول مکرم ﷺ نے ممنوع ٹھہرایا ہے ۔(صحیح البخاری:٦٢٨٨وصحیح مسلم:٢١٨٣)
نبوی طریقہ ملاقات اسلامی تہذیب ومعاشرے کا امتیازی وصف ہے ، دیگر ادیان و مذاھب اور افکار و نظریات کا دامن اس سے بلکل خالی ہے ، نبوی تعلیم کردہ طرزِ ملاقات اور اندازِ استقبال کے بہت ہی شاندار مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اس سے باہمی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات جنم لیتے ہیں ، اسلامی اخوت و بھائی چارگی کی آبیاری ہوتی ہے ، عداوت و نفرت کا قلع قمع ہوتا ہے ، معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنتا ہے اور تکلیف وپریشانی بانٹنے کا سامان ہوتا ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلامی طرز عمل وکردار اختیار کرنے سے رب العزت کی رضا حاصل ہوتی ہے اور بندہ مومن اجر و ثواب کا حقدار قرار پاتا ہے ،
لیکن دیگر معاملات زندگی کی طرح ملاقات اور تعلق داری میں بھی اہل اسلام مغربی تہذیب وثقافت کی نقالی کی روش پر گامزن ہیں ، ملاقات کا انداز ، الوداعی اسلوب اور الفاظ و جملوں کا استعمال ، انداز لباس وگفتگو اور طرزِ بود و باش ، ان سب امور میں مغربی تہذیب وکلچر ہی نظر آتا ہے اور وہ اسلامی ممالک اور مسلمان گھرانوں میں ، نہ کہ مغرب و یورپ میں بسنے والے اہل اسلام کے ہاں ہی ، بلکہ دیار غیر کے نو مسلمیں پیدائشی اور خاندانی مسلمانوں سے بھی اچھے مسلمان ثابت ہو رہے ہیں ، وہ عام طور پر اسلامی تہذیب وثقافت کو بہت اہتمام اور عمدہ انداز میں اختیار کرتے ہیں ،
عالمی استعماری قوتوں کا منصوبہ تمام کرہ ارض پر ایک ہی دستور حیات قائم کرنا ہے ، اس کے لیے وہ تمام دنیا کو مذہب بیزار کرنا چاہتے اور انہیں ایک ہی طرزِ زندگی کا پابند کرنا چاہتے ہیں ، لباس وخوراک ، تعلیم و تربیت ، معیشت ومعاشرت ، اخلاق و سیاست ، زبان وگفتار ، انداز خوشی و غمی ، طرز بود و باش، وضع قطع اور ملاقات وتعلق داری، یہ تمام معاملات زندگی جدید کفر والحاد کا ہدف ہیں ، بلکہ انتہائی مکاری اور عیاری سے کافی حد تک وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو چکے ہیں ، انہوں نے انسانوں کی فکر و سوچ تک مسخ کر ڈالی ہے ، اکثر انسان مذہب بیزار مغربی فکر وتہذیب کی نقالی میں سرگراں ہیں ، بلکہ انسانیت کی دشمن جدید تہذیب وثقافت کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
اسلامی طریقہ ملاقات ، اسوہ نبوی اور جدید تہذیب والحاد
انسانی معاشرے میں باہمی میل جول زندگی کا اہم ترین پہلو ہے ۔ اس بارے میں بھی آنحضرت ﷺ کے افعال واقوال سے مزین وافر ہدایات موجود ہیں۔ باہمی میل جول اور ملاقات کے حوالے سے آپ نے ایسا اُسوہ پیش کیا ، جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ آپ نے ہر اس بات کا لحاظ رکھا ، جس میں انسان کی عزت و تکریم ہے اور اسے اختیار کر کے باہمی عداوت اور بدگمانی سے بچا جا سکتا ہے۔ سیرتِ نبوی سے اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
نبی کریم ﷺ ملاقات کے وقت سب سے پہلے سلام کرنا پسند کرتے ۔ بغیر سلام کیے بات کرنے والے کو پہلے سلام کرنے کا حکم فرماتے۔ اگر کوئی اندر آنے کی اجازت لینے سے پہلے سلام نہ کہتا تو آپ اسے پہلے سلام کرنے اور پھر اندر آنے کی اجازت مانگنے کی تلقین کرتے۔ (سنن الترمذی:٢٦٩٩، ٢٧١٠ )
آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا: '' ہرمسلمان ملاقات کے وقت سلام کہے۔'' (صحیح مسلم:٢١٦٢)
سلام کے ساتھ مصافحے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''جو مسلمان ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے ہیں ، جدا ہونے سے قبل انھیں معاف کر دیا جاتا ہے۔'' اسی طرح بوقتِ ملاقات پہلے سلام کرنے والے کو آپ نے بہتر گردانا، (صحیح البخاری:٦٠٧٧ و سنن أبی داود:٥٢١٢ )
آنحضرت ﷺ ملاقات کے وقت مصافحہ بھی کیا کرتے اور معانقہ بھی کرلیتے تھے۔(سنن أبی داود:٥٢١٤ و أحمد بن حنبل،المسند:٢١٤٤٣)
آنحضرت ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آپ کے ہاں آتیں، آپ کھڑے ہوکر آگے بڑھتے ۔ اپنی لخت جگر کا ہاتھ پکڑ لیتے ، ان کو بوسہ دیتے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھالیتے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا بھی آپ کی آمد پر اسی طرح کرتی تھیں۔ (سنن أبی داود:٥٢١٧ و الحاکم، المستدرک:٤٨٠٧)
مصافحہ کرتے ہوئے اگر کوئی آدمی رسول مقبول ﷺ کا دست مبارک تھام لیتا ، تو آپ خود سے ہاتھ نہ چھڑاتے ، بلکہ جب وہ چاہتا خود ہی چھوڑتا۔ آپ اس کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر باتیں کرتے ، اپنا چہرہ مبارک اِدھر اُدھر نہ پھیرتے اور نہ کسی کی موجودگی میں ٹانگیں پھیلا کر بیٹھتے ۔ آپ ملاقاتی کی طرف صرف چہرہ مبارک ہی نہ کرتے ، بلکہ مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ (سنن الترمذی:٢٤٩٠ و سنن ابن ماجہ:٣٧١٦ و أحمد بن حنبل،المسند:٦٨٤)
نبی مکرم ﷺ کسی کی آمد پر کھڑے ہوکر آگے بھی تشریف لے جاتے اور اس کا استقبال کرتے۔(سنن الترمذی:٢٧٣٢ و الحاکم،المستدرک:٤٨٠٧)
آنحضرت ﷺ نے معاشرے کے تمام افراد کو عزت و شرف کا مقام دیا اور انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ آپ صرف اپنے ہاں آنے والوں ہی سے حسن سلوک نہ فرماتے ، بلکہ جو لوگ عذر کی بنیاد پر آپ کی زیارت سے محروم تھے،ان کے ہاں خود تشریف لے جاتے ، ان کی بیمار پرسی کرتے ، انھیں دلاسا دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ (صحیح البخاری:٥٦٦٣ و صحیح مسلم:٩٢٥ و سنن الترمذی:١٠١٧)
اگر آنحضرت ﷺ کی خواتین سے ملاقات ہوتی ، تو آپ انھیں بھی سلام کہتے ، البتہ ان سے مصافحہ نہ کیا کرتے تھے ۔ آپ نے فرمایا: ''میں خواتین سے مصافحہ نہیں کرتا۔'' (صحیح مسلم:١٨٦٦ و سنن أبی داود:٥٢٠٤ و سنن ابن ماجہ:٢٨٧٤، ٢٨٧٥ )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بچوں کو بھی سلام کرتے تھے ۔ سلام کے علاوہ آپ کا بچوں کے سرپر دست شفقت پھیرنا اور ان کے لیے دعا فرمانا بھی ثابت ہے ۔ چھوٹے بچے کو آپ اپنی گود میں بھی بٹھا لیتے تھے۔ (صحیح البخاری:٦٢٤٧ و صحیح مسلم:٢١٤٤ و النسائی، السنن الکبریٰ:١٠٠٨٨)
آنحضرت ﷺ ملاقات کے لیے آنے والے مہمان کی آمد پر اس کا پُرتپاک استقبال کرتے اور اسے خوش آمدید کہتے۔ آپ اپنی چچازاد حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا اور اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کے آنے پر انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔ (صحیح البخاری:٥٣،٣٥٧، ٣٦٢٣ و صحیح مسلم:١٧،٣٣٦،٢٤٥٠)
نبی اکرم ﷺ مہمان کی آمد پر خوش آمدید کہہ کر خوشی کا اظہار فرماتے ۔ اس کے علاوہ الوداع کرتے ہوئے دعا دینا بھی آپ کا معمول تھا ۔ مہمان کو رخصت کرتے وقت آپ فرماتے : (( اَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِینَکَ وَأَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیمَ عَمَلِکَ)) (سنن أبی داود:٢٦٠٠) ''میں تمھارے دین اور تمھاری امانت کو اﷲ کے حوالے کرتا ہوں اور تمھارے آخری اعمال اچھے ہوں، یہ بھی ﷲ کے سپرد ہیں۔''
آنحضرت ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی سے ملاقات کے لیے جاتے ، تو اندر آنے کی اجازت طلب کرتے ۔ دروازے کے سامنے کھڑے ہونے کے بجائے دروازے سے ہٹ کر کھڑے ہوتے تھے۔ (سنن الترمذی:٢٦٩٩، ٢٧١٠ و أحمد بن حنبل، المسند:٢٢٣٩٨،٤٨٨٤)
ملاقات کے لیے اجازت طلب کرنے والا اپنے نام کے بجائے بس ''میں'' کہتا تو آپ اسے اچھا نہ گردانتے تھے۔ حدیث مبارکہ میں اس حوالے سے واقعہ بھی مذکور ہے ، (صحیح البخاری:٦٢٥٠وصحیح مسلم:٢١٥٥)
نبی کریم ﷺ نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت ملنے سے پہلے اندر جھانکنا شدید ناپسند کیا اور فرمایا: ''طلب اجازت کا حکم اس نظر سے بچاؤ ہی کے لیے تو دیا گیا ہے۔'' مزید فرمایا: ''صرف تین بار اجازت مانگنی چاہیے، پھر بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانا چاہیے ۔''
(صحیح البخاری:٦٢٤١، ٦٢٤٥ و صحیح مسلم:٢١٥٦،٢١٥٣)
رسولِ اکرم ﷺ نے ملاقات کے وقت مسکراتے چہرے سے ملنا باعث اجر و ثواب قرار دیا اور مزید فرمایا: ''یہ کوئی حقیر عمل نہیں ہے۔'' (صحیح مسلم:٢٦٢٦وأحمد بن حنبل،المسند:١٤٨٧٧)
سرور کونین ﷺ کسی کی آمد پر لوگوں کے بت بن کر کھڑے ہونے کو شدید برا جانتے اور اسے اپنے لیے پسند کرنے والے کو جہنم کا حقدار ٹھہرایا۔ علاوہ ازیں آپ نے کسی کی ملاقات پر سجدہ کرنے اور جھکنے سے بھی منع فرمایا ۔ نہ اپنے لیے کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت دی اور نہ ہی امت کے کسی فرد کے لیے اسے جائز ٹھہرایا، (سنن أبی داود:٢١٤ و سنن الترمذی:٢٧٢٨، ٢٧٥٥ و سنن ابن ماجہ:١٨٥٢)
نبی کریم ﷺ نے اجازت کے بغیر کسی کی خاص نشست پر بیٹھنے سے منع فرمایا ۔ یہ بھی فرمایا کہ جہاں کسی کا اختیار ہو وہاں کوئی اور امامت نہ کرائے ۔ نیز کسی کو اس کی جگہ سے کھڑا کر کے خود وہاں بیٹھنے سے بھی منع فرمایا ،(صحیح البخاری:٦٢٦٩ و صحیح مسلم:٦٧٣،٢١٧٧ و أحمد بن حنبل،المسند:١٧٠٩٢)
وقت ملاقات یہود و نصاریٰ کو پہلے سلام کہنے سے رسول رحمت ﷺ نے منع کیا ۔ اہل کتاب کے خبث باطن کی وجہ سے ان کے سلام کے جواب میں صرف ''وعلیکم'' کہنا ہی کافی قرار دیا۔ (صحیح البخاری:٥٢٣٣ وصحیح مسلم:٢٠، ٢١٦٧)
تین افراد پر مشتمل مجلس میں ایک کو چھوڑ کر دو کا باہم سرگوشی کرنا ، اسے بھی رسول مکرم ﷺ نے ممنوع ٹھہرایا ہے ۔(صحیح البخاری:٦٢٨٨وصحیح مسلم:٢١٨٣)
نبوی طریقہ ملاقات اسلامی تہذیب ومعاشرے کا امتیازی وصف ہے ، دیگر ادیان و مذاھب اور افکار و نظریات کا دامن اس سے بلکل خالی ہے ، نبوی تعلیم کردہ طرزِ ملاقات اور اندازِ استقبال کے بہت ہی شاندار مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اس سے باہمی ہمدردی و خیرخواہی کے جذبات جنم لیتے ہیں ، اسلامی اخوت و بھائی چارگی کی آبیاری ہوتی ہے ، عداوت و نفرت کا قلع قمع ہوتا ہے ، معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنتا ہے اور تکلیف وپریشانی بانٹنے کا سامان ہوتا ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلامی طرز عمل وکردار اختیار کرنے سے رب العزت کی رضا حاصل ہوتی ہے اور بندہ مومن اجر و ثواب کا حقدار قرار پاتا ہے ،
لیکن دیگر معاملات زندگی کی طرح ملاقات اور تعلق داری میں بھی اہل اسلام مغربی تہذیب وثقافت کی نقالی کی روش پر گامزن ہیں ، ملاقات کا انداز ، الوداعی اسلوب اور الفاظ و جملوں کا استعمال ، انداز لباس وگفتگو اور طرزِ بود و باش ، ان سب امور میں مغربی تہذیب وکلچر ہی نظر آتا ہے اور وہ اسلامی ممالک اور مسلمان گھرانوں میں ، نہ کہ مغرب و یورپ میں بسنے والے اہل اسلام کے ہاں ہی ، بلکہ دیار غیر کے نو مسلمیں پیدائشی اور خاندانی مسلمانوں سے بھی اچھے مسلمان ثابت ہو رہے ہیں ، وہ عام طور پر اسلامی تہذیب وثقافت کو بہت اہتمام اور عمدہ انداز میں اختیار کرتے ہیں ،
عالمی استعماری قوتوں کا منصوبہ تمام کرہ ارض پر ایک ہی دستور حیات قائم کرنا ہے ، اس کے لیے وہ تمام دنیا کو مذہب بیزار کرنا چاہتے اور انہیں ایک ہی طرزِ زندگی کا پابند کرنا چاہتے ہیں ، لباس وخوراک ، تعلیم و تربیت ، معیشت ومعاشرت ، اخلاق و سیاست ، زبان وگفتار ، انداز خوشی و غمی ، طرز بود و باش، وضع قطع اور ملاقات وتعلق داری، یہ تمام معاملات زندگی جدید کفر والحاد کا ہدف ہیں ، بلکہ انتہائی مکاری اور عیاری سے کافی حد تک وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو چکے ہیں ، انہوں نے انسانوں کی فکر و سوچ تک مسخ کر ڈالی ہے ، اکثر انسان مذہب بیزار مغربی فکر وتہذیب کی نقالی میں سرگراں ہیں ، بلکہ انسانیت کی دشمن جدید تہذیب وثقافت کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے