- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عادت وخصلت کا مفہوم ومطلب ہے:
عادت سے مقصود ہے: تکرار سے کیا جانے والا ہر کام۔ ایک جامع تعریف یہ کی گئی ہے: عادت وہ معاملہ ہوتا ہے جسے لوگ اپنے عقل و شعور سے بار بار کریں اور اسے تکرار سے اختیار کریں، (الجرجانی ،التعریفات،ص:١٤٦و المناوی، التوقیف،ص:٤٩٥)
عادت کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے : عادت ہر اس امر کو کہتے ہیں جس کا انسان عادی ہو جائے حتیٰ کہ اسے بغیر مشقت کے سر انجام دینے لگے۔(أبو حبیب، القاموس الفقہی، ص:٢٦٥)
ان تینوں تعریفات کو ملا کر جامع ترین تعریف یہ سامنے آتی ہے کہ ہر وہ کام عادت کہلاتا ہے جسے آدمی عقل و شعور سے اس قدر تکرار سے کرے کہ وہ اس کے مزاج میں رَچ بس جائے اور وہ اُسے بغیر کسی مشقت کے بار بار سرانجام دینے لگے۔ وہ کام یوں اس کی طبیعت و مزاج کا حصہ بن جائے کہ اسے ترک کرنا مشکل ہو۔
جیسے کہ نماز اور دیگر عبادات ہیں۔ شروع میں انھیں انجام دینا انتہائی مشکل ہوتا ہے ، لیکن پابندی اور تسلسل سے ان کی بجا آوری سے بندۂ مومن ان کا اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ ان کا ترک مشکل ہوتاہے۔ اس طرح وہ کام فطرتِ ثانیہ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے: ''الْعَادَۃُ طَبِیْعَۃٌ ثَانِیَۃٌ'' (الأصفہانی، الذریعۃ إلی مکارم الشریعہ، ص:٥٠) عادت دوسرے درجے کی فطرت ہوتی ہے۔
باقی رہا لفظ خصلت تو یہ بھی عادت کے ہم معنی ہے۔ ویسے عموماً اچھی عادت کو خصلت اور خوبی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: ''چالیس خصلتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک پر بھی ثواب کی نیت اور وعدے پر یقین کے ساتھ عمل کرنے والا جنت کا حقدار قرار پائے گا۔'' (صحیح البخاری:٢٦٣١)
اچھی عادات اور خصائل ایک طرح سے اخلاق حسنہ بھی گردانی جاتی ہیں۔ جبکہ بری عادات و اطوار کو اخلاق سیئہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، شریعت اسلامیہ میں اخلاق حسنہ اور اخلاق سیئہ کا تفصیلی تذکرہ ہے،
جدید فکرو تہذیب کیونکہ خالق و مذہب کی منکر ہے ، اس لیے ان کے ہاں اچھی بری عادات و اطوار کا معیار ہی کچھ اور ہے ، اجر و ثواب اور گناہ و برائی کا تصور ان کا ہاں بلکل نہیں ، تاریخ انسانی میں یہ واحد فکر وتہذیب ہے ، جو کسی طرح کی عمدہ اقدار وروایات اور اخلاق و عادات کو ابدی وآفاقی نہیں ہی مانتی ، بس وہی اچھا ہے جسے لوگ اچھا سمجھیں اور جس میں لوگوں کا ظاہری فائدہ ہو ،
مذہب بیزار جدید فکر والحاد کے دیگر تمام انسانیت سمیت امت مسلمہ پر بھی فکری وعملی گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ، اہل اسلام بھی انفرادی واجتماعی زندگی میں اچھی عادات و اطوار ، اسلامی اخلاق و کردار اور عمدہ اقدار وروایات میں کمزور سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عادت وخصلت کا مفہوم ومطلب ہے:
عادت سے مقصود ہے: تکرار سے کیا جانے والا ہر کام۔ ایک جامع تعریف یہ کی گئی ہے: عادت وہ معاملہ ہوتا ہے جسے لوگ اپنے عقل و شعور سے بار بار کریں اور اسے تکرار سے اختیار کریں، (الجرجانی ،التعریفات،ص:١٤٦و المناوی، التوقیف،ص:٤٩٥)
عادت کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے : عادت ہر اس امر کو کہتے ہیں جس کا انسان عادی ہو جائے حتیٰ کہ اسے بغیر مشقت کے سر انجام دینے لگے۔(أبو حبیب، القاموس الفقہی، ص:٢٦٥)
ان تینوں تعریفات کو ملا کر جامع ترین تعریف یہ سامنے آتی ہے کہ ہر وہ کام عادت کہلاتا ہے جسے آدمی عقل و شعور سے اس قدر تکرار سے کرے کہ وہ اس کے مزاج میں رَچ بس جائے اور وہ اُسے بغیر کسی مشقت کے بار بار سرانجام دینے لگے۔ وہ کام یوں اس کی طبیعت و مزاج کا حصہ بن جائے کہ اسے ترک کرنا مشکل ہو۔
جیسے کہ نماز اور دیگر عبادات ہیں۔ شروع میں انھیں انجام دینا انتہائی مشکل ہوتا ہے ، لیکن پابندی اور تسلسل سے ان کی بجا آوری سے بندۂ مومن ان کا اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ ان کا ترک مشکل ہوتاہے۔ اس طرح وہ کام فطرتِ ثانیہ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے: ''الْعَادَۃُ طَبِیْعَۃٌ ثَانِیَۃٌ'' (الأصفہانی، الذریعۃ إلی مکارم الشریعہ، ص:٥٠) عادت دوسرے درجے کی فطرت ہوتی ہے۔
باقی رہا لفظ خصلت تو یہ بھی عادت کے ہم معنی ہے۔ ویسے عموماً اچھی عادت کو خصلت اور خوبی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: ''چالیس خصلتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک پر بھی ثواب کی نیت اور وعدے پر یقین کے ساتھ عمل کرنے والا جنت کا حقدار قرار پائے گا۔'' (صحیح البخاری:٢٦٣١)
اچھی عادات اور خصائل ایک طرح سے اخلاق حسنہ بھی گردانی جاتی ہیں۔ جبکہ بری عادات و اطوار کو اخلاق سیئہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، شریعت اسلامیہ میں اخلاق حسنہ اور اخلاق سیئہ کا تفصیلی تذکرہ ہے،
جدید فکرو تہذیب کیونکہ خالق و مذہب کی منکر ہے ، اس لیے ان کے ہاں اچھی بری عادات و اطوار کا معیار ہی کچھ اور ہے ، اجر و ثواب اور گناہ و برائی کا تصور ان کا ہاں بلکل نہیں ، تاریخ انسانی میں یہ واحد فکر وتہذیب ہے ، جو کسی طرح کی عمدہ اقدار وروایات اور اخلاق و عادات کو ابدی وآفاقی نہیں ہی مانتی ، بس وہی اچھا ہے جسے لوگ اچھا سمجھیں اور جس میں لوگوں کا ظاہری فائدہ ہو ،
مذہب بیزار جدید فکر والحاد کے دیگر تمام انسانیت سمیت امت مسلمہ پر بھی فکری وعملی گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ، اہل اسلام بھی انفرادی واجتماعی زندگی میں اچھی عادات و اطوار ، اسلامی اخلاق و کردار اور عمدہ اقدار وروایات میں کمزور سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے