- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
رسول اﷲﷺ کی خصوصیات
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
آنحضرت ﷺ کا دشمن پر رعب
رسول اﷲ ﷺ نے رب تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خصوصیات کے بارے میں فرمایا: ''مجھے پانچ ایسی خصوصیات سے نوازا گیا ہے ، جو مجھ سے قبل کسی کو نہیں ملیں۔'' دوسری حدیث میں ہے: ''مجھے چھ چیزوں میں دیگر انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے۔''(صحیح البخاری:٣٣٥ و صحیح مسلم:٥٢١،٥٢٣)
ان دونوں احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چھ چیزیں آپ کی خصوصیات بھی ہیں اور آپ کی فضیلت و عظمت کی دلیل بھی۔ آپ کی انھی خصوصیات میں سے ایک مخالفین پر آپ کا رعب طاری ہونا ہے جس کے بارے میں آپ نے فرمایا:(( نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَۃَ شَہْرٍ )) (صحیح البخاری:٤٣٨ و صحیح مسلم:٥٢١)''مہینہ بھر کی مسافت پر (موجود دشمن پر) میرا رعب طاری ہو جاتا ہے۔''
بعض اوقات دشمن کی ناکامی کی اہم وجہ اس کا خوف زدہ اور مرعوب ہونا ہوتا ہے۔ ﷲ عزوجل نے غزوہ بدر میں دشمن کو مرعوب کرنے کا تذکرہ سورت انفال کی آیت:١٢ میں بھی فرمایا ہے۔
مخالفین پر رعب کا طاری ہونا ﷲ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے۔ یہ مخالفین پر غلبے کا ایک بنیادی عنصر ہے ، جو اﷲ عزوجل نے آپ اور آپ کی امت کو عطا فرمایا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ مہینہ بھر کی مسافت کی قید اس لیے لگائی گئی تھی کیونکہ اس وقت آپ ﷺ کے شہر اور آپ کے دشمنوں کے درمیان اس سے زیادہ مسافت ہی نہیں تھی۔ یہ خصوصیت مطلق طور پر آپ کو حاصل تھی، چاہے آپ اکیلے ہوں یا لشکر کے ہمراہ۔
باقی رہی یہ بات کہ کیا یہ خصوصیت آپ کی امت کو بھی حاصل ہے تو اس کا احتمال ہے۔ اس خصوصیت سے مراد صرف خالی رعب کا طاری ہونا ہی نہیں ، بلکہ رعب کے ساتھ ساتھ دشمن پر حاصل ہونے والی فتح بھی اسی میں شامل ہے۔( ابن حجر، فتح الباری:436/1)
رسول اللہ ﷺ کا دشمن پر رعب ، سیرت طیبہ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے ، آپ کے تمام غزوات و سرایا اسی کا آئینہ دار ہیں ،
سیرت طیبہ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ دشمن نے مدینہ کی اسلامی ریاست پر حملہ کیا ہو، تمام غزوات مدینہ منورہ سے باہر میدان کار زار میں بپا ہوئے ،
معرکہ مؤتہ اور غزوہ تبوک میں وقت کی عالمی طاقت روم کو اس کے گھر جا کر للکارا گیا ، لیکن وہ اہل اسلام کے رعب و دہشت کی وجہ سے قابل ذکر کچھ نہ کر سکے ،
عصر حاضر میں امت مسلمہ اعدائے دین کو خوف زدہ کرنے کے بجائے خود مرعوب اور مبتلائے دہشت ہے، اہل اسلام ہر میدان میں ذلت وپسپائی سے دو چار ہیں،
معرکہ حق وباطل میں اہل اسلام کی ناکامی ونامراری کی بنیادی وجہ ہے: کمزور ایمان وعقیدہ، فکر آخرت کی عدم فکر ، جذبہ جانثاری کا فقدان ، ایمانی غیرت و حمیت کا زوال اور دنیا کی حرص وہوس ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
آنحضرت ﷺ کا دشمن پر رعب
رسول اﷲ ﷺ نے رب تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خصوصیات کے بارے میں فرمایا: ''مجھے پانچ ایسی خصوصیات سے نوازا گیا ہے ، جو مجھ سے قبل کسی کو نہیں ملیں۔'' دوسری حدیث میں ہے: ''مجھے چھ چیزوں میں دیگر انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے۔''(صحیح البخاری:٣٣٥ و صحیح مسلم:٥٢١،٥٢٣)
ان دونوں احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چھ چیزیں آپ کی خصوصیات بھی ہیں اور آپ کی فضیلت و عظمت کی دلیل بھی۔ آپ کی انھی خصوصیات میں سے ایک مخالفین پر آپ کا رعب طاری ہونا ہے جس کے بارے میں آپ نے فرمایا:(( نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیرَۃَ شَہْرٍ )) (صحیح البخاری:٤٣٨ و صحیح مسلم:٥٢١)''مہینہ بھر کی مسافت پر (موجود دشمن پر) میرا رعب طاری ہو جاتا ہے۔''
بعض اوقات دشمن کی ناکامی کی اہم وجہ اس کا خوف زدہ اور مرعوب ہونا ہوتا ہے۔ ﷲ عزوجل نے غزوہ بدر میں دشمن کو مرعوب کرنے کا تذکرہ سورت انفال کی آیت:١٢ میں بھی فرمایا ہے۔
مخالفین پر رعب کا طاری ہونا ﷲ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے۔ یہ مخالفین پر غلبے کا ایک بنیادی عنصر ہے ، جو اﷲ عزوجل نے آپ اور آپ کی امت کو عطا فرمایا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ مہینہ بھر کی مسافت کی قید اس لیے لگائی گئی تھی کیونکہ اس وقت آپ ﷺ کے شہر اور آپ کے دشمنوں کے درمیان اس سے زیادہ مسافت ہی نہیں تھی۔ یہ خصوصیت مطلق طور پر آپ کو حاصل تھی، چاہے آپ اکیلے ہوں یا لشکر کے ہمراہ۔
باقی رہی یہ بات کہ کیا یہ خصوصیت آپ کی امت کو بھی حاصل ہے تو اس کا احتمال ہے۔ اس خصوصیت سے مراد صرف خالی رعب کا طاری ہونا ہی نہیں ، بلکہ رعب کے ساتھ ساتھ دشمن پر حاصل ہونے والی فتح بھی اسی میں شامل ہے۔( ابن حجر، فتح الباری:436/1)
رسول اللہ ﷺ کا دشمن پر رعب ، سیرت طیبہ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے ، آپ کے تمام غزوات و سرایا اسی کا آئینہ دار ہیں ،
سیرت طیبہ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ دشمن نے مدینہ کی اسلامی ریاست پر حملہ کیا ہو، تمام غزوات مدینہ منورہ سے باہر میدان کار زار میں بپا ہوئے ،
معرکہ مؤتہ اور غزوہ تبوک میں وقت کی عالمی طاقت روم کو اس کے گھر جا کر للکارا گیا ، لیکن وہ اہل اسلام کے رعب و دہشت کی وجہ سے قابل ذکر کچھ نہ کر سکے ،
عصر حاضر میں امت مسلمہ اعدائے دین کو خوف زدہ کرنے کے بجائے خود مرعوب اور مبتلائے دہشت ہے، اہل اسلام ہر میدان میں ذلت وپسپائی سے دو چار ہیں،
معرکہ حق وباطل میں اہل اسلام کی ناکامی ونامراری کی بنیادی وجہ ہے: کمزور ایمان وعقیدہ، فکر آخرت کی عدم فکر ، جذبہ جانثاری کا فقدان ، ایمانی غیرت و حمیت کا زوال اور دنیا کی حرص وہوس ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے