- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ( حصہ :دوم)
رسول اللہﷺ کی ذات مبارکہ میں عفو و حلم کی دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ یہاں دونوں کو الگ الگ ذکر کیا جاتا ہے۔ پہلے آپ کی صفت عفو اور پھر صفت حلم کا تذکرہ ہو گا۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کعب بن اشرف یہودی رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرتا تھا اور قریش کو بھی اس جرم پر ابھارتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے ، تب وہاں مختلف عقائد کے حامل لوگ آباد تھے۔ مسلمان بھی تھے اور بت پرست، مشرکین بھی تھے اور یہود ۔ یہ لوگ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کو تکلیف اور دُکھ دیتے تھے۔
ان اعدائے دین کی طرف سے تکلیف وپریشانی پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو صبر کرنے اور درگزر کرنے کا حکم فرمایا۔ اس بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:( وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْۤا اَذًی کَثِیْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo) (اٰل عمران:186/3و سنن أبی داود:٣٠٠٠) ''آپ اُن لوگوں سے جنھیں آپ سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکین سے بہت تکلیف دہ باتیں سنیں گے۔ اگر ان سب حالات میں آپ صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہیں گے تو یہ بڑے ہی حوصلے کا کام ہے۔'
ایک روز حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ کی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ۔ ابن یسار نے ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے نبی کریم ﷺ کی تورات میں بیان کردہ صفات کے بارے میں پوچھا ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ تورات میں آپ کی بعض صفات تو وہی مذکور ہیں جو قرآن میں ہیں، مثلاً: آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر کہا گیا ہے۔ تورات میں آپ کی مزید صفات بھی بیان ہوئی ہیں کہ آپ کو ناخواندہ لوگوں (اُمّیوں) کا محافظ و مدد گار بناکر بھیجا گیا ہے۔ آپ ﷲ کے بندے اور ﷲ کے رسول ہیں۔ اللّٰہ نے آپ کا نام ہی متوکل رکھا ہے۔ آپ نہ تو سخت مزاج ہیں اور نہ ترش رو۔ آپ بازاروں میں اونچی آواز سے بولنے والے بھی نہیں ہیں۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے عفو و درگزر کے متعلق یوں بیان کیا:'' وَلَا یَدْفَعُ السَّیِّئَۃَ بِالسَّیِّئَۃِ وَلٰـکِنْ یَعْفُو وَیَغْفِرُ'' (صحیح البخاری:٢١٢٥ و أحمد بن حنبل، المسند:٦٦٢٢) آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے ، بلکہ آپ عفو و درگزر اور معافی سے کام لیتے ہیں۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے بارے میں بیان کرتی ہیں:''لَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللّٰہِ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِی الْأَسْوَاقِ وَلَا یُجْزِی السَّیِّئَۃَ بِالسَّیِّئَۃِ وَلٰـکِنْ یَعْفُو وَیَصْفَحُ'' (سنن الترمذی:٢٠١٦ و أحمد بن حنبل، المسند:٨٣٥٢) رسول اللہ ﷺ کی گفتگو میں کوئی نامناسب لفظ نہ ہوتا تھا اور نہ ہی عملاً ایسا کوئی شائبہ تھا ، آپ بازاروں میں زور زور سے بھی نہ بولتے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ، بلکہ آپ معاف اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔
رسول کریم ﷺ اپنے عمل وکردار سے معاف اور درگزر کرنے کا مثالی اسوہ پیش فرمایا ، فتح مکہ پر رسول رحمت ﷺ نے تمام اعدائے دین کو نہ صرف ہمیشہ کے لیے معاف فرمایا ، بلکہ ان میں راہ حق اختیار کرنے والوں کو اپنے اصحاب ذی شان کی صف میں شامل فرما، پھر زندگی بھر ان کی اسلام مخالف سابقہ سرگرمیوں کا تذکرہ تک نہیں فرمایا، رسول مقبول ﷺ کے اس عفو و درگزر کی نذیر پیش کرنے سے تمام دنیا قاصر ہے ، کمال درجے کی معافی اور وہ تمام کی قوت وطاقت اور غلبے کے بعد ،
رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو بھی در گزر اور معاف کرنے کا حکم فرمایا ، آپ ہی کا فرمان عالیشان ہے کہ معاف کرنے سے بندہ مومن کی عزت و وقار میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور تواضع و انکساری اختیار کرنے سے رفعت و بلندی نصیب ہوتی ہے ،
معافی اور درگزر کا تعلق تمام افراد معاشرہ سے ہے ، جیسے اپنے اہل خانہ سے در گزر کرنا ، اپنے رشتہ داروں کو معاف کرنا، اپنے تعلق داروں اور اجنبیوں سے در گزر کرنا ، مرد وخواتین اور بچوں و بوڑھوں کی غلطی کو معاف کرنا ، ملازم اور کمزور کی کتاہی پر اسے معاف کرنا ، جس قدر انسان کے اختیار و ذمہ داری کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے ، اسی قدر اس کی صفت عفو و درگزر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ، نہ کہ قوت وطاقت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا ظلم وجور اور عدم معافی بڑھتی جاتی ہے ،
عفو و درگزر کے مثالی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جیسے : اخوت و بھائی چارگی ، ہمدردی و خیرخواہی ، اتحاد و اتفاق ، تعلقات میں خوش گواری اور مضبوطی، خطا کار کو معاف کرنا حکم ربانی ،اسوہ نبوی اور شیوہ مسلمانی ہے ، اس کے افراد و معاشرے کے لیے شاندار نتائج برآمد ہوتے ہیں ، لیکن اہل اسلام کا انفرادی واجتماعی زندگی میں اور معملات میں عفو و درگذر سے تعلق کمزور ہوتا جا رہا ہے اور مصائب و پریشانیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں ،
جدید تہذیب والحاد عفو و درگزر کے اسلامی تصور سے بھی عاری ہے ، عالمی استعماری طاقتیں اسلام پسندوں اور اسلامی ممالک کے خلاف سخت اقدامات کے منصوبے بناتے رہتے ہیں ، نام نہاد دہشت گردی کے نام پر کئی اسلامی ممالک کو تاخت وتاراج کیا گیا ، امن عالم کا راگ الاپنے والے بد قماشوں کا نعرہ ہے کہ دہشت گردوں کو معافی نہیں ، وہ دہشت گرد صرف مسلمان ہیں ، دیگر اقوام و ملل کو سب کچھ معاف ہی نہیں ، بلکہ اخلاقی و مالی اور قانونی و سیاسی طور پر ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے ، یہود و ہنود اہل فسلطین اور اہل کشمیر پر جو مظالم ڈھا رہے ہیں ، تمام دنیا اس سے واقف ہے ، لیکن انہیں سب کچھ معاف ہے اور معاف ہے ، اس کے تمام دنیا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، لیکن امن کے ٹھیکیداروں کو بلکل پرواہ نہیں ، بلکہ وہ اس بھیانک جرم میں خود شریک ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ( حصہ :دوم)
رسول اللہﷺ کی ذات مبارکہ میں عفو و حلم کی دونوں خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ یہاں دونوں کو الگ الگ ذکر کیا جاتا ہے۔ پہلے آپ کی صفت عفو اور پھر صفت حلم کا تذکرہ ہو گا۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کعب بن اشرف یہودی رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرتا تھا اور قریش کو بھی اس جرم پر ابھارتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے ، تب وہاں مختلف عقائد کے حامل لوگ آباد تھے۔ مسلمان بھی تھے اور بت پرست، مشرکین بھی تھے اور یہود ۔ یہ لوگ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کو تکلیف اور دُکھ دیتے تھے۔
ان اعدائے دین کی طرف سے تکلیف وپریشانی پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو صبر کرنے اور درگزر کرنے کا حکم فرمایا۔ اس بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:( وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْۤا اَذًی کَثِیْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِo) (اٰل عمران:186/3و سنن أبی داود:٣٠٠٠) ''آپ اُن لوگوں سے جنھیں آپ سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکین سے بہت تکلیف دہ باتیں سنیں گے۔ اگر ان سب حالات میں آپ صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہیں گے تو یہ بڑے ہی حوصلے کا کام ہے۔'
ایک روز حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ کی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ۔ ابن یسار نے ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے نبی کریم ﷺ کی تورات میں بیان کردہ صفات کے بارے میں پوچھا ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ تورات میں آپ کی بعض صفات تو وہی مذکور ہیں جو قرآن میں ہیں، مثلاً: آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر کہا گیا ہے۔ تورات میں آپ کی مزید صفات بھی بیان ہوئی ہیں کہ آپ کو ناخواندہ لوگوں (اُمّیوں) کا محافظ و مدد گار بناکر بھیجا گیا ہے۔ آپ ﷲ کے بندے اور ﷲ کے رسول ہیں۔ اللّٰہ نے آپ کا نام ہی متوکل رکھا ہے۔ آپ نہ تو سخت مزاج ہیں اور نہ ترش رو۔ آپ بازاروں میں اونچی آواز سے بولنے والے بھی نہیں ہیں۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے عفو و درگزر کے متعلق یوں بیان کیا:'' وَلَا یَدْفَعُ السَّیِّئَۃَ بِالسَّیِّئَۃِ وَلٰـکِنْ یَعْفُو وَیَغْفِرُ'' (صحیح البخاری:٢١٢٥ و أحمد بن حنبل، المسند:٦٦٢٢) آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے ، بلکہ آپ عفو و درگزر اور معافی سے کام لیتے ہیں۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کے بارے میں بیان کرتی ہیں:''لَمْ یَکُنْ رَسُولُ اللّٰہِ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِی الْأَسْوَاقِ وَلَا یُجْزِی السَّیِّئَۃَ بِالسَّیِّئَۃِ وَلٰـکِنْ یَعْفُو وَیَصْفَحُ'' (سنن الترمذی:٢٠١٦ و أحمد بن حنبل، المسند:٨٣٥٢) رسول اللہ ﷺ کی گفتگو میں کوئی نامناسب لفظ نہ ہوتا تھا اور نہ ہی عملاً ایسا کوئی شائبہ تھا ، آپ بازاروں میں زور زور سے بھی نہ بولتے اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ، بلکہ آپ معاف اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔
رسول کریم ﷺ اپنے عمل وکردار سے معاف اور درگزر کرنے کا مثالی اسوہ پیش فرمایا ، فتح مکہ پر رسول رحمت ﷺ نے تمام اعدائے دین کو نہ صرف ہمیشہ کے لیے معاف فرمایا ، بلکہ ان میں راہ حق اختیار کرنے والوں کو اپنے اصحاب ذی شان کی صف میں شامل فرما، پھر زندگی بھر ان کی اسلام مخالف سابقہ سرگرمیوں کا تذکرہ تک نہیں فرمایا، رسول مقبول ﷺ کے اس عفو و درگزر کی نذیر پیش کرنے سے تمام دنیا قاصر ہے ، کمال درجے کی معافی اور وہ تمام کی قوت وطاقت اور غلبے کے بعد ،
رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو بھی در گزر اور معاف کرنے کا حکم فرمایا ، آپ ہی کا فرمان عالیشان ہے کہ معاف کرنے سے بندہ مومن کی عزت و وقار میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور تواضع و انکساری اختیار کرنے سے رفعت و بلندی نصیب ہوتی ہے ،
معافی اور درگزر کا تعلق تمام افراد معاشرہ سے ہے ، جیسے اپنے اہل خانہ سے در گزر کرنا ، اپنے رشتہ داروں کو معاف کرنا، اپنے تعلق داروں اور اجنبیوں سے در گزر کرنا ، مرد وخواتین اور بچوں و بوڑھوں کی غلطی کو معاف کرنا ، ملازم اور کمزور کی کتاہی پر اسے معاف کرنا ، جس قدر انسان کے اختیار و ذمہ داری کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے ، اسی قدر اس کی صفت عفو و درگزر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ، نہ کہ قوت وطاقت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا ظلم وجور اور عدم معافی بڑھتی جاتی ہے ،
عفو و درگزر کے مثالی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جیسے : اخوت و بھائی چارگی ، ہمدردی و خیرخواہی ، اتحاد و اتفاق ، تعلقات میں خوش گواری اور مضبوطی، خطا کار کو معاف کرنا حکم ربانی ،اسوہ نبوی اور شیوہ مسلمانی ہے ، اس کے افراد و معاشرے کے لیے شاندار نتائج برآمد ہوتے ہیں ، لیکن اہل اسلام کا انفرادی واجتماعی زندگی میں اور معملات میں عفو و درگذر سے تعلق کمزور ہوتا جا رہا ہے اور مصائب و پریشانیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں ،
جدید تہذیب والحاد عفو و درگزر کے اسلامی تصور سے بھی عاری ہے ، عالمی استعماری طاقتیں اسلام پسندوں اور اسلامی ممالک کے خلاف سخت اقدامات کے منصوبے بناتے رہتے ہیں ، نام نہاد دہشت گردی کے نام پر کئی اسلامی ممالک کو تاخت وتاراج کیا گیا ، امن عالم کا راگ الاپنے والے بد قماشوں کا نعرہ ہے کہ دہشت گردوں کو معافی نہیں ، وہ دہشت گرد صرف مسلمان ہیں ، دیگر اقوام و ملل کو سب کچھ معاف ہی نہیں ، بلکہ اخلاقی و مالی اور قانونی و سیاسی طور پر ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے ، یہود و ہنود اہل فسلطین اور اہل کشمیر پر جو مظالم ڈھا رہے ہیں ، تمام دنیا اس سے واقف ہے ، لیکن انہیں سب کچھ معاف ہے اور معاف ہے ، اس کے تمام دنیا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، لیکن امن کے ٹھیکیداروں کو بلکل پرواہ نہیں ، بلکہ وہ اس بھیانک جرم میں خود شریک ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے