- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہﷺ کے خصائص وامتیازات ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرنے کا خاص اندازِربانی
ﷲ تعالیٰ نے جس قدر توقیر و عظمت سے نبی کریم ﷺ کو سرفراز کیا، کسی اور پیغمبر کو وہ حاصل نہیں ہوئی۔ آپ کو کئی ایک اعتبار سے دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر فوقیت وفضیلت حاصل ہے،
سرور کونین ﷺ کے مقام و احترام کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کو خاص نام محمد یا احمد کے بجائے، آپ کی صفتِ رسالت یا دیگر القاب سے مخاطب کیا گیا ہے۔ حالانکہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کے حوالے سے اس طرح نہیں ہے،
رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دیگر انبیاء و رسل کو مخاطب کرتے ہوئے ﷲ تعالیٰ نے ان کے نام سے مخاطب کیا ہے، قرآن کریم میں متعدد ایک انبیائے کرام علیہم السلام کے حوالے سے اس حقیقت کا تذکرہ ملتا ہے،
جیسے حضرت ابراہیم، حضرت نوح، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کو ان کے نام سے مخاطب کیا گیا، قرآن کریم میں انہیں اس انداز سے مخاطب کیا گیا ہے: یاابراھیم ، یا نوح ، یا موسی ، یا عیسی علیھم السلام
لیکن امام الانبیاء ہادی عالم ﷺ کو خطاب کیا گیا تو ''یٰۤاَیُّھَا الرَّسُوْلُ، یٰۤاَیُّھَا النَّبِیُّ، یٰۤاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ، یٰۤاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ'' جیسے القابات سے۔ اس انداز تخاطب میں آپ ﷺ کی شان و عظمت اور رفعت و فضیلت کا اظہار ہے،
قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کا اسم مبارک ''محمد'' چار بار اور ''احمد'' ایک بار مذکور ہے۔ ان مقامات میں تخاطب نہیں ہے۔ بلکہ ایک تو آپ کے ان ناموں کے تذکرے سے مقصود نوع انسانی کو آپ کے ناموں کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔
دوسرا پہلو اس میں یہ ہے کہ ان پانچ مقامات میں سے سورت محمد کے سوا باقی چار مقامات پر آپ کے نام کے ساتھ آپ کے عظیم وصف ''رسالت'' کا تذکرہ ہے، خالی نام ہی ذکر نہیں کیا گیا۔
یہ ندرت اور یگانہ انداز بھی آپ کی عظمت و شان پر دلالت کرتا ہے ،اس سے بتلانا مقصود ہے کہ آپ کو جو بھی فضیلت وشان نصیب ہوئی ، وہ صرف آپ کے محمد واحمد نام کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کا حقیقی اور اصل سبب رب العزت کا آپ کو عطا کردہ منصبِ نبوت ورسالت ہے ،
رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں ایک وفد مدینہ منورہ آیا ، آپ اپنے حجرہ مبارک میں تشریف فرما تھے ، وہ لوگ انتظار کرنے کے بجائے باہر سے آپ کو آوازیں دینے لگے ، کہتے ہیں : اے محمد! باہر آ کر ہماری بات سنیں ، اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب ﷺ کو تخاطب کرنے کا ان کا یہ انداز پسند نہ آیا ،
یہ لوگ پہلی دفعہ آپ کی خدمت میں قبول اسلام کی غرض سے آئے تھے ، رب العزت نے ان کی اصلاح کے متعلق قرآن نازل فرمایا، اپنے حبیب ﷺ کو مخاطب کرنے کے آداب تعلیم فرمائے، سورت حجرات میں اس کا تذکرہ ہے،
بعض ناداں مسلمانوں کی حالت قابلِ رحم ہے ، وہ اب بھی رسول مکرم ﷺ کے لیے وہی انداز تخاطب اختیار کرتے ہیں ، جس سے رب تعالیٰ نے منع فرمایا تھا ،جیسے : یامحمد ، یا محمد ، مزید یہ کہ یہ انداز تخاطب رسول اللہ ﷺ کے متعلق ایک خاص نظرے کی بنیاد پر اختیار کیا جاتا ہے، جو کہ ربانی ہدایات اور نبوی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے،
رسول اکرم ﷺ کی عزت و احترام اور آپ سے محبت وعقیدت کے اظہار کے لیے وہی انداز اختیار کرنا ضروری ہے ، جو رب العالمین نے اور حبیب کبریا ﷺ نے تعلیم فرمایا ہے ، اسی میں حقیقی کامیابی ہے ، یہی شیوہ مسلمانی اور حکم ربانی ہے ، مسلمانوں میں فکری وعملی بے راہ روی کی وجہ کمزور ایمان وعقیدہ اور جدید تہذیب والحاد کی اثر پذیری ہے ،
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرنے کا خاص اندازِربانی
ﷲ تعالیٰ نے جس قدر توقیر و عظمت سے نبی کریم ﷺ کو سرفراز کیا، کسی اور پیغمبر کو وہ حاصل نہیں ہوئی۔ آپ کو کئی ایک اعتبار سے دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر فوقیت وفضیلت حاصل ہے،
سرور کونین ﷺ کے مقام و احترام کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کو خاص نام محمد یا احمد کے بجائے، آپ کی صفتِ رسالت یا دیگر القاب سے مخاطب کیا گیا ہے۔ حالانکہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کے حوالے سے اس طرح نہیں ہے،
رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دیگر انبیاء و رسل کو مخاطب کرتے ہوئے ﷲ تعالیٰ نے ان کے نام سے مخاطب کیا ہے، قرآن کریم میں متعدد ایک انبیائے کرام علیہم السلام کے حوالے سے اس حقیقت کا تذکرہ ملتا ہے،
جیسے حضرت ابراہیم، حضرت نوح، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کو ان کے نام سے مخاطب کیا گیا، قرآن کریم میں انہیں اس انداز سے مخاطب کیا گیا ہے: یاابراھیم ، یا نوح ، یا موسی ، یا عیسی علیھم السلام
لیکن امام الانبیاء ہادی عالم ﷺ کو خطاب کیا گیا تو ''یٰۤاَیُّھَا الرَّسُوْلُ، یٰۤاَیُّھَا النَّبِیُّ، یٰۤاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ، یٰۤاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ'' جیسے القابات سے۔ اس انداز تخاطب میں آپ ﷺ کی شان و عظمت اور رفعت و فضیلت کا اظہار ہے،
قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کا اسم مبارک ''محمد'' چار بار اور ''احمد'' ایک بار مذکور ہے۔ ان مقامات میں تخاطب نہیں ہے۔ بلکہ ایک تو آپ کے ان ناموں کے تذکرے سے مقصود نوع انسانی کو آپ کے ناموں کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔
دوسرا پہلو اس میں یہ ہے کہ ان پانچ مقامات میں سے سورت محمد کے سوا باقی چار مقامات پر آپ کے نام کے ساتھ آپ کے عظیم وصف ''رسالت'' کا تذکرہ ہے، خالی نام ہی ذکر نہیں کیا گیا۔
یہ ندرت اور یگانہ انداز بھی آپ کی عظمت و شان پر دلالت کرتا ہے ،اس سے بتلانا مقصود ہے کہ آپ کو جو بھی فضیلت وشان نصیب ہوئی ، وہ صرف آپ کے محمد واحمد نام کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کا حقیقی اور اصل سبب رب العزت کا آپ کو عطا کردہ منصبِ نبوت ورسالت ہے ،
رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں ایک وفد مدینہ منورہ آیا ، آپ اپنے حجرہ مبارک میں تشریف فرما تھے ، وہ لوگ انتظار کرنے کے بجائے باہر سے آپ کو آوازیں دینے لگے ، کہتے ہیں : اے محمد! باہر آ کر ہماری بات سنیں ، اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب ﷺ کو تخاطب کرنے کا ان کا یہ انداز پسند نہ آیا ،
یہ لوگ پہلی دفعہ آپ کی خدمت میں قبول اسلام کی غرض سے آئے تھے ، رب العزت نے ان کی اصلاح کے متعلق قرآن نازل فرمایا، اپنے حبیب ﷺ کو مخاطب کرنے کے آداب تعلیم فرمائے، سورت حجرات میں اس کا تذکرہ ہے،
بعض ناداں مسلمانوں کی حالت قابلِ رحم ہے ، وہ اب بھی رسول مکرم ﷺ کے لیے وہی انداز تخاطب اختیار کرتے ہیں ، جس سے رب تعالیٰ نے منع فرمایا تھا ،جیسے : یامحمد ، یا محمد ، مزید یہ کہ یہ انداز تخاطب رسول اللہ ﷺ کے متعلق ایک خاص نظرے کی بنیاد پر اختیار کیا جاتا ہے، جو کہ ربانی ہدایات اور نبوی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے،
رسول اکرم ﷺ کی عزت و احترام اور آپ سے محبت وعقیدت کے اظہار کے لیے وہی انداز اختیار کرنا ضروری ہے ، جو رب العالمین نے اور حبیب کبریا ﷺ نے تعلیم فرمایا ہے ، اسی میں حقیقی کامیابی ہے ، یہی شیوہ مسلمانی اور حکم ربانی ہے ، مسلمانوں میں فکری وعملی بے راہ روی کی وجہ کمزور ایمان وعقیدہ اور جدید تہذیب والحاد کی اثر پذیری ہے ،