• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:22)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، ))(حصہ سوم :نبوی حلم و بردباری)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، (حصہ سوم :نبوی حلم و بردباری)

♻ حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ عنہ یہودی عالم تھے ۔ انھیں رسول اللہ ﷺ کی تورات میں بیان کردہ علامات سے مکمل واقفیت تھی ۔ مسلمان ہونے سے قبل یہ کئی ایک علامات کا مشاہدہ کر چکے تھے۔ یہ اب صرف آپ کے حلم و بردباری کے بارے میں جاننا چاہتے تھے، اس کے لیے انھوں نے ایک طریقہ اختیار کیا ۔

♻ ہوا یوں کہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں دور دراز سے ایک دیہاتی آیا۔ اس نے آپ کو بتایا کہ میری قوم اس وجہ سے مسلمان ہوئی تھی کہ میں نے انھیں بتایا تھا: اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو محمد ﷺ تمھیں مال و متاع سے نوازیں گے ۔ اب وہ لوگ قحط سالی میں مبتلا ہیں ۔ اگر انھیں کچھ نہ دیا گیا تو ان کے مرتد ہونے کا خدشہ ہے ، لہٰذا آپ مجھے کچھ غلہ عنایت کر دیں تاکہ میں انھیں دے دوں۔

♻ رسول مقبول ﷺ کے پاس کچھ نہ تھا ۔ تب زید بن سعنہ آپ کے قریب کھڑے تھے، جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ دیہاتی کے کہنے پر رسول اللہ ﷺ نے انھی سے ادھار کھجوریں لے کر اس دیہاتی کو دے دیں ، جو اس نے جاکر اپنی قوم میں تقسیم کر دیں۔ ایک روز زید بن سعنہ مقررہ مدت سے پہلے ہی نبی مکرم ﷺ سے رقم کی وصولی کے لیے حاضر ہوئے اور آپ کو کپڑے سے پکڑ لیا ۔ آپ کی طرف غصے سے دیکھا اور بولے : اے محمد ! آپ مجھے میرا مال کیوں نہیں دیتے؟ اللہ کی قسم ! بنو عبد المطلب کی یہی روش ہے۔ یہ ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں۔ چیز وقت پر واپس نہیں کرتے۔ مجھے آپ کے بارے میں پہلے سے سب کچھ معلوم ہے۔

♻ زید بن سعنہ کی اس حرکت پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدید غصے میں آ گئے ۔ انھیں سختی سے ڈانٹا اور دھمکی بھی دی کہ رسول اللہ ﷺ سے تمھارا یہ کیسا رویہ ہے؟ اللہ کی قسم ! مجھے اجازت ملے تو میں تمھارا سر تن سے جدا کر دوں۔ رسول اللہ ﷺ پاس کھڑے بڑے اطمینان سے مسکرائے جا رہے تھے ۔ آپ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ سے فرمایا: ''اس سے بہتر تھا کہ تم مجھے حسنِ ادائیگی کا اور اسے حسنِ مطالبہ کا کہتے ۔ اے عمر! اب جاکر اسے اس کا حق دو اور جو تم نے اسے دھمکایا ہے، اس کی وجہ سے بیس صاع (٥٠ کلو) کھجوریں اضافی بھی دینا۔''

♻ زید بن سعنہ رضی اللّٰہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے حسن اخلاق اور حلم و بردباری کا مشاہدہ کیا تو اسی وقت مسلمان ہو گئے ۔ اپنے اس نامناسب رویے کی وجہ بتائی۔ بولے کہ یہ سب کچھ میں نے آپ کے حلم و بردباری جاننے کے لیے کیا تھا ، جبکہ دیگر علامات کا مشاہدہ میں پہلے کر چکا تھا ۔ میں نے سچے نبی کی علامات میں پڑھا تھا: '' یَسْبِقُ حِلْمُہُ جَھْلَہ، وَلَا یَزِیْدُ شِدَّۃُ الْجَھْلِ عَلَیْہِ إِلاَّحِلْمًا '' (ابن حبان، الصحیح:٢٨٨والحاکم،المستدرک:٦٦٠٦)
اُن کا حلم ان کی ترش رُوئی پر غالب ہو گا ۔ جیسے جیسے کوئی ان سے رویے میں شدت لائے گا، ان کا حلم بڑھتا ہی چلا جائے گا۔

♻ فتح مکہ کے موقع پر حویطب بن عبدالعزیٰ خوف کی وجہ سے کسی باغ میں چھپ گئے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ کسی غرض سے باغ میں گئے تو انھیں دیکھ کر حویطب بھاگ اُٹھے ۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ نے انھیں روکا۔ بھاگنے کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتا دی ۔ حضرت ابوذر رضی اللّٰہ عنہ نے انھیں سمجھایا ، گھر واپس لائے، قبولِ اسلام کی دعوت دی اور انھیں رسول اللہ ﷺ کے حلم و درگزر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا: ''أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَرَسُولُ اللّٰہِ أَبَرُّالنَّاسِ وَأَوْصَلُ النَّاسِ وَأَحْلَمُ النَّاسِ، شَرَفُہ، شَرَفُکَ وَعِزُّہ، عِزُّکَ''اسلام لے آؤ، سلامتی سے جیو گے۔

♻ رسول اللہ ﷺ تو تمام لوگوں سے بڑھ کر حسن سلوک کرنے والے ہیں ، سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ آپ تو دیگر لوگوں سے کہیں بڑھ کر حلیم ہیں۔ ان کا شرف تمھارا شرف ہے اور ان کی عزت تمھاری عزت ہے۔

♻ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی یہ باتیں سن کر حضرت حویطب رضی اللّٰہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ، آپ کو اسلامی طریقے سے سلام کیا اور حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہوئے اعلان کیا: '' أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ '' (الحاکم ، المستدرک :٦١٣٧ ) میں گواہی دیتا ہوں کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ ﷲ کے رسول ہیں۔

♻ فتح مکہ ہی کے موقع پر حضرت صفوان بن امیہ بھی مسلمانوں کے خوف سے بھاگ گئے۔ حضرت عمیر بن وہب رضی اللّٰہ عنہ کو ان کے بارے میں معلوم ہوا تو ان کی امان کے لیے رسول ﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ نے امان دی اور بطور علامت اپنا عمامہ مبارک بھی دیا۔ حضرت عمیر امان اور آپ کا عمامہ مبارک لے کر انھیں تلاش کرنے نکلے ۔ ساحل سمندر پر پہنچے، دیکھا تو صفوان وہاں موجود تھے۔ قریب تھا کہ وہ سمندر میں کود پڑتے۔

♻ حضرت عمیر رضی اللّٰہ عنہ نے انھیں سمجھایا اور تمام صورتحال سے آگاہ کیا ۔ بتایا کہ میں نے تمھارے لیے رسول اللہ ﷺ سے امان لی ہے ۔ اب تمھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا، اس لیے میرے ساتھ واپس چلو۔ انھیں ثبوت کے طور پر رسول اللہ ﷺ کا عمامہ مبارک بھی دکھایا اور ان کا خوف دور کرنے کے لیے آپ کے حسن اخلاق کا ذکر کیا۔ اس موقع پر عمیر نے آپ کے یہ اوصاف بیان کیے: '' أَفْضَلُ النَّاسِ وأَبَرُّ النَّاسِ وَأَحْلَمُ النَّاسِ وَخَیْرُ النَّاسِ ''( ابن ہشام، السیرۃ النبویہ:418/2 و ابن کثیر، السیرۃ النبویہ:584/3) رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے افضل ہیں اور ساری انسانیت سے بڑھ کر حسن سلوک کے مالک ہیں۔ آپ تمام لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں اور بہترین بھی۔

♻ مذہب بیزار جدید تہذیب والحاد تمام معاملات زندگی کے حوالے سے منفی جذبات واحساسات پر مبنی ہے ، انفاق وصدقات کے بجائے کثرت مال ودولت ، اخوت و بھائی چارگی کے بجائے حسد وبعض ، ہمدردی و خیرخواہی کے بجائے عداوت و نفرت ، عفو و درگزر کے بجائے انتقام وحقوق کی جنگ ، تحمل و بردباری کے بجائے اشتیال انگیزی اور کینہ پروری ، یہ تمام امور مغربی فکر وتہذیب کا حصہ ہیں ، اہل اسلام کے کمزور ایمان وعقیدہ اور جدید تہذیب سے متاثر ہونے کی وجہ سے ، منفی جذبات و رویے ان میں بھی پروان چڑھنے لگے ہیں

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top