• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:24)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، ))( حصہ پنجم:عہد مکی اور نبوی عفو و حلم )

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، (( حصہ پنجم:عہد مکی اور نبوی عفو و حلم ))


♻ رسول اللہ ﷺ کا مکی دور ١٣ برس پر محیط ہے ، جو انتہائی کٹھن حالات سے عبارت ہے۔ اس میں اللہ عزوجل نے اپنے حبیب کو عفو و حلم کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:(خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَo) ( الاعراف:199/7) ''اے نبی! آپ عفو و درگزر کا طریقہ اختیار کریں، معروف کی تلقین کرتے رہیں اور جاہلوں سے نہ الجھیں۔''

♻ یہ سورت اعراف کی آیت مبارکہ ہے اور سورت اعراف مکی ہے۔ اسی طرح سورت نساء اگرچہ مدنی ہے ، لیکن اس میں بھی اہل ایمان کی مکی دور کی حالت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے: ہاتھ روکے رکھنا، نماز قائم کرنا اور زکاۃ ادا کرنا۔(النساء:77/4)

♻ ان دونوں آیات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب کو مکی دور میں عفو و حلم اور صبر و تحمل کا درس دیا گیا تھا ۔ یہ اس دور کا تقاضا تھا اور مسلمانوں کی کمزور حالت بھی اسی کی متقاضی تھی۔ مکی دور میں نبی اکرم ﷺ نے کمال عفو و حلم کا مظاہرہ کیا۔ ان کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھائے ، بلکہ صرف ﷲ کے فیصلے سے انھیں آگاہ کیا ،

♻ رسول اللہﷺ نے اہل مکہ کو پیغام ربانی سے روشناس فرمایا ، مشرکین مکہ کی طرف سے انسانیت سوز ظلم و ستم طویل داستان رقم کی ۔ تب اخلاقی طور پر اور عرب دستور کے مطابق ردّ عمل کا مظاہرہ کیا جاسکتا تھا ، لیکن آپ نے کسی صورت بھی عفو و حلم کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اور کچھ نہ سہی ان کے خلاف دستِ دعا تو اٹھا سکتے تھے ،

♻ حتیٰ کہ پہاڑوں کے فرشتے نے آ کر عرض بھی کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں۔ لیکن پیکر عفو و حلم نے ایسے حالات میں بھی تحمل و بردباری سے کام لیا اور امید کے دیپ جلائے رکھے۔

♻ ایک موقع پر ایسا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے سرداران قریش سے تنگ آکر انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:(( تَسْمَعُونَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ، أَمَا وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَقَدْ جِئْتُکُمْ بِالذَّبْحِ)) (أحمد بن حنبل، المسند:٧٠٣٦وابن حبان، الصحیح:٦٥٦٧) ''اے جماعتِ قریش! دھیان سے سنو! مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے ! میں تمھیں تہ تیغ ہونے کی اطلاع دے رہا ہوں۔''

♻ پھر غزوہ بدر میں یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور متعدد قریشی سردار اور درجنوں دیگر کفار مارے گئے۔ اس نبوی پیش گوئی میں ایک طرح سے ان کی خیر خواہی تھی کہ انھیں مستقبل میں قتل و رسوائی کی پیشگی اطلاع دے دی گئی، تاکہ اگر وہ ایمان لا کر اُس ذلت و رسوائی سے بچنا چاہیں تو بچ سکیں۔ لیکن انھوں نے اپنی بری روش پر قائم رہنا ہی پسند کیا اور آخر حالتِ کفر میں ہی ان کی ہلاکت ہوئی۔

♻ تلاشِ بسیار کے بعد مکی دور میں صرف ایک مثال ایسی ملتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے کفار و مشرکین کے ظلم وستم سے تنگ آکر ان کے خلاف ہاتھ اٹھائے ہوں، لیکن حقیقت میں یہاں بھی وجہ آپ کی اپنی ذات نہ تھی بلکہ ذات الٰہی تھی۔ آپ تو اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام بھی نہ لیا کرتے تھے،

♻ وہ ایک مثال یہ ہے ، ہوا یوں کہ ان دشمنان دین نے بیت ﷲ میں آپ کے سجدہ ریز ہونے کی حالت میں آپ کی پیٹھ مبارک پر اونٹنی کی جھلی لا رکھی۔ اس طرح ان منکرین حق نے صرف آپ ہی کی اہانت نہیں کی ، بلکہ رب کعبہ کی غیرت کو بھی للکارا اور بیت ﷲ کی بے حرمتی کی ۔ ان متعدد جرائم کی بنا پر آپ نے ان ظالموں کے نام لے کر ان پر عذاب الٰہی کے نزول کی دعا کی۔ (صحیح البخاری:٥٢٠و صحیح مسلم:١٧٩٤)

♻ اس میں بھی ایک طرح سے آپ کے عفو و حلم کا پہلو تھا۔ آپ نے صرف کفار کے سرغنوں کے لیے بد دعا کی، تمام مخالفین کے لیے نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بڑے بڑے منکرین کے راستے سے ہٹنے سے ماتحت اور کمزور لوگوں کو اسلام کے قریب آنے کا موقع ملنا تھا۔

♻ اس طرح زیادہ امکان تھا کہ زندہ رہنے والے مشرکین اسلام کی حقانیت کوجان کر اور اہل اسلام کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں۔ اس کا عملی مشاہدہ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کی کثرت سے کیا جا سکتا ہے۔

♻ مکی دور میں مشرکین کی ظالمانہ کارروائیوں میں سے چند یہ ہیں: ابو جہل کا آپ کی مبارک گردن روند ڈالنے کا مذموم منصوبہ بنانا۔ آپ کی گردن مبارک میں کپڑا ڈال کر آپ کو تکلیف والم سے دوچار کرنا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مکہ کی جھلسا دینے والی گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں پتھریلی زمین پر لٹا کر اوپر بھاری بھرکم پتھر رکھ دینا۔

♻ دشمنان اسلام کا آل یاسر کو ظلم و ستم کی چکی میں پیسنا، حتیٰ کہ آپ کو شہید کرنے کے ناپاک منصوبے بنانا۔ ایسے بہت سے مواقع پر آپ حلم و عفو کے پیکر اور ہر پہلو سے اسوہ کامل دکھائی دیتے ہیں۔ آپ نے نہ کسی سے انتقام لیا، نہ کسی پر ہاتھ اُٹھایا اور نہ کسی کے خلاف بددعا فرمائی۔

♻ رسول کریم ﷺ نے اور آپ کے ماننے والوں نے عہد مکی میں کثیر مظالم برداشت کیے ، مکہ میں کف ید ، عدم تعرض، صبر و برداشت، عفو و درگزر ، تحمل و بردباری اور مشرکین سے اعراض کی پولیسی اختیار کی گئی ، اس کے کئی ایک دعوتی و تربیتی اور تعلیمی و تبلیغی اہداف و مقاصد تھے ، مخالفیں کے ردعمل میں اشتعال وانتقام ، عدم برداشت اور عفو و درگزر نہ ہونے کی وجہ سے اہل اسلام پر مظالم میں مزید اضافہ ہونا تھا ، بلکہ مسلمانوں کی افرادی قوت وطاقت کو بلکل بھی کچلا جا سکتا ہے ، لیکن پیغمبر اسلام ﷺ کی مثالی حکمت و تدابیر کے باعث اعدائے دین کو ایسا موقع ہی نہ مل سکا ،

♻ عصر حاضر میں داعیان دین ، مربیان امت اور مصلحین قوم وملت کی دعوت وتربیت میں ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ عدم برداشت ، عدم تحمل و بردباری اور عفو و درگزر کا نہ ہونا بھی ہے ، وہ داعیان دین بھی دعوتی مصائب و مشکلات کے عذر بہانے کرتے نظر آتے ہیں ، جنہیں دعوت دین کی خاطر کبھی کسی نے چنا بھی نہ مارا ہو ، اسی بے صبری ، عدم برداشت اور نبوی منہج دعوت واصلاح سے عدم واقفیت کی وجہ سے کئی مشن کو نقصان پہنچتا ہے ، بعض کمزور ایمان تو دعوتی مشن سے بلکل الگ ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے طرح طرح کے عذر بہانے بیان کرتے ہیں ، دعوت دین اور مسجد ومدرسہ کے بجائے ذاتی کاروبار اور سرکاری نوکری کو ترجیح دینا اس کی عملی گواہی ہے ،

♻ جدید تہذیب والحاد کیونکہ ذاتی مفاد ، مادی ترقی ، انانیت وخود غرضی اور مذہب بیزاری پر مبنی ہے ، اسی لیے اس فکر وتہذیب کے حامل ترقی یافتہ ممالک میں بھی اسلامی پسماندہ ممالک سے کہیں زیادہ جرائم انجام دیے جاتے ہیں ، قتل وغارت گری،لوٹ گھسوٹ ، جنسی زیادتی وتشدد ، خاندانی نظام کی تباہی ، باہمی نصرت و حمایت کا فقدان اور دیگر کئی ایک جرائم ، ان امور میں مغربی ممالک اسلامی ممالک سے کہیں آگے ہیں ، اس کا جائزہ ان کی اپنی مرتب کردہ رپورٹوں سے لگایا جا سکتا ہے ، اس کی وجہ مذہب وخالق کا انکار ، عدم برداشت اور عفو و درگزر کا عام طور پر فقدان ہے ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے،
 
Top