• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:25)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد )) ( حصہ ششم : عہد مدنی اور نبوی عفو و حلم )

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (( حصہ ششم : عہد مدنی اور نبوی عفو و حلم ))


♻ رسول کریم ﷺ کا مدنی دور تقریباً دس سال پر مشتمل ہے ۔ اس کا لمحہ لمحہ آپ کے کمال عفو و حلم کی گواہی دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ قوت وطاقت ملنے کے بعد آپ تحمل و برداشت میں کمی آئی ہے، بلکہ اخیتار واسباب بڑھنے کے ساتھ ساتھ عفو و درگزر کا دامنِ نبوی وسیع سے وسیع ہوتا گیا ،

♻ واقعہ بدر ہی لے لیں ۔ اس میں کفار کے ٧٠ لوگ قیدی بنے ، تو آپ نے عفو و حلم کی اعلیٰ مثال رقم کی ۔ عرصہ دراز سے ظلم کرنے والوں کو قتل کرنے کے بجائے فدیے کے عوض رہائی سے نواز دیا ۔ مزید سہولت یہ دی کہ جو فدیہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا، اس کے ذمے مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھانا لگا دیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جنھیں ویسے ہی آزاد کر دیا گیا۔

♻ مدنی دور میں آپ ﷺ کے عفو و حلم کا عظیم ترین نمونہ فتح مکہ ہے ۔ اس موقع پر آپ نے ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں کو بھی جانی و مالی نقصان سے بچانے کے لیے ہر طرح کی تدبیر اختیار کی ۔ مکہ جانے کی خبر کو چھپا کر رکھا، اس رازداری کی اللہ سے دعا بھی کی ۔ مکہ کے قریب پہنچ کر رات کو آگ کے کثیر الاؤ روشن کرنے کا حکم دیا تاکہ اہل مکہ پر دہشت طاری ہو اور مدمقابل آنے سے گریزاں رہیں اور اس طرح جانی نقصان سے بچ جائیں۔

♻ اسی طرح مکہ میں داخل ہونے سے پہلے پروانہ امن عطا کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کرا دیا کہ کعبہ میں داخل ہونے والا محفوظ رہے گا، اپنا دروازہ بند کرنے والا مامون رہے گا، ابوسفیان کی حویلی میں داخل ہونے والے کو بھی امن حاصل رہے گا ۔ اس پر مستزاد یہ کہ فتح مکہ کے بعد تمام کے تمام دشمنان دین کو معاف کر دیا اور فرمایا: ''آج تمھارا کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، تم سب کے سب بری ہو۔''

♻ سردار قریش ابوسفیان اور ان کی بیوی ہندہ کو معاف کر دیا ، صفوان بن امیہ کو امان عنایت کی ، اسلام کے شدید دشمن ابو جہل کے بیٹے عکرمہ بن ابی جہل کا اسلام قبول فرمایا اور اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی سے بھی بالکل تعرض نہ فرمایا۔ ایسے کئی ایک افراد کو معاف کر دیا گیا ، جن کا پہلے نام لے کر قتل کیے جانے کا حکم فرمایا گیا تھا ، اس علانیہ کی وجہ ان کے سنگین جرائم تھے ،

♻ یہ تمام واقعات کتب سیرت میں فتح مکہ کے ضمن میں تفصیل سے مذکور ہیں ۔ تاریخ انسانی آج تک رسول رحمت ﷺ جیسے عفو و حلم کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے اور رہے گی۔ منکرین اسلام اور دشمنان دین بھی رسول رحمت ﷺ کی عجز و انکساری ، تواضع و درگزر اور عفو و حلم کے معترف ہیں، لیکن اس کے باوجود عصبیت وعداوت کی بنا پر آپ کی ذات گرامی اور آپ کی تعلیمات کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے ،

♻ داعی اور قائد کے عفو و حلم اور تحمل و بردباری کے دعوت پر گہرے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، شریکِ مشن رفقائے کے ہاں ادب واحترام میں اضافہ ہوتا ہے ، تنظیم واتحاد مضبوط ہوتا ہے ، دعوت واصلاح کے مشن کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے ، اخوت و بھائی چارگی کا رشتہ مستحکم ہوتا ہے ، سب سے بڑھ کر یہ کہ بندہ مومن رب العزت کی رضا مندی اور اجر عظیم کا حقدار قرار پاتا ہے ، جو کہ اصل مقصد حیات اور مطلوب ربانی ہے ،

♻ سرور کونین ﷺ نے عہد مدنی میں تمام طرح کی قوت وطاقت ، سیاسی غلبے اور حکومت و اقتدار کے باوجود مثالی عفو و حلم اور ضبط و درگزر کا اسوہ پیش فرمایا ، اپنے سے بھی اور اپنے مخالفین سے بھی ، لیکن کفار ومشرکین اور اعدائے دین کی مکمل تاریخ اس کے برعکس ہے ، کتنی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ منکرین حق کو اہل اسلام پر غلبہ حاصل ہوا ہو اور انہوں نے مسلمانوں پر رحم وکرم کیا ، تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا ہو اور اہل اسلام کو زندہ رہنے کا حق بھی دیا ہو ،

♻ صلیبی جنگوں میں ، بوسنیا ،لیبا ، الجزائر ، شام و عراق ، کشمیر ، فلسطین ، افغانستان ، روہنگیا مسلمان ، ان اہل اسلام پر ایسا ظلم وستم ، دہشت ناک اور انسانیت سوز سلوک کیا گیا کہ حقوق انسانی کا راگ الاپنے والے حیوانوں اور درندوں کو بھی پیچھے چھوڑ گے ، اہل اسلام سے عفو وحلم اور کفر وشرک دومتضاد چیزیں ہیں،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top