- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، (حصہ ہفتم:اہل نفاق ، نادان اور جاہل سے عفو وحلم)
رسول کریم ﷺ کی مکمل زندگی عفو و حلم سے تعبیر ہے۔ ہر موقع پر آپ کی ذات بابرکات سے ان عظیم صفات کے آثار جھلکتے۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ حضرت سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے جارہے تھے۔ راستے میں ایک مجلس کے پاس سے گزر ہوا۔ اس مجلس میں رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی، مشرکین، یہودی اور کچھ مسلمان بھی تھے۔
رسول اللہﷺ کی سواری کی گرد اڑنے پر ابن اُبی نے بطور حقارت اپنا کپڑا ناک پر رکھ لیا۔ آپ اس مجلس کے قریب آئے، انھیں سلام کہا، دعوتِ دین دی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ عبدﷲ بن اُبی غصے سے لال پیلا ہو گیا اور بولا: او فلاں! اگر تمھاری بات برحق ہے تو بھی اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ ہماری مجالس میں آ کر ہمیں پریشان مت کیا کرو۔ اپنے گھر ہی رہا کرو۔ جو وہاں آجائے، اسے قصے سنادیا کرو۔
ابن اُبی کی اس بدتمیزی پر مسلمان شدید برہم ہوئے اور یہود و مشرکین سے بحث و تکرار شروع ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے سب کو خاموش کرا دیا۔ عبداﷲ بن اُبی کے اس قدر برے رویے کے باوجود اسے کچھ نہ کہا۔ ہاں! آپ نے خزرج کے سردار سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ ضرور کیا۔(صحیح البخاری:٦٢٥٤ )
گستاخ بدو پر نوازشِ نبوی اور آپ کا مثالی عفو درگذر بھی سیرت طیبہ کا حصہ ہے ،آنحضرت ﷺ ایک روز کسی کام سے جا رہے تھے۔ آپ کے مبارک کندھے پر چادر تھی۔ راستے میں ایک َبدّو ملا ۔ اس نے آپ کے کندھے پر لٹکی چادر اس زور سے کھینچی کہ آپ کی گردن مبارک پر نشانات پڑگئے، اور ساتھ بولا: اے محمد! تمھارے پاس اللہ کا جو مال و متاع ہے، اس میں سے مجھے بھی دیں ۔
َبدّو کی اس بدسلوکی اور سخت کلامی پر رسول اللہ ﷺ بالکل نالاں نہ ہوئے اور نہ اسے کچھ کہا، بلکہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے۔ آپ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ اس کا مطالبہ بھی پورا فرمایا۔ آپ نے اپنے اصحاب کو اسے نوازے جانے کا حکم دیا۔(صحیح البخاری:٣١٤٩وصحیح مسلم:١٠٥٧)
اسی طرح ایک بدو مسجد نبوی میں آیا اور مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ مسجد میں رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فرما تھے اور آپ کے صحابہ بھی موجود تھے۔ اس بدّو کو پیشاب کرتا دیکھ کر لوگ اسے مارنے کے لیے بھاگے،لیکن رسول اللہ ﷺ نے کمال حلم و عفو کا نمونہ پیش کیا۔ آپ نے اس بدّو کو کچھ کہنے کے بجائے اپنے اصحاب سے فرمایا: ''اسے کچھ نہ کہو۔ جو کررہا ہے کرنے دو۔ بعد میں اس پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دینا۔''
بدو کے فارغ ہونے پر آپ نے اسے مسجد کی حرمت اور پاکیزگی سے آگاہ کیا اور اپنے اصحاب کو نصیحت فرمائی(( فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِیْنَ )) (صحیح البخاری:٦١٢٨وصحیح مسلم:٢٨٤)''تمھیں آسانیاں کرنے والا بنایا گیا ہے نہ کہ سختی کرنے والا۔''
اہل نفاق ، نادان ، بد اخلاق اور گستاخ افراد کے عمل وکردار پر عفو و حلم کا مظاہرہ کرنا اسوہ نبوی ہے ، جب مقصد عظیم اور مشن بلند ترین ہو ، پھر ہدف کے حصول کے لیے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ، رسول مقبول ﷺ کا مشن دعوت واصلاح عظیم الشان تھا ، اس لیے آپ نے اس مشن کے حصول کے لیے رضائے الٰہی کی خاطر سب کچھ برداشت کیا ، لیکن حقیقی کامیابی اور دعوتی مشن میں ذرہ بھر کتاہی گوارہ نہیں کی ، رسول مقبول ﷺ کی سعئ جمیلہ ، جہد مسلسل ، عفو و درگزر اور تحمل و بردباری کے باعث دعوت اسلام تیزی سے پھیلتی گئی ، آپ نے انتہائی مختصر عرصے میں اسلام کی مثالی ریاست قائم فرمائی ، عالم انسانی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ،
عصر حاضر میں داعیان اسلام ، مربیان ملت اور مصلحین قوم میں کئی طرح کی فکری وعملی اور تعلیمی و تربیتی کتاہیاں پائی جاتی ہیں ، صبر و برداشت ، تحمل و بردباری ، عفو و درگزر اور دیگر داعیانہ اوصاف وخصائل کے حصول میں اہل اسلام کو بالعموم اور داعیان دین کو بالخصوص توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، عدم تحمل و برداشت اور عفو و درگزر نہ ہونے کی وجہ سے کئی طرح کے منفی اثرات ہوتے ہیں ، لوگ دعوت ومصلحین سے دور بھاگتے ہیں اور دعوت واصلاح کے مشن کو مقبولیت حاصل نہیں ہوتی ، شریک مشن افراد میں بھی عدم برداشت اور دیگر منفی جذبات واحساسات جنم لیتے ہیں ،
انسانیت کی دشمن مغربی فکر وتہذیب سے انسانوں میں منفی فکر سوچ پروان چڑھتی ہے ، الحاد زدہ انسان اپنے فائدے اور ذات ہی کو ترجیح دیتا ہے ، مغربی فکر وتہذیب کے حامل انسان کے افراد معاشرے سے تعلقات کا بنیادی مقصد حصول منفعت ہوتا ہے، وہ بھی مادی اور ذاتی، اس لیے مذہب بیزار معاشروں میں تحمل و بردباری، صبر و برداشت،عفو و درگزر اور عفت و پاکدامنی کا تصور بھی عام طور پر مفقود ہوتا ہے، اسی کے باعث لاکھوں افراد کی موجودگی کے باوجود انسان تنہا ہوتا ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، (حصہ ہفتم:اہل نفاق ، نادان اور جاہل سے عفو وحلم)
رسول کریم ﷺ کی مکمل زندگی عفو و حلم سے تعبیر ہے۔ ہر موقع پر آپ کی ذات بابرکات سے ان عظیم صفات کے آثار جھلکتے۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ حضرت سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے جارہے تھے۔ راستے میں ایک مجلس کے پاس سے گزر ہوا۔ اس مجلس میں رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی، مشرکین، یہودی اور کچھ مسلمان بھی تھے۔
رسول اللہﷺ کی سواری کی گرد اڑنے پر ابن اُبی نے بطور حقارت اپنا کپڑا ناک پر رکھ لیا۔ آپ اس مجلس کے قریب آئے، انھیں سلام کہا، دعوتِ دین دی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ عبدﷲ بن اُبی غصے سے لال پیلا ہو گیا اور بولا: او فلاں! اگر تمھاری بات برحق ہے تو بھی اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ ہماری مجالس میں آ کر ہمیں پریشان مت کیا کرو۔ اپنے گھر ہی رہا کرو۔ جو وہاں آجائے، اسے قصے سنادیا کرو۔
ابن اُبی کی اس بدتمیزی پر مسلمان شدید برہم ہوئے اور یہود و مشرکین سے بحث و تکرار شروع ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ نے سب کو خاموش کرا دیا۔ عبداﷲ بن اُبی کے اس قدر برے رویے کے باوجود اسے کچھ نہ کہا۔ ہاں! آپ نے خزرج کے سردار سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے اس کا تذکرہ ضرور کیا۔(صحیح البخاری:٦٢٥٤ )
گستاخ بدو پر نوازشِ نبوی اور آپ کا مثالی عفو درگذر بھی سیرت طیبہ کا حصہ ہے ،آنحضرت ﷺ ایک روز کسی کام سے جا رہے تھے۔ آپ کے مبارک کندھے پر چادر تھی۔ راستے میں ایک َبدّو ملا ۔ اس نے آپ کے کندھے پر لٹکی چادر اس زور سے کھینچی کہ آپ کی گردن مبارک پر نشانات پڑگئے، اور ساتھ بولا: اے محمد! تمھارے پاس اللہ کا جو مال و متاع ہے، اس میں سے مجھے بھی دیں ۔
َبدّو کی اس بدسلوکی اور سخت کلامی پر رسول اللہ ﷺ بالکل نالاں نہ ہوئے اور نہ اسے کچھ کہا، بلکہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیے۔ آپ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ اس کا مطالبہ بھی پورا فرمایا۔ آپ نے اپنے اصحاب کو اسے نوازے جانے کا حکم دیا۔(صحیح البخاری:٣١٤٩وصحیح مسلم:١٠٥٧)
اسی طرح ایک بدو مسجد نبوی میں آیا اور مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ مسجد میں رسول اللہ ﷺ بھی تشریف فرما تھے اور آپ کے صحابہ بھی موجود تھے۔ اس بدّو کو پیشاب کرتا دیکھ کر لوگ اسے مارنے کے لیے بھاگے،لیکن رسول اللہ ﷺ نے کمال حلم و عفو کا نمونہ پیش کیا۔ آپ نے اس بدّو کو کچھ کہنے کے بجائے اپنے اصحاب سے فرمایا: ''اسے کچھ نہ کہو۔ جو کررہا ہے کرنے دو۔ بعد میں اس پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دینا۔''
بدو کے فارغ ہونے پر آپ نے اسے مسجد کی حرمت اور پاکیزگی سے آگاہ کیا اور اپنے اصحاب کو نصیحت فرمائی(( فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُیَسِّرِیْنَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِیْنَ )) (صحیح البخاری:٦١٢٨وصحیح مسلم:٢٨٤)''تمھیں آسانیاں کرنے والا بنایا گیا ہے نہ کہ سختی کرنے والا۔''
اہل نفاق ، نادان ، بد اخلاق اور گستاخ افراد کے عمل وکردار پر عفو و حلم کا مظاہرہ کرنا اسوہ نبوی ہے ، جب مقصد عظیم اور مشن بلند ترین ہو ، پھر ہدف کے حصول کے لیے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ، رسول مقبول ﷺ کا مشن دعوت واصلاح عظیم الشان تھا ، اس لیے آپ نے اس مشن کے حصول کے لیے رضائے الٰہی کی خاطر سب کچھ برداشت کیا ، لیکن حقیقی کامیابی اور دعوتی مشن میں ذرہ بھر کتاہی گوارہ نہیں کی ، رسول مقبول ﷺ کی سعئ جمیلہ ، جہد مسلسل ، عفو و درگزر اور تحمل و بردباری کے باعث دعوت اسلام تیزی سے پھیلتی گئی ، آپ نے انتہائی مختصر عرصے میں اسلام کی مثالی ریاست قائم فرمائی ، عالم انسانی اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے ،
عصر حاضر میں داعیان اسلام ، مربیان ملت اور مصلحین قوم میں کئی طرح کی فکری وعملی اور تعلیمی و تربیتی کتاہیاں پائی جاتی ہیں ، صبر و برداشت ، تحمل و بردباری ، عفو و درگزر اور دیگر داعیانہ اوصاف وخصائل کے حصول میں اہل اسلام کو بالعموم اور داعیان دین کو بالخصوص توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، عدم تحمل و برداشت اور عفو و درگزر نہ ہونے کی وجہ سے کئی طرح کے منفی اثرات ہوتے ہیں ، لوگ دعوت ومصلحین سے دور بھاگتے ہیں اور دعوت واصلاح کے مشن کو مقبولیت حاصل نہیں ہوتی ، شریک مشن افراد میں بھی عدم برداشت اور دیگر منفی جذبات واحساسات جنم لیتے ہیں ،
انسانیت کی دشمن مغربی فکر وتہذیب سے انسانوں میں منفی فکر سوچ پروان چڑھتی ہے ، الحاد زدہ انسان اپنے فائدے اور ذات ہی کو ترجیح دیتا ہے ، مغربی فکر وتہذیب کے حامل انسان کے افراد معاشرے سے تعلقات کا بنیادی مقصد حصول منفعت ہوتا ہے، وہ بھی مادی اور ذاتی، اس لیے مذہب بیزار معاشروں میں تحمل و بردباری، صبر و برداشت،عفو و درگزر اور عفت و پاکدامنی کا تصور بھی عام طور پر مفقود ہوتا ہے، اسی کے باعث لاکھوں افراد کی موجودگی کے باوجود انسان تنہا ہوتا ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے