• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:27)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ))(حصہ:8 ،یہودی کردار اور نبوی عفو و حلم)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، (حصہ:8 یہودی کردار اور نبوی عفو و حلم)

♻ ایک روز ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں چند یہودی رسول اللہ ﷺ کے ہاں آئے۔ انھوں نے آپ کو سلام کہتے ہوئے السلام علیکم کی بجائے: ''اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ'' کہا ، جس کا مطلب تھا کہ نعوذ باللہ آپ ہلاک ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے یہود کا یوں سلام کرنا سن لیا اور فوراً اپنے سرتاج حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دفاع میں بولیں: تم ہلاک ہو اور تم پر لعنت و ملامت ہو۔

♻ رسول اللہ ﷺ کا حلم و عفو دیکھیں کہ آپ نے یہاں یہود کو کچھ کہنے کے بجائے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے فرمایا:
(( مَھْلاً یَاعَائِشَۃُ ! إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الرِّفْقَ فِی الْأَ مْرِکُلِّہٖ)) ''اے عائشہ! ٹھہر جاؤ۔ بلاشبہ اللہ عزوجل تمام امور میں نرمی پسند کرتے ہیں۔'' حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے اپنی سخت کلامی کی وجہ بیان کرتے ہوئے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے نہیں سنا کہ انھوں نے کیا لفظ بولے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ''میں نے بھی جواب میں ''وعلیکم'' کہا ہے، اس کا مطلب تھا کہ یہ ہلاکت تمھاری ہو ۔

♻ یہود کے اسی خبث باطن اور بری روش کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ''یہود کے سلام کے جواب میں تم صرف''و علیک'' کہہ دیا کرو۔'' (صحیح البخاری:٦٠٢٤وصحیح مسلم:٢١٦٥،٢١٦٤) اس سے یہود کی اسلام دشمنی اور اہل اسلام سے ان کی نفرت عداوت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، یہ کسی صورت بھی مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ،

♻ عفوِکمال کی شاندار مثال ملاحظہ کیجئے ، رسول اللہ ﷺ غزوہ ذات الرقاع سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ راستے میں سستانے کے لیے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ سایہ دار درختوں کے نیچے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آرام کے لیے لیٹ گئے۔ رسول اللہ ﷺ بھی ایک درخت کے ساتھ اپنی تلوار لٹکا کر آرام کرنے لگے۔ آپ نیند میں تھے کہ ایک َبدّو کافر نے آکر آپ کی تلوار درخت سے اتار کر سونت لی۔ آپ بیدار ہوئے تو بدّو سرپر تلوار لیے کھڑا تھا۔

♻ وہ آدمی آپ کو دھمکی دیتے ہوئے بولا: آپ مجھ سے خوفزدہ نہیں ہیں؟ آپ نے انتہائی اطمینان اور سکون سے فرمایا: ''بالکل نہیں۔'' اس نے پھر دھمکی کےانداز میں آپ سے پوچھا: آپ کو مجھ سے اب کون بچائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے بڑے اطمینان سے فرمایا: ''اللہ۔'' آپ کا یہ فرمانا تھا کہ اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔ اب تلوار رسول اللہ ﷺ نے تھام لی، لیکن آپ نے اسے کچھ نہ کہا ، بلکہ عفو درگذر کا مثالی اسوہ پیش کیا اور اسے معاف کر دیا، (صحیح البخاری:٤١٣٩وصحیح مسلم:٨٤٣)

♻ اس واقعہ سے کئی طرح رہنمائی ملتی ہے ، جیسے رسول مقبول ﷺ کا مضبوط ایمان وعقیدہ ، مثالی تقوی وللہیت ، زہد و سادگی ، دنیا سے بے رغبتی ، عفو و حلم ، تحمل و بردباری ، مجاہدین کے ہمراہ جہاد مقدس میں شرکت ، بے تکلفی اور ہمدردی و خیرخواہی ، داعیان اسلام اور مربیان ملت کا ان اوصاف وخصائل سے متصف بہت اہمیت کا حامل ہے ،

♻ عہد نبوی کے یہودیوں نے اسلام کے خلاف ہر ممکن کوشش کی اور اعدائے دین کا ہر طرح سے تعاون کیا ، لیکن مشرکین مکہ کی طرح ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنی ، رسول مقبول ﷺ کی نبوت ورسالت حق سچ جانتے ہوئے بھی حسد وبعض کی بنا پر نا صرف انکار کیا ، بلکہ آپ کی دشمنی میں تمام حدیں عبور کر گے ، لیکن رسول مقبول ﷺ نے قوت وطاقت اور اختیار واسباب کے باوجود ان سے در گزر کیا ، بنو قینقاع ، بنو نضیر اور یہود خیر سے آپ کا مثالی برتاؤ اسوہ نبوی کا روشن باب ہے ،

♻ عصر حاضر کے یہودی انتہائی مکار اور چال باز ہیں ، کرہ ارضی پر موجودہ فتنہ وفساد کی اصل وجہ یہی یہود اور ان کے بھیانک منصوبے ہیں ، تسخیر عالم کے صہیونی منصوبے کے تحت تمام انسانیت کو خود ساختہ مصائب و مشکلات کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے ، ان کے ہاں اہل اسلام سے عفو و درگزر کا ذرہ بھر تصور تک بھی نہیں ، اسلامی ممالک کو تاخت وتاراج کرنے میں انہی کے مذموم عزائم کی تکمیل ہے ، پچاس سے زائد اسلامی ممالک امریکہ کے ناجائز بچے اسرائیل کے خلاف آواز تک نہیں اٹھا سکتے ، جب کہ یہود و ہنود کے مسلمانوں پر مظالم سے تمام دنیا واقف ہے ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top