- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، (حصہ:9خواتین سے عفو وحلم اور نبوی اسوہ)
دورِ جاہلیت میں غلاموں اور عورتوں کو معاشرے کے بے کس اور کمزور ترین طبقوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ عرب معاشرے میں غلام وعورت سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا، غلام وعورت کو قابل فروخت چیز کی طرح آدمی کی ملکیت تصور کیا جاتا،
رسول کریم ﷺ نے معاشرے کے ان گرے پڑے افراد کو قدر و منزلت سے نوازا۔ آپ نے خواتین کے متعلق بے شمار ہدایات فرمائیں ، آپ نے عورت کو مثالی حقوق دلائے ،اسے معاشرے اور خاندان کا بنیادی اور اہم ترین فرد قرار دیا، عورتوں سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی اور ان کے ساتھ رویوں میں عفو و حلم کے جذبے کو پروان چڑھایا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''عورتوں سے ہمیشہ خیراور بھلائی کا طرز عمل اختیار کیا کرو، عورت ٹیڑھی پسلی سے تخلیق ہوئی ہے۔ سب سے ٹیڑھی پسلی اوپر والی ہے۔ اگر تم اسے بالکل سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے ، لیکن اگر بالکل ہی چھوڑ دوگے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، اس لیے عورتوں سے حسن سلوک کرتے رہا کرو۔'' (صحیح البخاری : ٥١٨٦)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل خانہ سے اخلاق کیسا تھا؟ انھوں نے بتایا کہ آپ سب لوگوں سے بڑھ کر حسن اخلاق کے مالک تھے، نہ ترش مزاج تھے اور نہ ہی بدخو۔ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے ، بلکہ عفو ودر گزر فرماتے۔ (سنن الترمزي:2016) رسول اللہ ﷺ کا یہ رویہ اپنے اہل خانہ اور دیگر افراد کے لیے یکساں تھا۔
بیوی سے حسنِ سلوک کرنے اور اس کی ترشی اور سخت مزاجی پر عفو و حلم کا دامن تھامے رکھنا نبی اکرم ﷺ کا اسوہ ہے اور آپ نے اہل ایمان کو اس کی بار بار تلقین فرمائی ۔ کچھ خواتین نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے خاوندوں کی طرف سے مارے پیٹے جانے کی شکایت کی۔ آپ نے اس موقع پر عفو و حلم کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا:(( لَیْسَ أُولٰئِکَ بِخِیَارِکُمْ )) (سنن أبی داود:٢١٤٦ و سنن ابن ما جہ:١٩٨٥) '' تم میں ایسے لوگ اچھے نہیں ہیں۔''
پیغمبر اسلام ﷺ نے عورت کی ایسی بے مثل عزت و تکریم سے سرفراز فرمائے کہ مذہب ترین تہزیب واقوام بھی ان کی نظیر پیش کرنے سے نہ صرف قاصر ، بلکہ ان کے ہاں اس کا تصور بھی نا ممکن ہے ، وہ چاہے رومن وفارس جیسی گزشتہ مہذب اقوام ہوں ، یا پھر عصر حاضر کی مزہب بیزاری اور ترقی یافتہ مغربی تہذیب وممالک ہوں ،
ولادت تا وفات عورت کی چار حیثیتیں ہوتی ہیں ، بیٹی ، بہن ، بیوی اور والدہ ، ان چاروں حیثیتوں کے اعتبار سے عورت کے مختلف حقوق وفرائض ہیں ، لیکن ہر حیثیت کے لحاظ سے عورت کو عظیم الشان مقام و مرتبہ سے سرفراز کیا گیا ، زندگی کے کسی ایک مرحلے پر بھی عورت پر معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا، نہ ہی اپنا اور نہ ہی کسی دوسرے کا ، بلکہ یہ مرد کی ذمہ داری قرار دیا گیا، کسی سرپرست کی عدم موجودگی میں اسلامی ریاست عورت کی کفالت کی ذمہ دار ہے ،
مسلم معاشرے میں بیٹی کو رحمت سمجھا جاتا ہے ، اسلام میں اہل خانہ کی عزت و ناموس کے دفاع میں جان چلے کو شہادت سے تعبیر کیا گیا ہے ، بچیوں کی کفالت وتربیت پر آخرت کی کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے ، والدہ کی رضا مندی کو رب تعالیٰ کی رضا مندی ٹھہرایا گیا ہے ، بیویوں سے درگزر کرنے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کی رسول مقبول ﷺ نے بہت تلقین فرمائی ہے ،
عصر حاضر کی مسلم خاتون جدید تہذیب سے متاثر ہوئی ، یہ بھی مغربی عورت کی طرح نام نہاد حقوق ومساوات اور ترقی وآزادی کے خوشنما نعروں کو فکری وعملی طور پر قبول کرنے لگی ، بد اخلاقی ، ترش مزاجی ، بچوں کی ولادت وتربیت سے بیزاری ، والدین اور خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری سے فرار اور امور خاندانی سے اعراض ، یہ تمام منفی جذبات واعمال عورت کے عمل وکردار کا حصہ بنے ، اس کے ردعمل میں مسلم معاشرے میں بھی عورت کے حوالے سے کئی طرح مسائل نے جنم لیا ، ہنوذ یہ مصائب و مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہیں ، اس لیے عورتوں سے عفو و درگزر اور تحمل و بردباری متعلق مردوں کا رویہ بھی لمحہ فکریہ ہے!!
مغربی فکر وتہذیب کے تمام افراد معاشرہ پر ہمہ گیر اور بھیانک اثرات مرتب ہوئے ، جرید تہذیب والحاد نے انتہائی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود عورت پر اتنے مظالم ڈھائے کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی ، مغربی معاشرے میں عورت ہوائے نفس کی تکمیل کا صرف آلہ ہے ، عورت خواہشات کی گڑیا ہے بس ، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ، جنسی تشدد ، حقوق سلبی ، گھریلو تشدد ، معاش اور حضانت کا دگنا بوجھ ،
مغربی عورت کی بے بسی ، لاچارگی اور مظلومیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے ، پورے معاشرے میں کسی ایک فرد پر بھی اسے کامل اعتماد نہیں ہوتا ، ہر فرد دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، ہر فرد اپنی زندگی آپ کے تحت بسر کرتا ہے ، مغربی عورت کو بھی اگر حقیقی عزت و احترام نصیب ہو سکتا ہے ، تو گلشن اسلام میں داخل ہونے سے ، اسی لیے مغربی ممالک میں اسلام قبول کرنے والے افراد میں مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہے، مغربی تہذیب ومعاشرے میں عورت سے عفو و درگزر تو دور کی بات اسے اس کے اصل حقوق ملنا بھی ناممکن ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، (حصہ:9خواتین سے عفو وحلم اور نبوی اسوہ)
دورِ جاہلیت میں غلاموں اور عورتوں کو معاشرے کے بے کس اور کمزور ترین طبقوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ عرب معاشرے میں غلام وعورت سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا، غلام وعورت کو قابل فروخت چیز کی طرح آدمی کی ملکیت تصور کیا جاتا،
رسول کریم ﷺ نے معاشرے کے ان گرے پڑے افراد کو قدر و منزلت سے نوازا۔ آپ نے خواتین کے متعلق بے شمار ہدایات فرمائیں ، آپ نے عورت کو مثالی حقوق دلائے ،اسے معاشرے اور خاندان کا بنیادی اور اہم ترین فرد قرار دیا، عورتوں سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی اور ان کے ساتھ رویوں میں عفو و حلم کے جذبے کو پروان چڑھایا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''عورتوں سے ہمیشہ خیراور بھلائی کا طرز عمل اختیار کیا کرو، عورت ٹیڑھی پسلی سے تخلیق ہوئی ہے۔ سب سے ٹیڑھی پسلی اوپر والی ہے۔ اگر تم اسے بالکل سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے ، لیکن اگر بالکل ہی چھوڑ دوگے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، اس لیے عورتوں سے حسن سلوک کرتے رہا کرو۔'' (صحیح البخاری : ٥١٨٦)
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل خانہ سے اخلاق کیسا تھا؟ انھوں نے بتایا کہ آپ سب لوگوں سے بڑھ کر حسن اخلاق کے مالک تھے، نہ ترش مزاج تھے اور نہ ہی بدخو۔ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے ، بلکہ عفو ودر گزر فرماتے۔ (سنن الترمزي:2016) رسول اللہ ﷺ کا یہ رویہ اپنے اہل خانہ اور دیگر افراد کے لیے یکساں تھا۔
بیوی سے حسنِ سلوک کرنے اور اس کی ترشی اور سخت مزاجی پر عفو و حلم کا دامن تھامے رکھنا نبی اکرم ﷺ کا اسوہ ہے اور آپ نے اہل ایمان کو اس کی بار بار تلقین فرمائی ۔ کچھ خواتین نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے خاوندوں کی طرف سے مارے پیٹے جانے کی شکایت کی۔ آپ نے اس موقع پر عفو و حلم کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا:(( لَیْسَ أُولٰئِکَ بِخِیَارِکُمْ )) (سنن أبی داود:٢١٤٦ و سنن ابن ما جہ:١٩٨٥) '' تم میں ایسے لوگ اچھے نہیں ہیں۔''
پیغمبر اسلام ﷺ نے عورت کی ایسی بے مثل عزت و تکریم سے سرفراز فرمائے کہ مذہب ترین تہزیب واقوام بھی ان کی نظیر پیش کرنے سے نہ صرف قاصر ، بلکہ ان کے ہاں اس کا تصور بھی نا ممکن ہے ، وہ چاہے رومن وفارس جیسی گزشتہ مہذب اقوام ہوں ، یا پھر عصر حاضر کی مزہب بیزاری اور ترقی یافتہ مغربی تہذیب وممالک ہوں ،
ولادت تا وفات عورت کی چار حیثیتیں ہوتی ہیں ، بیٹی ، بہن ، بیوی اور والدہ ، ان چاروں حیثیتوں کے اعتبار سے عورت کے مختلف حقوق وفرائض ہیں ، لیکن ہر حیثیت کے لحاظ سے عورت کو عظیم الشان مقام و مرتبہ سے سرفراز کیا گیا ، زندگی کے کسی ایک مرحلے پر بھی عورت پر معاشی بوجھ نہیں ڈالا گیا، نہ ہی اپنا اور نہ ہی کسی دوسرے کا ، بلکہ یہ مرد کی ذمہ داری قرار دیا گیا، کسی سرپرست کی عدم موجودگی میں اسلامی ریاست عورت کی کفالت کی ذمہ دار ہے ،
مسلم معاشرے میں بیٹی کو رحمت سمجھا جاتا ہے ، اسلام میں اہل خانہ کی عزت و ناموس کے دفاع میں جان چلے کو شہادت سے تعبیر کیا گیا ہے ، بچیوں کی کفالت وتربیت پر آخرت کی کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے ، والدہ کی رضا مندی کو رب تعالیٰ کی رضا مندی ٹھہرایا گیا ہے ، بیویوں سے درگزر کرنے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کی رسول مقبول ﷺ نے بہت تلقین فرمائی ہے ،
عصر حاضر کی مسلم خاتون جدید تہذیب سے متاثر ہوئی ، یہ بھی مغربی عورت کی طرح نام نہاد حقوق ومساوات اور ترقی وآزادی کے خوشنما نعروں کو فکری وعملی طور پر قبول کرنے لگی ، بد اخلاقی ، ترش مزاجی ، بچوں کی ولادت وتربیت سے بیزاری ، والدین اور خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری سے فرار اور امور خاندانی سے اعراض ، یہ تمام منفی جذبات واعمال عورت کے عمل وکردار کا حصہ بنے ، اس کے ردعمل میں مسلم معاشرے میں بھی عورت کے حوالے سے کئی طرح مسائل نے جنم لیا ، ہنوذ یہ مصائب و مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہیں ، اس لیے عورتوں سے عفو و درگزر اور تحمل و بردباری متعلق مردوں کا رویہ بھی لمحہ فکریہ ہے!!
مغربی فکر وتہذیب کے تمام افراد معاشرہ پر ہمہ گیر اور بھیانک اثرات مرتب ہوئے ، جرید تہذیب والحاد نے انتہائی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود عورت پر اتنے مظالم ڈھائے کہ تاریخ انسانی میں اس کی نظیر نہیں ملتی ، مغربی معاشرے میں عورت ہوائے نفس کی تکمیل کا صرف آلہ ہے ، عورت خواہشات کی گڑیا ہے بس ، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ، جنسی تشدد ، حقوق سلبی ، گھریلو تشدد ، معاش اور حضانت کا دگنا بوجھ ،
مغربی عورت کی بے بسی ، لاچارگی اور مظلومیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے ، پورے معاشرے میں کسی ایک فرد پر بھی اسے کامل اعتماد نہیں ہوتا ، ہر فرد دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، ہر فرد اپنی زندگی آپ کے تحت بسر کرتا ہے ، مغربی عورت کو بھی اگر حقیقی عزت و احترام نصیب ہو سکتا ہے ، تو گلشن اسلام میں داخل ہونے سے ، اسی لیے مغربی ممالک میں اسلام قبول کرنے والے افراد میں مردوں کی نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہے، مغربی تہذیب ومعاشرے میں عورت سے عفو و درگزر تو دور کی بات اسے اس کے اصل حقوق ملنا بھی ناممکن ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے