• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:29)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ))(حصہ:10، غلاموں سے عفو وحلم اور نبوی اسوہ)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

عفو و حلم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ، (حصہ:10، غلاموں سے عفو وحلم اور نبوی اسوہ)


♻ غلام بھی عرب معاشرے کا کمزور اور حقیر ترین طبقہ تھا۔ غلام اپنی جان کا بھی مالک نہ تھا، بلکہ اس کا سب کچھ آقا کی ملکیت ہوتا تھا، لیکن پیغمبر اسلام ﷺ نے غلاموں کے بہت سے حقوق متعین فرمائے۔

♻ متعدد امور کا کفارہ غلاموں کی آزادی قرار دیا، جیسے کہ قسم اور ظہار کے کفارے میں ایک شق غلام کو آزاد کرنا تجویز کی گئی ۔ غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی ، ان سے آزادی کا معاملہ طے کرنے میں سہولت کو پیش نظر رکھنے کی تاکید فرمائی گئی۔

♻نبی کریم ﷺ نے عزیز و اقارب، یتیم و مسکین اور ہمسائے کی طرح غلاموں سے بھی حسن سلوک کا حکم فرمایا۔ عرب معاشرے میں تو غلام لونڈی سے حسن سلوک باعث عار اور عرب سماج کے خلاف سمجھا جاتا تھا ،

♻ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ پہلی اور دوسری بار پوچھنے پر تو آپ خاموش رہے ، لیکن جب تیسری دفعہ یہی سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:(( اُعْفُ عَنْہُ فِی کُلِّ یَوْمٍ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً)) (سنن أبی داود:٥١٦٤ و البیہقی،السنن الکبریٰ:١٥٧٩٩) ''روزانہ ستر بار اس سے عفو و درگزر کا مظاہرہ کیا کرو۔''

♻ اس حدیث مبارکہ خادم سے مراد غلام بھی ہو سکتے ہیں اور آزاد بھی ، تاہم لفظ ''خادم'' آزاد کے بجائے غلام پر زیادہ صادق آتا ہے ، کیونکہ اس زمانے میں عموماً غلاموں ہی سے خدمت لی جاتی تھی۔ یہ حدیث مبارکہ بھی غلام سے حسن برتاؤ کے حوالے سے بہت شاندار ہے ،

♻ ایک روز سیدنا ابو مسعود رضی اللّٰہ عنہ اپنے غلام کو مار رہے تھے، پاس سے آنحضرت ﷺ کا گزر ہوا ۔ آپ نے حضرت ابو مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے فرمایا: ''ابو مسعود ! یاد رکھنا جتنی تجھے اس غلام پر قدرت حاصل ہے ، اس سے کہیں بڑھ کر اللہ عزوجل کو تجھ پر قدرت ہے۔'' اس کے بعد انھوں نے زندگی بھر کسی غلام کو نہ مارنے کا وعدہ کیا۔ (صحیح مسلم: ١٦٥٩)

♻ اسلام میں غلام لونڈی کی عزت وتکریم اور ان کے حقوق کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے، رسول مقبول ﷺ کی گیارہ ازواج مطہرات رضی اللّٰہ عنھن تھیں ، ان میں سے دو آپ کی رفیقہ حیات کفار کی لونڈیاں تھیں ، جنگ میں قیدی ہونے کے بعد انہوں نے اپنی رضامندی سے اسلام قبول کیا ، آپ نے انہیں ان کی رضامندی سے اپنی زوجیت میں لے لیا اور ان المؤمنین کے عظیم وصف سے نوازا ، عرب معاشرے میں ایسا تصور بھی نا ممکن تھا ،

♻ وہ دو خوش نصیب ام المؤمنین سیدہ صفیہ اور حضرت جویریہ رضی اللّٰہ عنھما ہیں، ان کے علاوہ حضرت ریحانہ اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللّٰہ عنہھا کو آپ کی مملوکہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ، یہ بھی لونڈیوں کی تکریم کا نبوی اسوہ ہے ، ان لونڈیوں کی آپ سے نسبت کی وجہ سے انہیں وہ مقام ملا کہ قابل رشک شخصیات میں شمار ہونے لگیں،

♻ رسول کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں امت کو بیش بہا وصیتیں فرمائیں ، آپ کی انہی انمول نصیحتوں میں سے ایک غلام لونڈیوں کے متعلق بھی تھی ، وہ تھی بھی سب سے آخری وصیت ، جان کنی کی حالت میں آپ ﷺ کی زبان مبارک پر یہی الفاظ تھے (( الصلاۃ وماملکت ایمانکم ))، نماز اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا ، یہ مسلسل فرماتے ہوئے ہی آپ کی روح مبارک پرواز کر گئی ، یہ حدیث مبارکہ بھی غلاموں سے حسن سلوک کے متعلق مثالی اہمیت کی حامل ہے،

♻ جدید تہذیب والحاد کے حاملین اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر غلامی کے حوالے سے انگشت نمائی کرتے ہیں ، ان کا اعتراض ہے کہ اسلام میں غلامی کا تصور انسانیت کی توہین ہے ، حالانکہ یہ اعتراض برائے اعتراض کے سوا کچھ بھی نہیں ، کیونکہ دور جاہلیت اور وقت کی مذہب ترین تہذیبوں کے مقابلے میں اسلام نے غلام ولونڈیوں کو جو حقوق وتکریم دی ، وہ مغربی تہذیب کی آزاد عورت کو بھی حاصل نہیں ہے ،

♻ عالمی استعماری طاقتوں نے چند برسوں قبل غلامی کے خاتمے کا عالمی قانون منظور کیا ، لیکن انہی استعماری قوتوں کے فلک بوس محلات کی بنیاد میں لاکھوں غلاموں کا خون پسینہ شامل ہے ، ان کی ترقی اور خوشحالی بھی غلاموں پر انسانیت سوز مظالم کی داستان ہے ، افریقہ کے آزاد لوگوں کو غلام بنا کر ان پر جو مظالم ڈھائے گئے ، ان کے تذکرے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، انسان ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ غلام وعورت کے حقوق کی لاگ آلاپنے والوں کی یہ حقیقت ہے ،

♻ غلامی کی روک تھام کے قانون میں بھی اصل مقصود غلام لونڈیوں کے مفاد اور ان کی خیر خواہی مطلوب نہ تھی ، بلکہ اس کی بھی اصل وجہ ملحدین اور مذہب بیزاروں کے اپنے مفادات تھیں، غلاموں پر مظالم اور گوروں کی سیاہ فاموں پر برتری کی وجہ سے مغربی ممالک میں مسائل جنم لینے لگے تھے، غلام اپنے حقوق کے لیے آوازیں بلند کرنے لگے تھے، سیاسی ، معاشی ، سماجی اور تہذیبی مقاصد کے باعث غلامی کی ممانعت کا قانون منظور کیا گیا ، دوسری طرف آزاد لوگوں کو رب العالمین کی غلامی کا باغی بنانے اور الحادی فکر وتہذیب کا غلام بنانے کے لیے بھیانک منصوبے بنائے گئے ،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top