- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
جود وسخاوت ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ: 3 ، نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک پر '' نہیں'' کا لفظ کبھی نہیں آیا)
رسول اللہﷺ کی جود و سخا کا عالم یہ تھا کہ آپ کے پاس جو بھی سائل آتا آپ اسے خالی ہاتھ نہ بھیجا کرتے۔ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہوتا اسے عنایت کر دیا کرتے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:'' مَا سُئِلَ النَّبِیُّ عَن شَیْءٍ قَطُّ فَقَالَ:لَا '' (صحیح البخاری:٦٠٣٤وصحیح مسلم:٢٣١١) نبی کریم ﷺ نے کسی چیز کے مطالبے پر کبھی نہ نہیں کی۔
ایک دفعہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئی ۔ اس نے آپ کو ایک خوبصورت چادر پیش کی ۔ ساتھ اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا کہ یہ چادر میں نے خود اپنے ہاتھ سے بُنی ہے اور آپ کو میں نے اس لیے دی ہے کہ آپ اسے استعمال کریں ۔ آپ نے اس سے وہ چادر لے لی ۔ آپ کو ان دنوں چادر کی ضرورت بھی تھی۔
رسول اللہ ﷺ وہ چادر زیب تن کیے باہر نکلے تو ایک شخص کہنے لگا:ا ے ﷲ کے رسول! یہ چادر کتنی خوبصورت ہے! یہ آپ مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ اندر تشریف لے گئے اور چادر بدل کر وہ چادر تہ کر کے اس آدمی کو بھجوا دی۔ کچھ لوگوں نے اُس پر تنقید کی اور کہا: تم نے اچھا نہیں کیا، تم نے رسول اللہ ﷺ سے چادر مانگی ہی کیوں؟ تمھیں یہ معلوم تو ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا کرتے۔ اس پر اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے اپنے کفن کے لیے رسول اللہ ﷺ سے یہ چادر طلب کی ہے۔ بعد میں جب اس آدمی کی وفات ہوئی تو انھیں اسی چادر میں کفن دیا گیا۔(صحیح البخاری:٢٠٩٣)
سیرت النبی ﷺ کا مشہور واقعہ ہے ، نبی اکرم ﷺ کہیں جا رہے تھے کہ ایک بدّو آپ کے پاس آیا۔ اس نے اس زور سے آپ کی چادر کھینچی کہ آپ کی گردن مبارک پر نشانات پڑ گئے، ساتھ ہی وہ سخت لہجے میں بولا :آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے، اس میں سے مجھے بھی دیں۔ اُس بدّو کے اس برے طرز عمل کے باوجود رسولِ رحمت ﷺ کا اخلاق دیکھیں کہ آپ نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور اسے مال و متاع سے نوازنے کا حکم بھی جاری فرمایا۔( صحیح البخاری:٣١٤٩ وصحیح مسلم:١٠٥٧)
سوالی کے سوال کے جواب میں رسول اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے کبھی٫٫ نہیں ،، نہیں نکلا ، اہل اسلام کو بھی جود وسخاوت ، نصرت و معاونت اور انفاق و صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ، معاشرے کے ضرورت مند ، کمزور حالت لوگوں اور یتیم ومسکین پر خرچ کرنا اہل ثروت افراد معاشرہ کی ذمہ داری ہے ، اسلام کا نظام صدقات و عطیات بہت اہمیت وافادیت کا حامل ہے ،
آج امت مسلمہ انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر اپنے مسلمان بھائیوں کی اخلاقی ومالی اور قانونی وسیاسی نصرت و حمایت میں کئی طرح کی کتاہیوں کا شکار ہے ، معاشرے کے ضعیف و کمزور اور محتاج ولاچار افراد کا کوئی پرسان حال نہیں اور نہ ہی ان کی داد رسی کرنے والا کوئی ہے ، اس کی وجہ ہے: کمزور ایمان وعقیدہ ، دنیا کی حرص و ہوس ، اسلامی اخوت و بھائی چارگی کا فقدان ، نبوی اسوہ حسنہ کی عدم پاسداری اور جدید فکر وتہذیب کی اثر پذیری ،
جدید تہذیب والحاد کا دامن اسلامی نظام صدقات و خیرات کے تصور سے بھی خالی ہے ، مغربی معاشرہ خود غرضی ، کثرتِ مال ودولت اور دنیا کی حرص وہوس میں سب کچھ کرنے کو تیار رہتا ہے ، مادہ پرستی نے انسانوں سے ہمدردی و خیرخواہی اور نصرت و معاونت کے جذبات واحساسات ختم کر دیے ہیں ، انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر ہر کوئی اپنے مفادات کو ملحوظ رکھتا ہے ، اس کے لیے اسے جو کچھ بھی کرنا پڑے ،
عالمی استعماری قوتیں اگر رفاہی و فلاحی کاموں میں سرمایہ خرچ کرتی ہیں ، تو اس کے کئی ایک اہداف و مقاصد ہوتے ہیں ، مادی وسیاسی مفاد اور تہذیبی و ثقافتی فوائد کے بغیر وہ ایک ٹکا بھی کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ، اسلامی ممالک میں این جی اوز کے ذریعے بڑے بڑے اہداف و مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں ، صہیونیت کے پروردہ بغیر کسی مقصد کے کسی اسلامی ملک کی اخلاقی ومالی اور قانونی وسیاسی حمایت کریں ، یہ ہو ہی نہیں سکتا ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
جود وسخاوت ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ: 3 ، نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک پر '' نہیں'' کا لفظ کبھی نہیں آیا)
رسول اللہﷺ کی جود و سخا کا عالم یہ تھا کہ آپ کے پاس جو بھی سائل آتا آپ اسے خالی ہاتھ نہ بھیجا کرتے۔ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہوتا اسے عنایت کر دیا کرتے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:'' مَا سُئِلَ النَّبِیُّ عَن شَیْءٍ قَطُّ فَقَالَ:لَا '' (صحیح البخاری:٦٠٣٤وصحیح مسلم:٢٣١١) نبی کریم ﷺ نے کسی چیز کے مطالبے پر کبھی نہ نہیں کی۔
ایک دفعہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئی ۔ اس نے آپ کو ایک خوبصورت چادر پیش کی ۔ ساتھ اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا کہ یہ چادر میں نے خود اپنے ہاتھ سے بُنی ہے اور آپ کو میں نے اس لیے دی ہے کہ آپ اسے استعمال کریں ۔ آپ نے اس سے وہ چادر لے لی ۔ آپ کو ان دنوں چادر کی ضرورت بھی تھی۔
رسول اللہ ﷺ وہ چادر زیب تن کیے باہر نکلے تو ایک شخص کہنے لگا:ا ے ﷲ کے رسول! یہ چادر کتنی خوبصورت ہے! یہ آپ مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ اندر تشریف لے گئے اور چادر بدل کر وہ چادر تہ کر کے اس آدمی کو بھجوا دی۔ کچھ لوگوں نے اُس پر تنقید کی اور کہا: تم نے اچھا نہیں کیا، تم نے رسول اللہ ﷺ سے چادر مانگی ہی کیوں؟ تمھیں یہ معلوم تو ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا کرتے۔ اس پر اس آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے اپنے کفن کے لیے رسول اللہ ﷺ سے یہ چادر طلب کی ہے۔ بعد میں جب اس آدمی کی وفات ہوئی تو انھیں اسی چادر میں کفن دیا گیا۔(صحیح البخاری:٢٠٩٣)
سیرت النبی ﷺ کا مشہور واقعہ ہے ، نبی اکرم ﷺ کہیں جا رہے تھے کہ ایک بدّو آپ کے پاس آیا۔ اس نے اس زور سے آپ کی چادر کھینچی کہ آپ کی گردن مبارک پر نشانات پڑ گئے، ساتھ ہی وہ سخت لہجے میں بولا :آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے، اس میں سے مجھے بھی دیں۔ اُس بدّو کے اس برے طرز عمل کے باوجود رسولِ رحمت ﷺ کا اخلاق دیکھیں کہ آپ نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور اسے مال و متاع سے نوازنے کا حکم بھی جاری فرمایا۔( صحیح البخاری:٣١٤٩ وصحیح مسلم:١٠٥٧)
سوالی کے سوال کے جواب میں رسول اکرم ﷺ کی زبان مبارک سے کبھی٫٫ نہیں ،، نہیں نکلا ، اہل اسلام کو بھی جود وسخاوت ، نصرت و معاونت اور انفاق و صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے ، معاشرے کے ضرورت مند ، کمزور حالت لوگوں اور یتیم ومسکین پر خرچ کرنا اہل ثروت افراد معاشرہ کی ذمہ داری ہے ، اسلام کا نظام صدقات و عطیات بہت اہمیت وافادیت کا حامل ہے ،
آج امت مسلمہ انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر اپنے مسلمان بھائیوں کی اخلاقی ومالی اور قانونی وسیاسی نصرت و حمایت میں کئی طرح کی کتاہیوں کا شکار ہے ، معاشرے کے ضعیف و کمزور اور محتاج ولاچار افراد کا کوئی پرسان حال نہیں اور نہ ہی ان کی داد رسی کرنے والا کوئی ہے ، اس کی وجہ ہے: کمزور ایمان وعقیدہ ، دنیا کی حرص و ہوس ، اسلامی اخوت و بھائی چارگی کا فقدان ، نبوی اسوہ حسنہ کی عدم پاسداری اور جدید فکر وتہذیب کی اثر پذیری ،
جدید تہذیب والحاد کا دامن اسلامی نظام صدقات و خیرات کے تصور سے بھی خالی ہے ، مغربی معاشرہ خود غرضی ، کثرتِ مال ودولت اور دنیا کی حرص وہوس میں سب کچھ کرنے کو تیار رہتا ہے ، مادہ پرستی نے انسانوں سے ہمدردی و خیرخواہی اور نصرت و معاونت کے جذبات واحساسات ختم کر دیے ہیں ، انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر ہر کوئی اپنے مفادات کو ملحوظ رکھتا ہے ، اس کے لیے اسے جو کچھ بھی کرنا پڑے ،
عالمی استعماری قوتیں اگر رفاہی و فلاحی کاموں میں سرمایہ خرچ کرتی ہیں ، تو اس کے کئی ایک اہداف و مقاصد ہوتے ہیں ، مادی وسیاسی مفاد اور تہذیبی و ثقافتی فوائد کے بغیر وہ ایک ٹکا بھی کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ، اسلامی ممالک میں این جی اوز کے ذریعے بڑے بڑے اہداف و مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں ، صہیونیت کے پروردہ بغیر کسی مقصد کے کسی اسلامی ملک کی اخلاقی ومالی اور قانونی وسیاسی حمایت کریں ، یہ ہو ہی نہیں سکتا ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے