• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:37)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل (( سخاوت وکرم ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد)) (حصہ:4،نبوی سخاوت ، فقر و فاقہ سے بے نیازی)

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

جود وسخاوت ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:4،نبوی سخاوت ، فقر و فاقہ سے بے نیازی)

♻ سرور کونین ﷺ کی سخاوت و کرم کے بحرِبے کراں میں جو بھی غوطہ زن ہوا، مال و دولت لیے ہی پلٹا، خالی ہاتھ کوئی بھی نہ گیا۔ چاہے وہ اپنا تھا یا بیگانہ، دوست تھا یا دشمن۔ آپ کے پاس اگر دینے کو کچھ نہ ہوتا ، تو ادھار لے کر دے دیا کرتے ، یا آیندہ مال آنے پر عطا کا وعدہ فرماتے لیکن انکار نہ کرتے۔

♻ ایک روز ایک سوالی رسول اللہ ﷺ کے ہاں آیا۔ تب آپ کے پاس دینے کو کچھ نہ تھا۔ آپ نے فرمایا: ''اب تو میرے پاس تمھیں دینے کو کچھ بھی نہیں۔ یہ تمھارا مجھ پر قرض ہے۔ جب بھی ہمارے پاس کچھ آئے گا ہم تمھیں دیں گے۔'' حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ سے عرض کرنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا تو پابند نہیں کیا۔آپ کے پاس کچھ ہو تو دے دیا کریں، اگر نہ ہو توآپ دینے کے پابند نہیں ہیں۔

♻حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات رسول اللہ ﷺ کو اچھی نہ لگی۔ اس ناگواری کے اثرات آپ کے چہرہ انور پر نمایاں دکھائی دیے ، لیکن آپ نے کچھ نہ فرمایا ۔ اس پر وہ شخص کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں! آپ بس عنایت کرتے جایا کریں۔ عرش عظیم کی مالک ذات کے ہوتے ہوئے آپ کو کسی طرح کے فقر و فاقہ سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ اس آدمی کی یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ مسکرا دیے اور فرمایا: ''مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے۔'' (البزار ،المسند:٢٧٣)

♻ آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھی ایسی ہی نصیحت کی تھی۔ آپ نے انھیں فرمایا تھا:(( أَنْفِقْ یَا بِـلَالُ ! وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِی الْعَرْشِ إِقْـلَالًا )) (الطبرانی، المعجم الأوسط:٢٥٧٢ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٢٦٦١) ''اے بلال! خرچ کرتے رہا کرو۔ عرش عظیم کی مالک ذات بابرکات کے ہوتے ہوئے فقر و فاقہ سے مت ڈرا کرو۔''

♻آنحضرت ﷺ خود بھی اسی زریں اصول پر کار بند تھے۔ آپ فقرو فاقہ کا خوف کیے بغیر اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے سب کچھ خرچ کردیا کرتے تھے۔ رسول مقبول ﷺ کی تمام حیات طیبہ اس پر شاہد ہے ، زندگی بھر آپ کے پاس اتنا مال جمع ہی نہیں ہوا جس پر زکوٰۃ فرض ہو، اگر دنیا کا مال ودولت جمع کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے ،

♻ حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اسلام قبول کیا۔ آپ نے بن مانگے اسے بکریوں کا ریوڑ عنایت کیا۔ وہ آدمی خوشی سے بکریاں ہانک کر بھاگا بھاگا اپنی قوم کے ہاں گیا اور انھیں رسول کریم ﷺ کی سخاوت و کرم نوازی کے بارے میں بتانے لگا: اے میری قوم ! مسلمان ہو جاؤ، حضرت محمد مصطفی ﷺ تو فقر و فاقہ خاطر میں لائے بغیر بے دریغ لوگوں کو نوازتے ہیں۔(صحیح البخاری:٢٣١٢وأحمد بن حنبل،المسند:١٢٠٥١)

♻ جب بحرین (الاحساء) سے مال مدینہ منورہ پہنچا ، تو رسول ﷲ ﷺ نے مال مسجد میں رکھنے کا حکم فرمایا۔ آپ کی حیاتِ طیبہ میں بیرون مدینہ سے آنے والے اموال میں سے بحرین کا مال سب سے زیادہ تھا۔ آپ نماز کے لیے تشریف لائے تو مال کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ نماز ادا کرنے کے بعد آپ مال کے پاس تشریف لائے اور تقسیم کرنے لگے۔ آپ ہر ایک کو عنایت کیے جا رہے تھے۔ آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللّٰہ عنہ آپ کی اجازت سے جتنا مال اُٹھا سکتے تھے اٹھا کر لے گئے۔ ان کے نظر آنے تک آپ انھیں دیکھتے ہی رہے۔ رسول اللہ ﷺ وہاں سے تب اُٹھے جب تمام مال تقسیم کر دیا۔ وہاں ایک درہم بھی باقی نہ تھا۔

♻ اس موقع پر رسول مقبول ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا تھا: ''اللہ کی قسم! مجھے تمھارے بارے میں فقر و فاقہ کا خوف نہیں۔ مجھے تو ڈر ہے کہ پہلے لوگوں کی طرح تم پر بھی دنیا کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور ان کی طرح تم بھی دنیا میں لگ جاؤ گے، پھر ان کی طرح تم بھی ہلاک ہو جاؤ گے۔(صحیح البخاری:٤٢١ وصحیح مسلم:٢٩٦١)

♻ رسول اللہ ﷺ کی فقر و فاقہ سے بے نیازی کا اندازہ اس واقعے سے بھی کیجیے۔ ایک روز آپ نماز عصر پڑھانے کے بعد خلاف معمول جلدی سے گھر تشریف لے گئے۔ آپ کی اس جلدی پر اصحابِ رسول بڑے متعجب ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ دو بارہ مسجد میں تشریف لائے۔ آپ اپنے اصحاب کے چہروں پر تعجب کے آثار دیکھ کر فرمانے لگے: (( إِنِّی ذَکَرْتُ وَأَنَا فِی الْعَصْرِ شَیْئًا مِنْ تِبْرٍ کَانَ عِنْدَنَا، فَکَرِھْتُ أَنْ یَبِیْتَ عِنْدَنَا فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِہٖ )) (صحیح البخاری:٨٥١ و سنن النسائی:١٣٦٦) ''دوران نماز مجھے خیال آیا کہ ہمارے ہاں کچھ سونا پڑا ہے۔ میں نے اچھا نہ سمجھا کہ وہ ایک رات بھی ہمارے ہاں پڑا رہے۔ میں اسے تقسیم کرنے کا کہہ آیا ہوں۔''

♻ سبحان اللہ العظیم ! آپ سخاوت کرنے میں کس قدر جلدی کیا کرتے تھے۔ مال کچھ دیر گھر میں پڑا رہنا بھی گوارا نہ کیا۔ نماز کے فوراً بعد جاکر تقسیم کرنے کا حکم فرما آئے اور اپنے لیے کچھ بھی نہ رکھا۔ اس سے بڑھ کر بھی فقر و فاقہ سے بے نیازی کی کوئی صورت ہو سکتی ہے ، آج امت مسلمہ نبوی اخلاق و کردار اور محمدی تعلیم و عادات کو اپنانے میں کئی طرح کی کتاہیوں سے دوچار ہے ،

♻ رسول مقبول ﷺ کی سیرت طیبہ فقر و فاقہ سے بے نیازی اور جود وسخاوت جیسے واقعات سے معمور ہے ، قبل بعثت آپ مکہ کے بہت بڑے تاجر تھے ، سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کا تمام مال ودولت آپ ہی کے پاس تھا ، اس میں ہر طرح کے تصرف کا بھ آپ کو اختیار تھا ، غزوات و سرایا کے نتیجے میں بصورت غنیمت کثیر مال ودولت اسلامی حکومت کو حاصل ہوا ، اس میں خاص آپ کا حصہ بھی تھا ، لیکن اس تمام کچھ کے باوجود تمام زندگی زہد و قناعت اور سادگی والی بسر فرمائی ، حالانکہ شاہانہ زندگی بسر کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے ، فقر و فاقہ سے بے نیاز ہو اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیا ، وقت وفات آپ کے ہاں ایک درہم بھی نہ تھا ، اللّٰہ اکبر کبیرا


♻ عصر حاضر اسلام کے نام لیواؤں کی حالت زار قابل رحم ہے ، مال ودولت کی حرص وہوس ، مادی ترقی ، دنیاوی خوش حالی اور کثرت مال و منال کی خواہش زندگی کا نمایاں ترین مقصد دکھائی دیتا ہے ، انفرادی واجتماعی اور ملکی و عالمی سطح پر اہل اسلام بھی دین وملت اور نیکی وفکر آخرت کے بجائے ذاتی اور مادی مفادات ہی کو ترجیح دینے لگے ہیں ، تمام طرح کے معاشرتی وسیاسی تعلقات کی بنیاد صرف دنیاوی مقصد ہی بنتا جا رہا ہے ، اسی کے باعث جود وسخاوت ، نصرت و معاونت اور انفاق وصدقات کا مثالی جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے ، کمزور افراد معاشرہ کے مصائب و مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں ،

♻ مغربی فکر وتہذیب نے انسانوں کو اس قدر خواہشات پرست اور حرص وہوس کا بچاری بنایا کہ انسان اپنا اصل مقصد حیات ہی بھول گیا ، سرمایہ دارانہ نظام تعلیم وتربیت ، نظام معیشت ومعاشرت اور نظام اخلاق و سیاست ، ایسے ماحول ومعاشرے میں زندگی بسر کرنے والا مذہب بیزار انسان تمام شعبہ ہائے زندگی میں مادی اور ذاتی مفاد ہی کو ملحوظ رکھتا ہے ، صنعتی انقلاب اور جدید ایجادات کی بھرمار ، اس کی بہت بڑی اور نمایاں وجہ حصول و دولت ہی تو ہے، چاہیے لوگوں کا جتنا بھی نقصان ہو،

♻ ممکن ہے کہ سائنسی ایجادات میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہ ہو جس کا کسی نہ کسی انداز میں انسانوں کو نقصان نہ ہو ، یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ، خواہشات کی تکمیل اور حصولِ مال ودولت ہی کے لیے تو کیا جا رہا ہے، مادہ پرستانہ فکر وتہذیب کا حامل انسان کیونکہ جود وسخاوت سے متصف ہو سکتا ہے، اگر وہ کسی کی نصرت و معاونت کرتا بھی ہے تو اپنی ذاتی مفاد کے لیے، رضائے الٰہی، حصول اجر و ثواب اور فکر آخرت کا تو ان کے ہاں تصور بھی نہیں، کیونکہ وہ خالق و مالک اور دین وآخرت کے ہی منکر ہیں،

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top