- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
آنحضرت ﷺ کی عادات جمیلہ
عادات و خصائل کے پختہ ہونے میں آدمی کی ذاتی سوچ ، طبعی میلان، ماحول، معاشرے اور خاندان کا اہم کردار ہوتا ہے،
لیکن آفرین ہے رہبر کامل حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کہ آپ اپنے عہد کے بدترین ماحول اور بری عادات سے بالکل متاثر نہیں ہوئے بلکہ معاشرتی اور خاندانی رسم و رواج کے خلاف بھی علم بلند کرنا پڑا تو اس سے دریغ نہ کیا۔
اہل عرب خاندانی عصبیت، لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت ، شراب نوشی اور قمار بازی جیسی گھناؤنی عادات میں مبتلا تھے ، اسی طرح شرکیہ عقائد و اعمال، باطل رسوم ورواج اور بدعات و خرافات عرب معاشرے کا حصہ تھے ، انفرادی واجتماعی زندگی میں اور سماجی ، اقتصادی اور سیاسی امور میں ان حالت انتہائی ابتری کا شکار تھی ،
لیکن رسول اللہ ﷺ عرب ماحول ومعاشرے میں رہنے کے باوجود ، آپ بری عادات کے قریب تو کیا ، ان کے تصور سے بھی مکمل کنارہ کش رہے۔ آپ عادات جمیلہ کے پیکر اور خصائل حمیدہ کا مجسمہ تھے۔
رہبر اعظم ﷺ نے ان کے ماحول سے متاثر ہونے کے بجائے ، انھیں متاثر کرنے میں کامیاب ٹھہرے ، جس کی شہادت خود مشرکین مکہ بھی دیا کرتے تھے۔ بعثت سے قبل کی بھی رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ عیوب و نقائص سے اس قدر پاک تھی کہ کسی کو انگشت نمائی کا موقع تک نہیں ملا ،
یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ آپ نبوت و رسالت سے نوازے جانے کے بعد ہی اچھی عادات و خصائل سے متصف نہ ہوئے ، بلکہ قبل از نبوت بھی جود و سخا، صلہ رحمی، ہمدردی، خیر خواہی، مہمان نوازی اور دیگر ہر قسم کی صفات عالیہ سے بہرہ ور اور بری عادات و اطوار سے مکمل کنارہ کش تھے، حالانکہ وہ معاشرہ برائیوں سے اٹا ہوا تھا۔
نبی کریم ﷺ کی ان صفات عالیہ کی گواہی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پہلی وحی کے نزول کے موقع پر ان الفاظ سے دی: اللہ کی قسم! اللہ کبھی آپ کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑے گا کیونکہ آپ تو بلاشبہ صلہ رحمی کرتے ہیں، اوروں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، بے کس کو کما کر کھلاتے ہیں، مہمان کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور مصائب و آلام میں دوسروں کی نصرت و معاونت کرتے ہیں۔( صحیح البخاری:٣ وصحیح مسلم:١٦٠ )
صحیح بخاری کی ایک اور حدیث میں ''أَبْشِرْ'' اور ''تَصْدُقُ '' کے الفاظ بھی ہیں۔(صحیح البخاری: ٤٩٥٣) اس کا مطلب ہے کہ آپ پریشان ہونے کے بجائے اپنے حسن اخلاق پر خوش ہوں کیونکہ آپ تو صدقِ مقال کے بھی خوگر ہیں۔
بعد میں آپ ﷺ کی ان عادات وخصائل کا قدرے تفصیل سے تذکرہ کیاجائے گا، جو مذکورہ حدیث میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمائیں۔ ان نبوی عادات و صفات میں اہل اسلام کے لیے بالعموم اور داعیان اسلام کے لیے بالخصوص بہت ہی اہم رہنمائی موجود ہے ،
رسول مقبول ﷺ عرب معاشرے میں پلنے بڑھنے کے باوجود ، تمام طرح کی فکری وعملی کج روی سے محفوظ رہے، آپ کی اس بے داغ سیرت وکردار کے اسباب وعوامل میں سے ایک اہم ترین وجہ خاص ربانی حفاظت و نگرانی تھی ، جس کا تذکرہ رب العالمین نے ((رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا)) (الطور:48/52) سے فرمایا
داعی اعظم ﷺ کی قبل بعثت کی پاکیزہ حیات طیبہ سے رہنمائی ملتی ہے کہ دعوت واصلاح کے عظیم فریضہ کی ادائیگی میں داعی و مربی کے سابقہ عمل وکردار کی خاص اہمیت ہوتی ہے ، اگرچہ اسلامی ہدایات کے مطابق قبول ایمان سے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لوگ مصلح وداعی کے ماضی کی بنا پر اس کے متعلق راۓ اختیار کرتے ہیں ،
رسول مقبول ﷺ نے اپنے ماضی کو اپنی صداقت رسالت کے لیے بطور دلیل پیش فرمایا، آپ نے کوہ طور پر کھڑے ہو کر اہل مکہ کو خطاب عام فرمایا ، آپ نے دعوت دینے سے قبل مخاطبین سے اپنی صدق گوئی کی گواہی لی، پھر دعوت دین دی، اسی حقیقت کو قرآن کریم نے اس انداز سے بیان کیا ہے (( فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ)) (یونس:16/10) «میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں اس سے پہلے ، تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے!»
داعیان اسلام ، مصلحین ملت اور مربیان امت کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمدہ عادات و اطوار کے حامل ہوں ، ان کا عمل وکردار دعوت واصلاح کے عظیم الشان مشن کی صداقت کا عملی ثبوت ہو ، بصورت دیگر ہو سکتا ہے کہ لوگ دعوت کو قبول کرنے کے بجائے اس پر نشتر زنی کرنے لگیں، جیسے مذہب بیزار جدید فکرو تہذیب کے حامل لوگ کرتے ہیں،
جدید فکر وتہذیب افکار و نظریات اور باطن کے بجائے ، ظاہر پر زیادہ توجہ دیتی ہے ، مغربی تہذیب ظاہر پرستانہ ہے، اس لیے ایسے لوگوں کو دعوت وتبلیغ کے لیے داعی کے ظاہری عمل وکردار کی بہت ہی زیادہ اہمیت ہے، دیار غیر میں اسلام کی عدم اشاعت کے کئی ایک اسباب ہیں ، ایک اہم ترین وجہ مسلمان کی انفرادی واجتماعی اور معاشی و سیاسی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق نہ ہونا بھی ہے ، روئے زمین پر ایک بالشت بھی ایسی نہیں ، جہاں اسلام بطور دستور حیات کامل صورت میں نافذ ہو ، اسی لیے مخالفین باور کرواتے ہیں کہ عصر حاضر میں اسلامی تعلیمات کی کامل اتباع ناممکن ہے،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
آنحضرت ﷺ کی عادات جمیلہ
عادات و خصائل کے پختہ ہونے میں آدمی کی ذاتی سوچ ، طبعی میلان، ماحول، معاشرے اور خاندان کا اہم کردار ہوتا ہے،
لیکن آفرین ہے رہبر کامل حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کہ آپ اپنے عہد کے بدترین ماحول اور بری عادات سے بالکل متاثر نہیں ہوئے بلکہ معاشرتی اور خاندانی رسم و رواج کے خلاف بھی علم بلند کرنا پڑا تو اس سے دریغ نہ کیا۔
اہل عرب خاندانی عصبیت، لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت ، شراب نوشی اور قمار بازی جیسی گھناؤنی عادات میں مبتلا تھے ، اسی طرح شرکیہ عقائد و اعمال، باطل رسوم ورواج اور بدعات و خرافات عرب معاشرے کا حصہ تھے ، انفرادی واجتماعی زندگی میں اور سماجی ، اقتصادی اور سیاسی امور میں ان حالت انتہائی ابتری کا شکار تھی ،
لیکن رسول اللہ ﷺ عرب ماحول ومعاشرے میں رہنے کے باوجود ، آپ بری عادات کے قریب تو کیا ، ان کے تصور سے بھی مکمل کنارہ کش رہے۔ آپ عادات جمیلہ کے پیکر اور خصائل حمیدہ کا مجسمہ تھے۔
رہبر اعظم ﷺ نے ان کے ماحول سے متاثر ہونے کے بجائے ، انھیں متاثر کرنے میں کامیاب ٹھہرے ، جس کی شہادت خود مشرکین مکہ بھی دیا کرتے تھے۔ بعثت سے قبل کی بھی رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ عیوب و نقائص سے اس قدر پاک تھی کہ کسی کو انگشت نمائی کا موقع تک نہیں ملا ،
یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ آپ نبوت و رسالت سے نوازے جانے کے بعد ہی اچھی عادات و خصائل سے متصف نہ ہوئے ، بلکہ قبل از نبوت بھی جود و سخا، صلہ رحمی، ہمدردی، خیر خواہی، مہمان نوازی اور دیگر ہر قسم کی صفات عالیہ سے بہرہ ور اور بری عادات و اطوار سے مکمل کنارہ کش تھے، حالانکہ وہ معاشرہ برائیوں سے اٹا ہوا تھا۔
نبی کریم ﷺ کی ان صفات عالیہ کی گواہی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پہلی وحی کے نزول کے موقع پر ان الفاظ سے دی: اللہ کی قسم! اللہ کبھی آپ کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑے گا کیونکہ آپ تو بلاشبہ صلہ رحمی کرتے ہیں، اوروں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، بے کس کو کما کر کھلاتے ہیں، مہمان کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور مصائب و آلام میں دوسروں کی نصرت و معاونت کرتے ہیں۔( صحیح البخاری:٣ وصحیح مسلم:١٦٠ )
صحیح بخاری کی ایک اور حدیث میں ''أَبْشِرْ'' اور ''تَصْدُقُ '' کے الفاظ بھی ہیں۔(صحیح البخاری: ٤٩٥٣) اس کا مطلب ہے کہ آپ پریشان ہونے کے بجائے اپنے حسن اخلاق پر خوش ہوں کیونکہ آپ تو صدقِ مقال کے بھی خوگر ہیں۔
بعد میں آپ ﷺ کی ان عادات وخصائل کا قدرے تفصیل سے تذکرہ کیاجائے گا، جو مذکورہ حدیث میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمائیں۔ ان نبوی عادات و صفات میں اہل اسلام کے لیے بالعموم اور داعیان اسلام کے لیے بالخصوص بہت ہی اہم رہنمائی موجود ہے ،
رسول مقبول ﷺ عرب معاشرے میں پلنے بڑھنے کے باوجود ، تمام طرح کی فکری وعملی کج روی سے محفوظ رہے، آپ کی اس بے داغ سیرت وکردار کے اسباب وعوامل میں سے ایک اہم ترین وجہ خاص ربانی حفاظت و نگرانی تھی ، جس کا تذکرہ رب العالمین نے ((رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا)) (الطور:48/52) سے فرمایا
داعی اعظم ﷺ کی قبل بعثت کی پاکیزہ حیات طیبہ سے رہنمائی ملتی ہے کہ دعوت واصلاح کے عظیم فریضہ کی ادائیگی میں داعی و مربی کے سابقہ عمل وکردار کی خاص اہمیت ہوتی ہے ، اگرچہ اسلامی ہدایات کے مطابق قبول ایمان سے سابقہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لوگ مصلح وداعی کے ماضی کی بنا پر اس کے متعلق راۓ اختیار کرتے ہیں ،
رسول مقبول ﷺ نے اپنے ماضی کو اپنی صداقت رسالت کے لیے بطور دلیل پیش فرمایا، آپ نے کوہ طور پر کھڑے ہو کر اہل مکہ کو خطاب عام فرمایا ، آپ نے دعوت دینے سے قبل مخاطبین سے اپنی صدق گوئی کی گواہی لی، پھر دعوت دین دی، اسی حقیقت کو قرآن کریم نے اس انداز سے بیان کیا ہے (( فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ)) (یونس:16/10) «میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں اس سے پہلے ، تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے!»
داعیان اسلام ، مصلحین ملت اور مربیان امت کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمدہ عادات و اطوار کے حامل ہوں ، ان کا عمل وکردار دعوت واصلاح کے عظیم الشان مشن کی صداقت کا عملی ثبوت ہو ، بصورت دیگر ہو سکتا ہے کہ لوگ دعوت کو قبول کرنے کے بجائے اس پر نشتر زنی کرنے لگیں، جیسے مذہب بیزار جدید فکرو تہذیب کے حامل لوگ کرتے ہیں،
جدید فکر وتہذیب افکار و نظریات اور باطن کے بجائے ، ظاہر پر زیادہ توجہ دیتی ہے ، مغربی تہذیب ظاہر پرستانہ ہے، اس لیے ایسے لوگوں کو دعوت وتبلیغ کے لیے داعی کے ظاہری عمل وکردار کی بہت ہی زیادہ اہمیت ہے، دیار غیر میں اسلام کی عدم اشاعت کے کئی ایک اسباب ہیں ، ایک اہم ترین وجہ مسلمان کی انفرادی واجتماعی اور معاشی و سیاسی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق نہ ہونا بھی ہے ، روئے زمین پر ایک بالشت بھی ایسی نہیں ، جہاں اسلام بطور دستور حیات کامل صورت میں نافذ ہو ، اسی لیے مخالفین باور کرواتے ہیں کہ عصر حاضر میں اسلامی تعلیمات کی کامل اتباع ناممکن ہے،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے