- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
((رسول اﷲﷺ کی خصوصیات ))
حافظ محمد فیاض الیاس الأثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662
امت مسلمہ کے لیے مالِ غنیمت کی حلت
میدان قتال میں دشمن کا چھوڑا ہوا جو مال و متاع اہل ایمان کے قبضے میں آتا ہے، اسے ''مالِ غنیمت''کہا جاتا ہے۔اسلام سے قبل ایسا مال ذاتی استعمال کے لیے جائز نہ تھا۔
بلکہ مال غنیمت ایک جگہ اکٹھا کر دیا جاتا ، جسے آسمان سے آگ آکر جلا ڈالتی تھی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کے متعلق سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی کا واقعہ بھی مذکور ہے۔
لیکن آنحضرت ﷺ کو مالِ غنیمت استعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی۔ آپ نے فرمایا:(( وَأُحِلَّتْ لِیْ الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی ))''میرے لیے مالِ غنیمت حلال قرار دیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھا۔''
رسول اﷲ ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ ''میرا رزق میرے نیزے کی انی میں رکھا گیا ہے۔'' (أحمد بن حنبل، المسند:٥١١٤) اس حدیث مبارکہ سے مقصود بھی مال غنیمت کا حلال ہونا ہے۔
امت محمدیہ کے لیے مال غنیمت کی حلت کی وجہ آنحضرت ﷺ نے یہ بتائی ہے: ''جب ﷲ تعالیٰ نے ہمارے ضعف اور عجز کو دیکھا تو اس نے مالِ غنیمت کو ہمارے لیے حلال کر دیا۔'' (صحیح البخاری:٣١٢٤،٣٣٥ و صحیح مسلم:٥٢١، ١٧٤٧)
آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ کے غزوات، سرایا اور خلفائے راشدین کے عظیم جنگی معرکوں سے حاصل ہونے والا مال غنیمت ہی مسلمانوں کی آسودگی کا باعث بنا۔
اہل اسلام کے لیے اگر مالِ غنیمت حلال نہ ہوتا تو مسلمانوں کے لیے اتنی جلدی مالی مشکلات کا مقابلہ دشوار ہوتا۔
عہد نبوی کے غزہ حنین و بدر، غزوہ طائف و خیبر اور غزوہ بنو مُصطلق سے ملنے والا مال و متاع مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا۔
قرآن کریم میں مال غنیمت کی حلت کے متعلق فرمایا گیا(فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰـلًا طَیِّبًا) (الانفال:69/8) ''جو تم نے مال غنیمت حاصل کیا ہے اسے کھاؤ، کیونکہ وہ حلال اور پاک ہے۔''
اہل اسلام کے لیے مالِ غنیمت حلال قرار دیے جانے کے بعد اس کے تفصیلی احکام بھی بیان فرمائےگے، جس سے اسلام کی عالمگیریت اور حقانیت کا پتہ چلتا ہے۔
میدان جنگ سے حاصل ہونے والامال کفار مسلمانوں کے لیے حلال ہے ، لیکن اسلام میں نہ تو جنگ اصل مطلوب ہے اور نہ ہی جنگ کے ذریعے سے صرف حصول مال مقصود ہے ،
اسلام میں جہاد مقدس کا عظیم فریضہ غلبہ اسلام کے لیے انجام دیا جاتا ہے ، جہاد کی ضرب کاری سے کفر وشرک کی قوت وطاقت کو پاش پاش کیا جاتا ہے
جہادی معرکوں سے ظالم وجابر حکمران سے عوام کو نجات دلائی جاتی ہے ، تاکہ وہ آزادانہ طور پر اسلامی تعلیمات سے آگہی حاصل کریں اور اپنی رضامندی سے اسلام قبول کر کے رب تعالیٰ کی جنت کے حقدار ٹھہریں,
عصر حاضر میں جدید فکرو تہذیب کی اثر پذیری اور الحادی استعمار سے مرعوبیت کی وجہ سے اہل اسلام میں جہاد مقدس کے متعلق کئی طرح کی فکری وعملی کتاہیاں پائی جاتی ہیں، اس کا ازالہ علمائے دین اور مصلحین ملت کے ذمے ہے،
حافظ محمد فیاض الیاس الأثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662
امت مسلمہ کے لیے مالِ غنیمت کی حلت
میدان قتال میں دشمن کا چھوڑا ہوا جو مال و متاع اہل ایمان کے قبضے میں آتا ہے، اسے ''مالِ غنیمت''کہا جاتا ہے۔اسلام سے قبل ایسا مال ذاتی استعمال کے لیے جائز نہ تھا۔
بلکہ مال غنیمت ایک جگہ اکٹھا کر دیا جاتا ، جسے آسمان سے آگ آکر جلا ڈالتی تھی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کے متعلق سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ایک نبی کا واقعہ بھی مذکور ہے۔
لیکن آنحضرت ﷺ کو مالِ غنیمت استعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی۔ آپ نے فرمایا:(( وَأُحِلَّتْ لِیْ الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی ))''میرے لیے مالِ غنیمت حلال قرار دیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہ تھا۔''
رسول اﷲ ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ ''میرا رزق میرے نیزے کی انی میں رکھا گیا ہے۔'' (أحمد بن حنبل، المسند:٥١١٤) اس حدیث مبارکہ سے مقصود بھی مال غنیمت کا حلال ہونا ہے۔
امت محمدیہ کے لیے مال غنیمت کی حلت کی وجہ آنحضرت ﷺ نے یہ بتائی ہے: ''جب ﷲ تعالیٰ نے ہمارے ضعف اور عجز کو دیکھا تو اس نے مالِ غنیمت کو ہمارے لیے حلال کر دیا۔'' (صحیح البخاری:٣١٢٤،٣٣٥ و صحیح مسلم:٥٢١، ١٧٤٧)
آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ کے غزوات، سرایا اور خلفائے راشدین کے عظیم جنگی معرکوں سے حاصل ہونے والا مال غنیمت ہی مسلمانوں کی آسودگی کا باعث بنا۔
اہل اسلام کے لیے اگر مالِ غنیمت حلال نہ ہوتا تو مسلمانوں کے لیے اتنی جلدی مالی مشکلات کا مقابلہ دشوار ہوتا۔
عہد نبوی کے غزہ حنین و بدر، غزوہ طائف و خیبر اور غزوہ بنو مُصطلق سے ملنے والا مال و متاع مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا۔
قرآن کریم میں مال غنیمت کی حلت کے متعلق فرمایا گیا(فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰـلًا طَیِّبًا) (الانفال:69/8) ''جو تم نے مال غنیمت حاصل کیا ہے اسے کھاؤ، کیونکہ وہ حلال اور پاک ہے۔''
اہل اسلام کے لیے مالِ غنیمت حلال قرار دیے جانے کے بعد اس کے تفصیلی احکام بھی بیان فرمائےگے، جس سے اسلام کی عالمگیریت اور حقانیت کا پتہ چلتا ہے۔
میدان جنگ سے حاصل ہونے والامال کفار مسلمانوں کے لیے حلال ہے ، لیکن اسلام میں نہ تو جنگ اصل مطلوب ہے اور نہ ہی جنگ کے ذریعے سے صرف حصول مال مقصود ہے ،
اسلام میں جہاد مقدس کا عظیم فریضہ غلبہ اسلام کے لیے انجام دیا جاتا ہے ، جہاد کی ضرب کاری سے کفر وشرک کی قوت وطاقت کو پاش پاش کیا جاتا ہے
جہادی معرکوں سے ظالم وجابر حکمران سے عوام کو نجات دلائی جاتی ہے ، تاکہ وہ آزادانہ طور پر اسلامی تعلیمات سے آگہی حاصل کریں اور اپنی رضامندی سے اسلام قبول کر کے رب تعالیٰ کی جنت کے حقدار ٹھہریں,
عصر حاضر میں جدید فکرو تہذیب کی اثر پذیری اور الحادی استعمار سے مرعوبیت کی وجہ سے اہل اسلام میں جہاد مقدس کے متعلق کئی طرح کی فکری وعملی کتاہیاں پائی جاتی ہیں، اس کا ازالہ علمائے دین اور مصلحین ملت کے ذمے ہے،