- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ،(حصہ:1، معاشی ومعاشرتی اونچ نیچ کی حکمت)
دین اسلام واحد وہ دین ہے جس میں روحانی ،سماجی اور سیاسی امور کے بارے میں تمام طرح کی کامل رہنمائی موجود ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے ہاں عہدہ، منصب اور جاہ و جلال کی کوئی اہمیت نہیں، اس کے نزدیک اہمیت صرف اور صرف خلوص و تقویٰ پر مبنی نیک اعمال کی ہے۔
باقی رہا لوگوں کا کسی بھی اعتبار سے ظاہری و مادی فرق تو یہ آزمائش کی حکمت کے تحت ہے جس کی وضاحت اﷲ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے:( وَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰۤئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰـکُمْ )(الانعام:165/6)''وہی اللہ ہے جس نے تمھیں زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجے دیے، تاکہ اس نے جو کچھ بھی تمھیں دیا ہے، اس میں تمھاری آزمائش کرے۔''
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کہ انسان کی کئی امور میں آزمائش ہوتی ہے۔ انھی امور میں سے ایک یتیمی اور تنگ دستی ہے جس کی بنا پر انسان دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔
ایک تو یہ چیزیں بذات خود اس آدمی کے لیے باعث آزمائش ہیں جو ان میں مبتلا ہوتا ہے۔ یا تو وہ صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے ، یا بے صبری اور عدم برداشت کا۔ دوسرا ،معاشرے کے افراد کی بھی آزمائش ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔ ان کا خیال رکھتے ہیں یا خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے نادار لوگوں سے کیسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ، کیا ہم کمزور افراد کو اپنے خاندان اور معاشرے کا فرد سمجھتے ہوئے ، ان سے حسن سلوک سے پیش آتے ہیں کہ ان سے نفرت اور بے تعلقی کا رویہ اختیار کرتے ہیں ، ہر صاحب ایمان خود کا محاسبہ کرے ،
جدید تہذیب و الحاد کے حاملین کیونکہ خالق وآخرت اور وحی ودین کے منکر ہیں ، اس لیے ان کے ہاں معاشرے کے کمزور افراد کی خیر خواہی کے حوالے سے وہ تصور نہیں ہے ، جو اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تعلیم کیا ہے ، مسلمانوں اور مذہب بیزاروں کے اخلاق و کردار اور عادات و اطوار میں بالکل مماثلت نہیں ہے ، عصر حاضر میں اس حقیقت کا فہم و ادراک انتہائی ضروری ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ،(حصہ:1، معاشی ومعاشرتی اونچ نیچ کی حکمت)
دین اسلام واحد وہ دین ہے جس میں روحانی ،سماجی اور سیاسی امور کے بارے میں تمام طرح کی کامل رہنمائی موجود ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے ہاں عہدہ، منصب اور جاہ و جلال کی کوئی اہمیت نہیں، اس کے نزدیک اہمیت صرف اور صرف خلوص و تقویٰ پر مبنی نیک اعمال کی ہے۔
باقی رہا لوگوں کا کسی بھی اعتبار سے ظاہری و مادی فرق تو یہ آزمائش کی حکمت کے تحت ہے جس کی وضاحت اﷲ تعالیٰ نے یوں فرمائی ہے:( وَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰۤئِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰـکُمْ )(الانعام:165/6)''وہی اللہ ہے جس نے تمھیں زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجے دیے، تاکہ اس نے جو کچھ بھی تمھیں دیا ہے، اس میں تمھاری آزمائش کرے۔''
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کہ انسان کی کئی امور میں آزمائش ہوتی ہے۔ انھی امور میں سے ایک یتیمی اور تنگ دستی ہے جس کی بنا پر انسان دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔
ایک تو یہ چیزیں بذات خود اس آدمی کے لیے باعث آزمائش ہیں جو ان میں مبتلا ہوتا ہے۔ یا تو وہ صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتا ہے ، یا بے صبری اور عدم برداشت کا۔ دوسرا ،معاشرے کے افراد کی بھی آزمائش ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں۔ ان کا خیال رکھتے ہیں یا خود غرضی کا شکار ہوتے ہیں؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے نادار لوگوں سے کیسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے ، کیا ہم کمزور افراد کو اپنے خاندان اور معاشرے کا فرد سمجھتے ہوئے ، ان سے حسن سلوک سے پیش آتے ہیں کہ ان سے نفرت اور بے تعلقی کا رویہ اختیار کرتے ہیں ، ہر صاحب ایمان خود کا محاسبہ کرے ،
جدید تہذیب و الحاد کے حاملین کیونکہ خالق وآخرت اور وحی ودین کے منکر ہیں ، اس لیے ان کے ہاں معاشرے کے کمزور افراد کی خیر خواہی کے حوالے سے وہ تصور نہیں ہے ، جو اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تعلیم کیا ہے ، مسلمانوں اور مذہب بیزاروں کے اخلاق و کردار اور عادات و اطوار میں بالکل مماثلت نہیں ہے ، عصر حاضر میں اس حقیقت کا فہم و ادراک انتہائی ضروری ہے