- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:2 ، یتیم اور سائل کا مفہوم ومطلب)
یتیم کے لغوی معنی ہیں: تنہا رہ جانا۔ اصطلاحی طور پر اس بچے کو یتیم کہتے ہیں جس کے جوان ہونے سے پہلے اس کا والد فوت ہو جائے۔امام جرجانی رقمطراز ہیں: یتیم وہ بچہ ہے جس کا باپ فوت ہوگیا ہو، کیونکہ اس کے نان و نفقہ کا ذمہ دار اس کا باپ ہی تھا نہ کہ والدہ۔ جبکہ جانوروں میں یتیم وہ ہوتا ہے جس کی ماں ساتھ چھوڑ جائے، کیونکہ جانوروں کے بچوں کا انحصار ماں کے دودھ اور اس کے خوراک مہیا کرنے پر ہوتا ہے۔(الجرجانی، التعریفات،ص:٢٥٨)
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا:( اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی )(الضحیٰ:6/93)''کیا اس نے آپ کو یتیمی میں ٹھکانا نصیب نہیں کیا؟''
حالتِ یتیمی بالغ ہونے تک رہتی ہے۔ بلوغت کے بعد حالت یتیمی کا اطلاق ختم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((لَا یُتْمَ بَعْدَ احْتِلَامٍ ))(سنن أبی داود:٢٨٧٣ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٣١٨٠) ''بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہوتی۔''
اگرچہ ماقبل کے لحاظ سے بلوغت کے بعد بھی یتیم کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسے فرمان الٰہی ہے:( وَاٰتُوا الْیَتٰمٰۤی اَمْوَالَھُمْ )(النساء:2/4)''یتیموں کو ان کا مال دے دو۔''
سورت نساء کی آیت:٦ میں یتیموں کو ان کا مال ان کے سن ِ شعور کو پہنچنے پر دینے کی ہدایت ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ آیت میں لفظ یتیم سابقہ حالت کے لحاظ سے استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح حدیث مبارکہ ہے:(( تُسْتَأْمَرُ الْیَتِیْمَۃُ فِی نَفْسِہَا ))(سنن أبی داود:٢٠٩٣ و الألبانی، إرواء الغلیل:١٨٣٤)''یتیم لڑکی کی شادی کرتے وقت اس سے مشاورت کر لینی چاہیے۔''
اس حدیث مبارکہ میں شادی کے قابل عورت کے لیے لفظ ''یتیمہ'' استعمال ہوا ہے۔ اس کی شرح میں امام مناوی لکھتے ہیں: ویسے تو یتیمہ اس چھوٹی بچی کو کہتے ہیں جس کا باپ نہ ہو ، لیکن یہاں اس سے مراد بلوغت کو پہنچنے والی دوشیزہ ہے، جسے پہلے کی عمر کا اعتبار کرتے ہوئے یتیمہ کہہ دیا گیا ہے،(المناوی، فیض القدیر:7/4)
سورۃ الضحیٰ میں کہا گیا ہے: ''آپ یتیم پر سختی نہ کریں اور سائل کو نہ جھڑکیں۔'' (الضحیٰ: ٩٣/ ٩،١٠) سائل سوال کرنے والے کو کہتے ہیں۔ اس سے ہر طرح کے سائل مراد ہیں، چاہے وہ یتیم ہوں، مسکین ہوں، ضرورت مند ہوں یا مالدار۔
اسی طرح طلب علم، حصول فیض اور کسب ہنر کی غرض سے پوچھنے اور سوال کرنے والے پر بھی لفظ ''سائل ''کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یتیم کی مناسبت سے صرف مادی منفعت کے لیے کسی سے سوال کرنے والا ہی مراد ہے۔ عموماً اردو زبان میں لفظ سائل گداگر اور بھکاری کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں بھی یہی مقصود ہے۔ یتیم کی طرح سائل کی بھی کوئی حد بندی نہیں۔
پیغبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تمام افراد معاشرہ کے متعلق تفصیلی اور مثالی ہدایات دی ہیں ، ان نبوی تعلیمات کو فکری و عملی طور قبول کرنے میں ہی سعادت دارین مضمر ہے ، یتیم اور سوالی کے بارے میں رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمودات کی کامل صورت میں تعمیل سے ، معاشرے کا کوئی فرد بھی بے توقیر نہ ہو ، بلکہ اسلامی معاشرہ اخوت ومحبت اور ہمدردی و خیرخواہی کا گہوارہ ہو ،
مذہب بیزار جدید تہذیب والحاد نے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ، آخرت سے غافل ہر انسان ہر سطح پر اپنا ذاتی مفاد دیکھتا ہے ، معاشرے کے نادار اور کمزور افراد اخلاقی اور مالکی نصرت و حمایت کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے ، لوگوں میں باہمی اخوت و بھائی چارگی ، ہمدردی وخیر خواہی اور نصرت و معاونت رخصت ہوتا جا رہا ہے ، معاشرے کے کمزور اور نادار افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ،
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد (حصہ:2 ، یتیم اور سائل کا مفہوم ومطلب)
یتیم کے لغوی معنی ہیں: تنہا رہ جانا۔ اصطلاحی طور پر اس بچے کو یتیم کہتے ہیں جس کے جوان ہونے سے پہلے اس کا والد فوت ہو جائے۔امام جرجانی رقمطراز ہیں: یتیم وہ بچہ ہے جس کا باپ فوت ہوگیا ہو، کیونکہ اس کے نان و نفقہ کا ذمہ دار اس کا باپ ہی تھا نہ کہ والدہ۔ جبکہ جانوروں میں یتیم وہ ہوتا ہے جس کی ماں ساتھ چھوڑ جائے، کیونکہ جانوروں کے بچوں کا انحصار ماں کے دودھ اور اس کے خوراک مہیا کرنے پر ہوتا ہے۔(الجرجانی، التعریفات،ص:٢٥٨)
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا:( اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی )(الضحیٰ:6/93)''کیا اس نے آپ کو یتیمی میں ٹھکانا نصیب نہیں کیا؟''
حالتِ یتیمی بالغ ہونے تک رہتی ہے۔ بلوغت کے بعد حالت یتیمی کا اطلاق ختم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((لَا یُتْمَ بَعْدَ احْتِلَامٍ ))(سنن أبی داود:٢٨٧٣ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٣١٨٠) ''بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہوتی۔''
اگرچہ ماقبل کے لحاظ سے بلوغت کے بعد بھی یتیم کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسے فرمان الٰہی ہے:( وَاٰتُوا الْیَتٰمٰۤی اَمْوَالَھُمْ )(النساء:2/4)''یتیموں کو ان کا مال دے دو۔''
سورت نساء کی آیت:٦ میں یتیموں کو ان کا مال ان کے سن ِ شعور کو پہنچنے پر دینے کی ہدایت ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ آیت میں لفظ یتیم سابقہ حالت کے لحاظ سے استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح حدیث مبارکہ ہے:(( تُسْتَأْمَرُ الْیَتِیْمَۃُ فِی نَفْسِہَا ))(سنن أبی داود:٢٠٩٣ و الألبانی، إرواء الغلیل:١٨٣٤)''یتیم لڑکی کی شادی کرتے وقت اس سے مشاورت کر لینی چاہیے۔''
اس حدیث مبارکہ میں شادی کے قابل عورت کے لیے لفظ ''یتیمہ'' استعمال ہوا ہے۔ اس کی شرح میں امام مناوی لکھتے ہیں: ویسے تو یتیمہ اس چھوٹی بچی کو کہتے ہیں جس کا باپ نہ ہو ، لیکن یہاں اس سے مراد بلوغت کو پہنچنے والی دوشیزہ ہے، جسے پہلے کی عمر کا اعتبار کرتے ہوئے یتیمہ کہہ دیا گیا ہے،(المناوی، فیض القدیر:7/4)
سورۃ الضحیٰ میں کہا گیا ہے: ''آپ یتیم پر سختی نہ کریں اور سائل کو نہ جھڑکیں۔'' (الضحیٰ: ٩٣/ ٩،١٠) سائل سوال کرنے والے کو کہتے ہیں۔ اس سے ہر طرح کے سائل مراد ہیں، چاہے وہ یتیم ہوں، مسکین ہوں، ضرورت مند ہوں یا مالدار۔
اسی طرح طلب علم، حصول فیض اور کسب ہنر کی غرض سے پوچھنے اور سوال کرنے والے پر بھی لفظ ''سائل ''کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یتیم کی مناسبت سے صرف مادی منفعت کے لیے کسی سے سوال کرنے والا ہی مراد ہے۔ عموماً اردو زبان میں لفظ سائل گداگر اور بھکاری کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں بھی یہی مقصود ہے۔ یتیم کی طرح سائل کی بھی کوئی حد بندی نہیں۔
پیغبر اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے تمام افراد معاشرہ کے متعلق تفصیلی اور مثالی ہدایات دی ہیں ، ان نبوی تعلیمات کو فکری و عملی طور قبول کرنے میں ہی سعادت دارین مضمر ہے ، یتیم اور سوالی کے بارے میں رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرمودات کی کامل صورت میں تعمیل سے ، معاشرے کا کوئی فرد بھی بے توقیر نہ ہو ، بلکہ اسلامی معاشرہ اخوت ومحبت اور ہمدردی و خیرخواہی کا گہوارہ ہو ،
مذہب بیزار جدید تہذیب والحاد نے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ، آخرت سے غافل ہر انسان ہر سطح پر اپنا ذاتی مفاد دیکھتا ہے ، معاشرے کے نادار اور کمزور افراد اخلاقی اور مالکی نصرت و حمایت کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے ، لوگوں میں باہمی اخوت و بھائی چارگی ، ہمدردی وخیر خواہی اور نصرت و معاونت رخصت ہوتا جا رہا ہے ، معاشرے کے کمزور اور نادار افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ،