- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی خصوصیات ))
حافظ محمد فیاض الیاس الأثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662
شفاعت نبوی اور شفاعت کے حقدار کون ؟
روز قیامت شفاعت کبریٰ بھی رسول مقبول ﷺ ہی کی خصوصیت ہے ، جس کے بارے میں آپ نے فرمایا:(( وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَۃَ )) (صحیح البخاری:٤٣٨ و صحیح مسلم:٥٢١) ''مجھے حق شفاعت بھی عطا کیا گیا ہے۔''
روزِ قیامت تمام نوع انسانی ایک ہی جگہ اکٹھی ہو گی۔ لوگ شدید پریشانی اور تکلیف و الم میں مبتلا ہوں گے۔ اس سے چھٹکارے کے لیے لوگ باری باری حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰo کے ہاں جائیں گے اور دربار الٰہی میں سفارش کے لیے ان سے درخواست کریں گے،
لیکن تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنا اپنا عذر بیان کر کے معذرت کر لیں گے۔ پھر لوگ امام الانبیاء ﷺ کے ہاں آئیں گے۔آپ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ اس کے بعد آپ کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔ آپ اپنی امت کی بخشش کی درخواست کریں گے۔ (صحیح البخاری:٤٧١٢ و صحیح مسلم:١٩٣)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہر پیغمبر کی ایک مقبول دعا تھی۔ میری مقبول دعا روز قیامت اپنی امت کے حق میں شفاعت ہو گی۔'' (صحیح البخاری:٦٣٠٥ و صحیح مسلم:١٩٨)
آپ نے یہ بھی فرمایا:(( أَنَا أَوَّلُ شَفِیْعٍ فِی الْجَنَّۃِ )) (صحیح مسلم:١٩٦ ) ''جنت کے متعلق سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا۔''
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور اولین شفاعت میری قبول ہوگی۔''(صحیح مسلم:٢٢٧٨ و سنن أبی داود:٤٦٧٣)
اس شفاعت کبریٰ کے علاوہ بھی کئی سعادت مندوں کے حق میں نبی کریم ﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور انھیں جنت نصیب ہو گی، جیسے مدینہ کے سخت حالات پر صبر کرنے والے کو آپ نے اپنی شفاعت نصیب ہونے کی بشارت دی۔(صحیح مسلم:١٣٧٧ و سنن الترمذی:٣٩١٨)
صدق دل سے ''لا الٰہ الااﷲ'' کا اقرار کرنے والے کو بھی آپ نے اپنی شفاعت کی نوید سنائی ہے ۔ (صحیح البخاری:٩٩)
رسولِ اکرم ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے کثیر لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ذ(صحیح البخاری:٦٥٦٦ و سنن أبی داود:٤٧٤٠)
اذان کے بعد ''اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃ۔۔۔۔۔۔'' دعا پڑھنے والے کو بھی آپ کی شفاعت کی بشارت سنائی گئی ہے،(صحیح البخاری:٦١٤ و سنن الترمذی:٢١١)
آپ کی شفاعت ہی کی وجہ سے آپ کے چچا ابو طالب کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔(صحیح البخاری:٦٥٦٤ وصحیح مسلم:٢١٠)
خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جنھیں روز قیامت نبی اکرم ﷺ کی شفاعت نصیب ہو گی، لیکن یہ سب اﷲ عزوجل کی اجازت سے ہو گا۔ آپ اسی کے حق میں سفارش کریں گے جس کے متعلق اجازت دی جائے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:( مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ، اِلَّا بِاِذْنِہٖ ) ( البقرہ:255/2)''کوئی نہیں جو اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے۔''
رب العالمین اہل اسلام کو ایسا ایمان اور عمل وکردار نصیب فرمائے کہ وہ روز قیامت حبیب کبریا ﷺ کی شفاعت و رفاقت کے حقدار قرار پائیں،لیکن عصر حاضر میں بالعموم مسلمانوں کا طرزِ فکر وعمل کسی اور چیز کی گواہی دیتا دکھائی دیتا ہے ،
مزہب بیزاری کے موجودہ دور میں اکثر مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسوہ نبوی کی اتباع کرتے نظر نہیں آتے ، بیشتر اہل اسلام کے معاشی و معاشرتی اور سیاسی معاملات محمد عربی ﷺ کی تابعداری سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں،
تو کیا ایسے میں روز قیامت شفاعت نبوی ﷺ کی امید خود کو دھوکا دینے کے مترادف نہیں؟!!
حافظ محمد فیاض الیاس الأثری دارالمعارف لاہور:0306:4436662
شفاعت نبوی اور شفاعت کے حقدار کون ؟
روز قیامت شفاعت کبریٰ بھی رسول مقبول ﷺ ہی کی خصوصیت ہے ، جس کے بارے میں آپ نے فرمایا:(( وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَۃَ )) (صحیح البخاری:٤٣٨ و صحیح مسلم:٥٢١) ''مجھے حق شفاعت بھی عطا کیا گیا ہے۔''
روزِ قیامت تمام نوع انسانی ایک ہی جگہ اکٹھی ہو گی۔ لوگ شدید پریشانی اور تکلیف و الم میں مبتلا ہوں گے۔ اس سے چھٹکارے کے لیے لوگ باری باری حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰo کے ہاں جائیں گے اور دربار الٰہی میں سفارش کے لیے ان سے درخواست کریں گے،
لیکن تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنا اپنا عذر بیان کر کے معذرت کر لیں گے۔ پھر لوگ امام الانبیاء ﷺ کے ہاں آئیں گے۔آپ اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں گے۔ اس کے بعد آپ کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔ آپ اپنی امت کی بخشش کی درخواست کریں گے۔ (صحیح البخاری:٤٧١٢ و صحیح مسلم:١٩٣)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہر پیغمبر کی ایک مقبول دعا تھی۔ میری مقبول دعا روز قیامت اپنی امت کے حق میں شفاعت ہو گی۔'' (صحیح البخاری:٦٣٠٥ و صحیح مسلم:١٩٨)
آپ نے یہ بھی فرمایا:(( أَنَا أَوَّلُ شَفِیْعٍ فِی الْجَنَّۃِ )) (صحیح مسلم:١٩٦ ) ''جنت کے متعلق سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا۔''
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور اولین شفاعت میری قبول ہوگی۔''(صحیح مسلم:٢٢٧٨ و سنن أبی داود:٤٦٧٣)
اس شفاعت کبریٰ کے علاوہ بھی کئی سعادت مندوں کے حق میں نبی کریم ﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور انھیں جنت نصیب ہو گی، جیسے مدینہ کے سخت حالات پر صبر کرنے والے کو آپ نے اپنی شفاعت نصیب ہونے کی بشارت دی۔(صحیح مسلم:١٣٧٧ و سنن الترمذی:٣٩١٨)
صدق دل سے ''لا الٰہ الااﷲ'' کا اقرار کرنے والے کو بھی آپ نے اپنی شفاعت کی نوید سنائی ہے ۔ (صحیح البخاری:٩٩)
رسولِ اکرم ﷺ کی شفاعت کی وجہ سے کثیر لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ذ(صحیح البخاری:٦٥٦٦ و سنن أبی داود:٤٧٤٠)
اذان کے بعد ''اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃ۔۔۔۔۔۔'' دعا پڑھنے والے کو بھی آپ کی شفاعت کی بشارت سنائی گئی ہے،(صحیح البخاری:٦١٤ و سنن الترمذی:٢١١)
آپ کی شفاعت ہی کی وجہ سے آپ کے چچا ابو طالب کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔(صحیح البخاری:٦٥٦٤ وصحیح مسلم:٢١٠)
خوش نصیب ہوں گے وہ لوگ جنھیں روز قیامت نبی اکرم ﷺ کی شفاعت نصیب ہو گی، لیکن یہ سب اﷲ عزوجل کی اجازت سے ہو گا۔ آپ اسی کے حق میں سفارش کریں گے جس کے متعلق اجازت دی جائے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:( مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہ، اِلَّا بِاِذْنِہٖ ) ( البقرہ:255/2)''کوئی نہیں جو اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے۔''
رب العالمین اہل اسلام کو ایسا ایمان اور عمل وکردار نصیب فرمائے کہ وہ روز قیامت حبیب کبریا ﷺ کی شفاعت و رفاقت کے حقدار قرار پائیں،لیکن عصر حاضر میں بالعموم مسلمانوں کا طرزِ فکر وعمل کسی اور چیز کی گواہی دیتا دکھائی دیتا ہے ،
مزہب بیزاری کے موجودہ دور میں اکثر مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسوہ نبوی کی اتباع کرتے نظر نہیں آتے ، بیشتر اہل اسلام کے معاشی و معاشرتی اور سیاسی معاملات محمد عربی ﷺ کی تابعداری سے بے نیاز دکھائی دیتے ہیں،
تو کیا ایسے میں روز قیامت شفاعت نبوی ﷺ کی امید خود کو دھوکا دینے کے مترادف نہیں؟!!