• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:51)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل((سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد )) (حصہ:4،سائل و یتیم شریعت کی نظر میں )

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

سائل ویتیم سے حسن سلوک ، نبوی اسوہ اور جدید تہذیب والحاد ،(حصہ:4،سائل و یتیم شریعت کی نظر میں)

♻کسی کا یتیم ہونا ﷲ کے حکم سے ہے۔ اس میں انسان کا ذاتی عمل دخل بالکل نہیں ہوتا، اس لیے شریعت کی نظر میں یتیمی قابل ملامت و نفرت نہیں،جبکہ مانگنا انسان کا اختیاری عمل ہے، اس لیے قابل نفرت ہے، اگرچہ شریعت اسلامیہ میں اس کی ایک حد تک اجازت ہے۔ سائل یتیم بھی ہوسکتا ہے اور مسکین بھی، فقیر بھی ہو سکتا ہے اور مالدار بھی۔

♻ مختلف ضرورت مند افراد کو شریعت اسلامیہ نے ایک حد تک سوال کرنے کی اجازت دی ہے۔آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں تین طرح کے افراد کو مانگنے کی اجازت دی۔ وہ یہ ہیں:

♻ ١۔ جس آدمی نے ثالثی کے طور پر کسی بڑی ادائیگی کی ذمہ داری لی ہو، اصل رقم کی ادائیگی تک اس کے لیے سوال کرنا حلال ہے۔

♻ ٢۔ جس کا کسی مصیبت اور آفت کی وجہ سے سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا، گزران زندگی سنبھلنے تک اس کے لیے سوال کرنا حلال ہے۔

♻ ٣۔ تیسرا وہ آدمی ہے جو فقروفاقہ میں مبتلا ہو جائے اور اس کی قوم کے باشعور تین افراد اس کے مبتلائے فاقہ ہونے کی گواہی دیں، بقدر ضرورت و حاجت معاشی بحالی تک سوال کرنا اس کے لیے بھی حلال ہے،(صحیح مسلم:١٠٤٤)

♻ گداگری اور طفیلی پن کی شریعت اسلامیہ میں شدید مذمت وارد ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو آدمی اپنے پاس بقدر کفایت مال و متاع ہونے کے باوجود لوگوں سے مانگتا ہے، روز قیامت جب وہ آدمی آئے گا تو مانگنے کی وجہ سے اس کا چہرہ نوچا ہوا ہو گا۔''

♻ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! بقدر کفایت کتنا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا:(( خَمْسُونَ دِرْہَمًا، أَوْ قِیمَتُہَا مِنَ الذَّہَبِ))(سنن ابن ماجہ:١٨٤٠ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٤٩٩) ''پچاس درہم یا ان کے برابر سونا۔''

♻ علامہ سندی رحمہ اللّٰہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: پچاس(٥٠) درہم کی موجودگی میں اس حدیث میں سوال کرنے سے روکا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے سوال کرنا حلال نہیں ہے ، لیکن اگر سوال کیے بغیر اس پر صدقہ کر دیا جائے تو اہل علم نے اسے لینا جائز قرار دیا ہے۔(أحمد بن حنبل، المسند:٤٤٤٠ حاشیہ)

♻ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو آدمی صرف مال جمع کرنے کی غرض سے لوگوں سے مانگتا ہے ، وہ جہنم کا انگارہ اپنے لیے مانگ رہا ہے، اب اس کی مرضی ہے زیادہ مانگے یا کم۔''(صحیح مسلم:١٠٤١ و سنن ابن ماجہ:١٨٣٨)

♻ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو آدمی لوگوں سے مسلسل مانگتا رہتا ہے، روز قیامت جب وہ آئے گا ، تو اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہو گا۔''(صحیح البخاری:١٤٧٤وصحیح مسلم:١٠٤٠)

♻ ضرورت و حاجت کے وقت بھی اسلام نے مانگنے کے بجائے محنت و مشقت کی ترغیب دی ہے۔ آپ کا فرمان ہے: ''آدمی کا لکڑی کاٹ کر بیچنا، اس سے حاصل ہونے والی رقم سے صدقہ کرنا اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے خود کو بچاکر رکھنا کہیں بہتر ہے، بجائے اس کے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، کوئی اسے دے یا نہ دے۔ بلاشبہ! اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔''(صحیح مسلم:١٠٤٢وأحمد بن حنبل،المسند:٩١٣٤)

♻آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ افضل ترین ذریعہ آمدن کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''حلال کاروبار اور آدمی کا خود سے محنت کرکے کمانا۔'' دوسری حدیث میں ''افضل'' کے بجائے ''اطیب'' کے الفاظ ہیں۔(أحمد بن حنبل، المسند:١٥٨٣٦،١٧٢٦٥ و الطبرانی، المعجم الکبیر:٤٤١١) اس کا مطلب ہے کہ حلال خرید و فروخت اور اپنے ہاتھوں سے محنت کرنا افضل ترین اور پاکیزہ ترین ذریعہ آمدنی ہے نہ کہ گدا گری کے ذریعے حاصل ہونے والا مال۔

♻ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے محنت مزدوری سے کما کر خرچ کرنے کو افضل صدقہ قرار دیا اگرچہ قلیل ہو۔(سنن أبی داود:١٤٤٩ و سنن النسائی:٢٥٢٦) محنت مشقت کی کمائی سے خرچ کرنا خلوص سے بھرپور ہوتا ہے ،

♻ ایک روز آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم اپنے چند اصحاب میں تشریف فرما تھے، آپ نے بار بار فرمایا: ''کیا تم ﷲ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟'' صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم تو آپ سے بیعت کر چکے ہیں۔ تیسری بار یہی بات دہرانے پر صحابہ کرام نے اپنے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم کس چیز پر آپ کی بیعت کریں؟

♻ آپ نے فرمایا: ''تم صرف اللہ کی عبادت کرو گے، اس کے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کرو گے، پانچ نمازوں کی پابندی کرو گے اور میری اطاعت کرو گے۔'' آخر میں آپ نے آہستگی سے فرمایا: ''لوگوں سے کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہ کروگے۔'' چنانچہ اس وقت جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی، ان میں سے بعض نے تو آپ کے اس فرمان کی اس قدر پاسداری کی کہ اپنا گرا ہوا کوڑا بھی کسی کو پکڑنے کا نہ کہتے تھے،(صحیح مسلم:١٠٤٣ و سنن أبی داود:١٦٤٢)

♻ ان فرامین نبویہ سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اگرچہ بامر مجبوری مانگنے کی اجازت دی ہے، لیکن کسی طور پر بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی، بلکہ نامساعد حالات میں بھی گداگری سے بچنے ہی کی تلقین کی ہے۔ طفیلی پن اور گداگری کا رستہ اختیار کرنے کی صرف مذمت اور حوصلہ شکنی ہی نہیں کی، بلکہ اسے بطور پیشہ اختیار کرنے والے کو سخت وعید بھی سنائی ہے۔

♻ عصر حاضر میں مسلمانوں کا اپنے پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے فکری و عملی تعلق انتہائی کمزور ہوتا جا رہا ہے ، نہ تو معاشرے کے کمزور افراد اور سائل و یتیم میں عام طور پر ایمانی غیرت و حمیت اور خودداری دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی صاحب حیثیت افراد میں دوسروں کی نصرت و معاونت کے حوالے سے قرون اولیٰ کے جذبات دکھائی دیتے ہیں ، ہر ایک کو اپنے مفادات عزیز ہیں ، گداگری ایک پیشہ بن چکا ہے اور کثرت مال و منال مقصد حیات تصور کیا جانے لگا ہے ،

♻مذہب بیزار جدید فکر وتہذیب کے باعث معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا جارہاہے۔سرمایہ دار لوگوں کی الگ سوسائٹیاں اور کمزور افراد کی الگ کالونیاں۔کمزوروں میں ان کا تعاون کرنے والے موجود نہیں اور صاحب حیثیت لوگوں میں کسی ضرورت مند کا وجود نہیں۔یہ جدید تہذیب والحاد کے نوآبادیاتی منصوبے کے بھیانک اثرات میں سے ادنی سے جھلک ہے۔یہ سب کچھ عالمی استعماری طاقتوں کی طرف سے ایک خاص منصوبے کے تحت کیا جارہاہے،ناکہ خود سے ہو رہے۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے ہی بالکل نابلد ہیں ،
 
Top