• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:6)امام الھدی ﷺ کی عادات و خصائل ((اوروں کا بوجھ اُٹھانا ، اسوہ نبوی اور جدید تہذیب))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))

اوروں کا بوجھ اُٹھانا ، اسوہ نبوی اور جدید تہذیب

♻ دوسروں کا بوجھ اُٹھانے سے مراد لوگوں سے تعاون کرناہے۔ یہ اچھی خصلت بھی آنحضرت ﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ بعثت سے قبل آپ نے بیرون ملک تجارتی سفر کیے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر آپ شام بھی گئے تھے۔ اس کا مقصد سردار ابوطالب کی معاونت تھی، کیونکہ وہ کثیر العیال تھے اور آپ کی کفالت بھی انھوں نے کی تھی۔

♻ رسول اکرم ﷺ کے چچا جان سردار ابوطالب نے آپ سے کہا: اے میرے بھتیجے! میرے پاس مال و متاع نہیں، گزران زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ کیا آپ خدیجہ کا سامانِ تجارت لے کر شام جانے پر راضی ہیں؟ آپ نے اظہارِ آمادگی فرمایا، پھر حضرت خدیجہ سے بات کی گئی تو انھوں نے بھی آمادگی ظاہر کی۔ اس سفر میں آپ کو کثیر نفع ملا جو ابوطالب کا بوجھ ہلکا کرنے میں معاون ثابت ہوا۔ (أبو نعیم،دلائل النبوہ،ص:٩٩وابن ہشام، السیرۃ النبویہ:188/1)

♻ رسول مکرم ﷺ نے بذریعہ تجارت اپنے چچا جان کا معاشی بوجھ ہی ہلکا نہیں کیا ، بلکہ کہ بصورت نگہداشت ان کے احسان کا بدلہ بھی چکایا، تجارت سے پہلے نبی کریم ﷺ نے گلہ بانی کے ذریعے بھی اپنے چچا ابو طالب کی معاونت کی تھی اور ان کا بوجھ ہلکا کیا ،

♻ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لیا، آپ کے یہ حسن عمل وکردار بھی ابو طالب کا معاشی بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے تھا۔ آپ ہی کی درخواست پر جناب عقیل کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی کفالت میں لیا ،

♻ رسول مکرم ﷺ نے ابوطالب کا صرف بوجھ ہی ہلکا نہیں کیا ، بلکہ انھوں نے جو آپ کی کفالت کی تھی، آپ نے حضرت علی کی کفالت کرکے چچا کے احسان کا بدلہ بھی چکا دیا۔ مزید برآں آپ نے صرف کفالت ہی نہ کی بلکہ حضرت علی کی اچھی تربیت بھی فرمائی اور انھیں دامادی کے شرف سے بھی نوازا۔

♻ دور جاہلیت میں خانہ کعبہ کی تعمیر نو میں نبی کریم ﷺ نے بھر پور کردار ادا کیا۔ دیگر افراد کی طرح آپ نے بھی اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ آپ اپنے مبارک کندھوں پر پتھر اُٹھاکر لاتے رہے۔ (ابن کثیر، السیرۃ النبویہ:251/1و ابن ہشام، السیرۃ النبویہ:183/1) پھر آپ نے حجر ِ اَسود نصب کرنے کا جھگڑا بھی چکا دیا۔

♻ اسی طرح مسجد قباء اور مسجد نبوی کی تعمیر اور غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی میں بھرپور تعاون فرمایا۔ ایسے پُر مشقت امور میں بنفس نفیس شرکت کر کے اہل ایمان کے جذبات کو گرمایا اور معاونت سے ان کا بوجھ بھی ہلکا کیا۔

♻اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہی خوبی بیان کرتے ہوئے فرمایا:((وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ)) (الاعراف:157/7) ''آپ لوگوں پر سے ان کا بوجھ اتارتے ہیں۔''

♻رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کی مدد فرماتے،نیز امور خانہ میں اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کا ہاتھ بٹاکر ان کا بوجھ ہلکا کیا کرتے تھے۔ اس کی گواہی خود ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا دیتی ہیں کہ آپ امور خانہ میں ہمارے ساتھ تعاون کیا کرتے تھے، لیکن جیسے ہی نماز کا وقت ہوتا، آپ فوراً نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔(صحیح البخاری:٦٧٦ و سنن الترمذی:٢٤٨٩)

♻حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہمیں سفر و حضر میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ ہمارے بیمار کی خبرگیری کے لیے تشریف لاتے، ہمارے جنازوں میں شرکت کیا کرتے، ہمارے ساتھ شریک جہاد ہوا کرتے اور ہمیں حاصل شدہ مال کے تناسب سے تھوڑے یا زیادہ مال و متاع سے بھی نوازا کرتے۔(أحمد بن حنبل،المسند:٥٠٤) آپ کے اس عمل مبارک سے اہل ایمان کا ذہنی ومعاشی بوجھ ہلکا ہوتا ،

♻آنحضرت ﷺ کی اختیار کردہ یہ تمام صورتیں امت کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے تھیں، وہ بوجھ چاہے مادی ہو یا روحانی۔ آپ کی تمام حیات طیبہ اوروں کا بوجھ ہلکا کرنے سے ہی تعبیر ہے،

♻ رسول رحمت ﷺ نے اپنی امت کو بھی باہمی تعاون کی تاکید کی، جیسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص اپنے کسی مومن بھائی کو دنیا کی کسی مصیبت و پریشانی سے بچاتا ہے، روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی ہولناکی سے محفوظ رکھے گا، جو کسی تنگ دست کے لیے آسانی کا سبب بنتا ہے، اللہ عزوجل دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کے عیوب چھپا کر رکھے گا۔''

♻ اسی حدیث مبارکہ میں آپ نے مومنانہ طرزِ عمل کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: (( وَاللّٰہُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیہِ )) (صحیح مسلم:٢٦٩٩ و سنن أبی داود:٤٩٤٦) ''اللہ تعالیٰ تب تک اپنے بندے کی نصرت و مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کا معین و مددگار بنا رہتا ہے۔''

♻ نبی کریم ﷺ نے اہل ایمان کی اس خوبی کو یوں بھی اجاگر کیا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈال کر فرمایا: (( اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بعْضُہ، بَعْضًا )) (صحیح البخاری:٢٤٤٦ و صحیح مسلم:٢٥٨٥) ''ایمان والے تو ایک دوسرے کے لیے عمارت کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔''

♻ مذہب بیزار جدید فکر وتہذیب انسانی خواہشات ، حرص وہوس ، ذاتی مفاد ، دنیا پرستی، شہرت وناموری اور خود غرضی پر مبنی ہے ، اس لیے اس سے باہمی نصرت و حمایت کا جذبہ مفقود ہو جاتا ہے ، اگر کسی طرح کا تعاون کیا بھی جاتا ہے تو مادی وسیاسی مفاد اور حصولِ شہرت کے لیے ، رضائے الٰہی اور اجر و ثواب کا تو ان کے ہاں تصور تک نہیں ہوتا ، کیونکہ ثواب وعقاب والی ذات الٰہی پر ان کا ایمان ہی نہیں ،

♻ جدید فکر وتہذیب کے اہل اسلام پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ، تمام منفی جذبات ان میں بھی پروان چڑھنے لگے ، انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر باہمی نصرت و حمایت کا جذبہ کمزور سے کمزور ہوتا جا رہا ہے، اسلامی اخوت و بھائی چارگی کے متعلق نبوی مثالی ہدایات پر فکری وعملی طور پر ایمان میں ملت اسلامیہ کی صورت حال لمحہ فکریہ ہے!

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
++++++++++++++++++++
 
Top