• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:6)سرور کونین ﷺ کا سراپا اقدس ( (نبی مکرم ﷺ کی زلفیں اور سر مبارک ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
سرور کونین ﷺ کا سراپا اقدس

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))

آنحضرت ﷺ کی زلفیں اور سر مبارک

♻ پہلے رسول اللہ ﷺ کی عمومی جسمانی صفات کا تذکرہ ہوا، جیسے رنگت، قد کاٹھ اور حسن و جمال۔ یہاں سے رسول اللہ ﷺ کے سراپائے اقدس کے مختلف گوشوں کے بارے میں الگ الگ معلومات درج کی جاتی ہیں، تاکہ آپ ﷺ کے حسن و جمال اور آپ کے کامل واکمل انسان ہونے کے متعلق خوب آگہی ہو۔

♻ رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک خوبصورت اور مناسب حد تک بڑا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں: ''ضَخْمُ الرَّأْسِ''(سنن الترمذی:٣٦٣٧) یعنی رسول ﷲﷺ کا سر مبارک بڑا مناسب تھا۔

♻ ایک حدیث میں آپ کی اس صفت کو ''عَظِیْمُ الرَّأْسِ'' کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح ''عَظِیْمَ اَلْھَامَۃِ''اور ''ضَخْمَ الْھَامَۃِ'' کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ ان چار طرح کے الفاظ کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان تمام کا ایک ہی مفہوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک خوبصورت اور مناسب حد تک بڑا تھا۔

♻حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایسے ہی الفاظ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہیں۔ یہی صفت رسول اللہ ﷺ نے حضرت الیاس علیہ السلام کی بیان فرمائی کہ ''ان کا سر قدرے بڑا تھا۔''(الحاکم، المستدرک:٤١٧٥)

♻جہاں تک نبی کریم ﷺ کے سر مبارک پر سجی زلفوں کاتعلق ہے تو وہ ریشمی لڑیوں کی مانند انتہائی خوبصورت تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کے بال نہ زیادہ گھنگریالے تھے اور نہ بالکل سیدھے۔(صحیح البخاری:٣٥٤٧)بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے بال قدرے گھنگھریالے تھے۔(سنن الترمذی:٣٦٣٨ )

♻ آپ ﷺ کے موئے مبارک انتہائی خوبصورت، گھنے، معطر اور کالے سیاہ تھے۔(صحیح مسلم:٣٢٩ و الصالحی، سبل الہدیٰ:٢/١٧ )کالے سیاہ بال خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب آپ کی خدمت میں انسانی صورت میں حاضر ہوئے تب ان کے بال بھی کالے سیاہ تھے۔ (صحیح مسلم:٨ و سنن أبی داود:٤٦٩٥)

♻ المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اﷲ ﷺ کے خوبصورت، ریشمی اور حسین بالوں کو الفاظ کی لڑی میں پروتی ہیں، بیان کرتی ہیں: آپ ﷺ کے بال مبارک خوبصورت تھے، نہ تو زیادہ پیچ دار تھے اور نہ بالکل سیدھے۔ جب آپ ﷺ بالوں میں کنگھی کیا کرتے تو یوں محسوس ہوتے جیسے ہوا چلنے سے ریت کے ٹیلے پر یا پانی کے تالاب پر ہلکی ہلکی لہریں نمودار ہوتی ہوں۔ کنگھی نہ کرنے کی صورت میں بال آپس میں مل کر یوں محسوس ہوتے جیسے انگوٹھی کی طرز کے حلقے ہوں۔(البیہقی ، دلائل النبوۃ:300/1)

♻ رسول اللہ ﷺ کے بال لمبے ہوا کرتے تھے۔ ان کی لمبائی کے بارے میں چار طرح کی روایات ہیں: نصف کانوں تک،(صحیح مسلم:٢٣٣٨) کانوں کی لو تک،(سنن أبی داود:٤١٨٥) کانوں اور کندھوں کے درمیان نصف گردن تک(صحیح البخاری:٥٩٠٥وصحیح مسلم:٢٣٣٨ا)اور کندھوں تک(سنن النسائی:٥٢٤٥ و أحمد بن حنبل، المسند:١٢٢٦٥)

♻ ان چار طرح کی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک چھوٹے سے چھوٹے نصف کانوں تک اور بڑے سے بڑے کندھوں تک ہوا کرتے تھے۔ عربی میں تین طرح کے لمبے بالوں کے لیے لمہ، جُمّہ اور وَفرہ تین الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے:''کَانَ شَعْرُ رَسُولِ اللّٰہِ فَوْقَ الْوَفْرَۃِ وَدُونَ الْجُمَّۃِ'' (سنن أبی داود:٤١٨٧)رسول اللہ ﷺ کے بال مبارک وفرہ سے بڑے اور جُمّہ سے چھوٹے ہوتے تھے۔

♻ ابن قیم رحمہ اللہ کے بقول رسول اللہﷺ نے زندگی بھر صرف چار بار اپنے مکمل بال منڈوائے ہیں۔(ابن القیم، زاد المعاد :167/1 )

♻ رسول اللہ ﷺ اپنے بالوں کا خاص خیال رکھا کرتے ، جس کے لیے آپ کنگھی کیا کرتے۔ بالوں کو خوب تیل لگایا کرتے اور خوشبو سے بھی معطر کر لیا کرتے تھے۔(صحیح البخاری:٢٠٢٨، ٥١٣٨ و سنن النسائی:٥١١٧)

♻ بالوں کو سنوار کر رکھنے کے متعلق آپ ﷺ کا فرمان بھی ہے:٫٫ إِنِ اتَّخَذْتَ شَعْرًا فَأَکْرِمْہ،،(الہندی، کنز العمال:١٧١٧٨ و الألبانی، السلسلۃ الصحیحہ:٢٢٥٢) ''اگر بال رکھنے ہیں تو ان کی دیکھ بھال بھی کیا کرو۔''

♻ رسول اللہ ﷺ اپنے بالوں کی چار مینڈھیاں بھی کرلیا کرتے اور بالوں کی حفاظت کی غرض سے لیس دار چیز سے سر پر لیپ کر لیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری:٥٩١٤ و سنن الترمذی:١٧٨١)

♻ مشرکین اپنے بالوں کی مانگ نکالا کرتے تھے ، جبکہ یہود بغیر مانگ نکالے اپنے بال یوں ہی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ چونکہ غیر منصوص امور میں اہل کتاب کی موافقت پسند کیا کرتے تھے، اس لیے آپ بھی پہلے مانگ نکالے بغیر ہی بال رہنے دیا کرتے، لیکن پھر اہل کتاب کی مخالفت کے طور پر مانگ نکالنا کرتے۔

♻ آپ سر کے درمیان سے مانگ نکالا کرتے تھے۔(صحیح البخاری:٣٩٤٤ و صحیح مسلم:١١٩٠، ٢٤٤٦ ) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کے مانگ نکالنے کی ایک وجہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کا آپ کی خدمت اقدس میں مانگ نکالے ہوئے حاضر ہونا ہے۔(البیہقی، دلائل النبوۃ:300/1)

♻ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ''یہود ونصاریٰ اپنے بال نہیں رنگتے اس لیے تم ان کی مخالفت میں بال رنگا کرو۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ اپنے چند بال سفید ہونے پر بھی انہیں رنگا کرتے تھے۔(صحیح مسلم:١٣٠٥ و سنن أبی داود:١٩٨١ و ابن حبان، الصحیح:٣٨٧٩)

♻ رسول اللہ ﷺ نے امور خیر میں دائیں جانب اختیار کرنے کی ﷺ بہت اہمیت بیان فرمائی ہے۔ آپ اپنے سر مبارک کے بال کٹواتے ہوئے بھی پہلے دائیں جانب کے بال کٹواتے ، پھر بائیں جانب کے۔ اس کے بعد کٹوائے ہوئے بال تبرک کے طور پر لوگوں میں تقسیم کر دیے جاتے۔(صحیح البخاری:٥٨٩٩ و سنن ابن ماجہ:٣٦٢٣ )

♻ سر کے بال اتنے خوبصورت ہونے کے باوجود رسول اللہ ﷺ اپنی زلفیں ڈھانپ کر رکھا کرتے تھے۔ آپ ﷺ سر مبارک پر عمامہ پہنے رکھتے۔ کبھی ٹوپی پر عمامہ پہن لیا کرتے اور بغیر ٹوپی کے بھی عمامہ باندھ لیا کرتے۔ اسی طرح بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی بھی پہن لیتے تھے۔(ابن القیم، زاد المعاد:130/1)

♻ رسول اللہ ﷺ کے اسی اہتمام کی وجہ سے شیخ البانی سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کو بہتر خیال کرتے ہیں اور عام حالات میں بھی سر ننگا رکھنے کو اغیار کی نقالی بتلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ سر ڈھانپ کر نماز ادا کرنے کا ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ اہل ایمان کو جوتے پہن کر نماز ادا کرنے کا حکم یہود کی مخالفت کی بنا پر ہے۔ جب مخالفت میں جوتا پہننے کا حکم ہے تو پھر عیسائیوں کی مخالفت میں سرڈھانپنے کا بالاولیٰ اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ ننگے سر عبادت کرنا عیسائیوں کا طریقہ ہے۔(الألبانی، تمام المنۃ،ص:١٦٤ و أصل صفۃ الصلاۃ:166،155/1)
 
Top