- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
(( رسول اللہ ﷺ کی عادات و خصائل ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
مہمان نوازی ، اسوہ نبوی اور جدید تہذیب
آنحضرت ﷺ میں دیگر عمدہ عادات و خصائل کے ساتھ ساتھ آپ میں مہمان نوازی کی خوبی بھی انتہا درجے کی تھی۔ احادیث وسیرت میں اس کی کثیر کثیر مثالیں موجود ہیں، آپ کی حیات طیبہ ہی دعوت واصلاح ، ہمدردی و خیرخواہی اور مہمان نوازی سے تعبیر ہے،
اس کی ایک چھوٹی سی مثال حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی ہے۔ انھیں حالتِ کفر میں قید کر کے مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔ دشمن ہونے کے باوجود آپ نے ان کی خوب خاطر تواضع کی۔ اپنے اہل خانہ سے فرمایا: ''تمھارے پاس جو کچھ کھانے کو ہے، وہ ثمامہ کو پہنچا دو۔'' مزید آپ نے دودھ دینے والی ایک بکری بھی مختص کی کہ ثمامہ کو صبح و شام اس کا دودھ پلایا جائے، (صحیح مسلم:١٧٦٤ و ابن ہشام، السیرۃ النبویہ:638/2)
نبی کریم ﷺ کے حُسنِ سلوک اور مہمانداری سے متاثر ہو کر اُنھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس واقعہ میں دعوت واصلاح کے حوالہ سے بہت مثالی رہنمائی موجود ہے ، جیسے: داعی کا حسن سلوک ، مخالف کی حسن خاطر مدارت ، مخالف کی کڑوی کسیلی بات پر صبر و برداشت ، مخاطب کو دعوت واصلاح کا اسلوب و انداز اور اصلاح ملت کے لیے داعی اعظم ﷺ کی فکر مندی ،
آنحضرت ﷺ کے ہاں ایک دفعہ مہمان آیا۔ اس کی ضیافت کے لیے آپ نے اپنی تمام ازواج کے ہاں پیغام بھیجا۔ لیکن سوائے پانی کے کہیں سے کھانے کی کوئی چیز نہ ملی۔ یہ دیکھ کر آپ نے صحابہ کو ترغیب دی ، تو سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ ان کے گھر میں صرف بچوں کے لیے کھانے کو کچھ تھا۔ وہ کھانا اس مہمان کے سامنے پیش کر دیا اور بچوں کو بہلا کر سلا دیا۔
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مہمان کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھے لیکن چراغ گل کرا دیا۔ ان کا خیال تھا کہ میرے نہ کھانے کا مہمان کو علم نہ ہو اور مہمان پیٹ بھر کر کھا لے۔ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کا یہ عمل اللہ عزوجل کو اس قدر پسند آیا کہ سیدنا ابو طلحہ کی مدح میں قرآن نازل فرما دیا۔ (صحیح البخاری:٣٧٩٨ و صحیح مسلم:٢٠٥٤ )
صحابی رسول حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اس مہمان نوازی کے موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت اتری:((وَ یُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ)) (الحشر:9/59) ''وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔''
مذکورہ واقعے میں نبی کریم ﷺ کی مہمان نوازی کا اس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے ہر ایک زوجہ محترمہ کے ہاں پیغام بھیجا۔ جب کچھ نہ میسر آیا تو صحابہ میں اعلان فرمایا:(( مَنْ یُضِیفُ ہَذَا اللَّیْلَۃَ، رَحِمَہُ اللّٰہُ )) (صحیح مسلم:٢٠٥٤) ''آج رات کون اس کی مہمان نوازی کرے گا۔ ﷲ اس پر رحم فرمائے۔''
آنحضرت ﷺ کے ہاں بکثرت وفود آیا کرتے تھے۔ آپ نے ان کی مہمان نوازی کے لیے حضرت بلال بن رباح رضی اللّٰہ عنہ کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ ان کی بہترین مہمان نوازی کیا کریں۔(ابن سعد،الطبقات الکبریٰ:323/1) وفود میں شامل افراد کو عام طور پر انعام واکرام سے بھی نوازا جاتا ،
رسول اکرم ﷺ مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان فرق کیے بغیر ، ہر ایک کی خوب مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ یہاں آپ کے دو فرامین نقل کیے جاتے ہیں جن میں آپ نے مہمان نوازی کا حکم دیا ہے:
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ''جو بھی اللہ عزوجل پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے اپنے مہمان کی خوب اہتمام سے خاطر تواضع کرنی چاہیے۔'' عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! خوب اہتمام سے مہمانی کتنے روز ہو؟ آپ نے فرمایا: ''ایک دن، ویسے مہمان نوازی تین دن ہے۔ اس کے بعد کی مہمان نوازی اہل خانہ کے لیے صدقہ شمار ہو گی۔ (صحیح مسلم:٤٥١٣/٤٨)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس کا اللہ عزوجل پر اور آخرت کے دن پر ایمان ہے، وہ اپنے مہمان کی عزت وتکریم کیاکرے۔'' (صحیح البخاری:٦٠١٨ وصحیح مسلم:٤٧)
مہمان نوازی کو نبوی ہدایات میں ممتاز اہمیت حاصل ہے ، اسلامی تعلیمات میں مہمان کی خاطر مدارت کی بہت تاکید کی گئی ، قرآن کریم میں مہمان نوازی کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اور سورت کہف میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا واقعہ اس حوالے سے خاص اہمیت کے حامل ہیں ،
مہمان نوازی اسلامی تہذیب ومعاشرے کا امتیازی مثالی وصف ہے ، مہمان نوازی کے کثیر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جیسے باہمی اخوت و بھائی چارگی کی آبیاری ، رشتہ داری اور تعلق داری کی مضبوطی ، اسلامی اقدار وروایات کا اظہار ، باہمی ہمدردی و خیرخواہی کا شاندار مظاہرہ، مصائب و مشکلات بانٹنے کا ذریعہ ، سب سے بڑھ کر یہ کہ رضائے الٰہی اور اجر و ثواب کا حصول ، اسی لیے مہمان نوازی کو رب العالمین اور روز آخرت پر ایمان کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،
جدید فکر وتہذیب کیونکہ خالق و دین اور روز آخرت ہی کی منکر ہے، اس لیے ان کے ہاں مہمان نوازی کسی دنیاوی مقصد کے بغیر ناممکن سی ہے ، جب خاندانی نظام ہی نابود ہو گیا ، پھر کسی کا مہمان بننا اور مہمان نوازی کرنا کیونکہ ہو سکتی ہے ، مذہب بیزار جدید تہذیب میں اگر یہ چیز ہے بھی ، تو انتہائی محدود صورت میں اور کمزور ترین بنیاد پر ، جدید فکر والحاد کے اہل اسلام پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، مہمان نوازی اور دیگر سماجی رویوں میں کئی طرح کی کمزوریاں جنم لے چکی ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
++++++++++++++++++++
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ، رفیق کار:دائرہ معارف سیرت ))
مہمان نوازی ، اسوہ نبوی اور جدید تہذیب
آنحضرت ﷺ میں دیگر عمدہ عادات و خصائل کے ساتھ ساتھ آپ میں مہمان نوازی کی خوبی بھی انتہا درجے کی تھی۔ احادیث وسیرت میں اس کی کثیر کثیر مثالیں موجود ہیں، آپ کی حیات طیبہ ہی دعوت واصلاح ، ہمدردی و خیرخواہی اور مہمان نوازی سے تعبیر ہے،
اس کی ایک چھوٹی سی مثال حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی ہے۔ انھیں حالتِ کفر میں قید کر کے مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔ دشمن ہونے کے باوجود آپ نے ان کی خوب خاطر تواضع کی۔ اپنے اہل خانہ سے فرمایا: ''تمھارے پاس جو کچھ کھانے کو ہے، وہ ثمامہ کو پہنچا دو۔'' مزید آپ نے دودھ دینے والی ایک بکری بھی مختص کی کہ ثمامہ کو صبح و شام اس کا دودھ پلایا جائے، (صحیح مسلم:١٧٦٤ و ابن ہشام، السیرۃ النبویہ:638/2)
نبی کریم ﷺ کے حُسنِ سلوک اور مہمانداری سے متاثر ہو کر اُنھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس واقعہ میں دعوت واصلاح کے حوالہ سے بہت مثالی رہنمائی موجود ہے ، جیسے: داعی کا حسن سلوک ، مخالف کی حسن خاطر مدارت ، مخالف کی کڑوی کسیلی بات پر صبر و برداشت ، مخاطب کو دعوت واصلاح کا اسلوب و انداز اور اصلاح ملت کے لیے داعی اعظم ﷺ کی فکر مندی ،
آنحضرت ﷺ کے ہاں ایک دفعہ مہمان آیا۔ اس کی ضیافت کے لیے آپ نے اپنی تمام ازواج کے ہاں پیغام بھیجا۔ لیکن سوائے پانی کے کہیں سے کھانے کی کوئی چیز نہ ملی۔ یہ دیکھ کر آپ نے صحابہ کو ترغیب دی ، تو سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے۔ ان کے گھر میں صرف بچوں کے لیے کھانے کو کچھ تھا۔ وہ کھانا اس مہمان کے سامنے پیش کر دیا اور بچوں کو بہلا کر سلا دیا۔
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مہمان کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھے لیکن چراغ گل کرا دیا۔ ان کا خیال تھا کہ میرے نہ کھانے کا مہمان کو علم نہ ہو اور مہمان پیٹ بھر کر کھا لے۔ رسول اللہ ﷺ کے مہمان کی خاطر تواضع کا یہ عمل اللہ عزوجل کو اس قدر پسند آیا کہ سیدنا ابو طلحہ کی مدح میں قرآن نازل فرما دیا۔ (صحیح البخاری:٣٧٩٨ و صحیح مسلم:٢٠٥٤ )
صحابی رسول حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اس مہمان نوازی کے موقع پر قرآن مجید کی یہ آیت اتری:((وَ یُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ)) (الحشر:9/59) ''وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔''
مذکورہ واقعے میں نبی کریم ﷺ کی مہمان نوازی کا اس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے ہر ایک زوجہ محترمہ کے ہاں پیغام بھیجا۔ جب کچھ نہ میسر آیا تو صحابہ میں اعلان فرمایا:(( مَنْ یُضِیفُ ہَذَا اللَّیْلَۃَ، رَحِمَہُ اللّٰہُ )) (صحیح مسلم:٢٠٥٤) ''آج رات کون اس کی مہمان نوازی کرے گا۔ ﷲ اس پر رحم فرمائے۔''
آنحضرت ﷺ کے ہاں بکثرت وفود آیا کرتے تھے۔ آپ نے ان کی مہمان نوازی کے لیے حضرت بلال بن رباح رضی اللّٰہ عنہ کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ ان کی بہترین مہمان نوازی کیا کریں۔(ابن سعد،الطبقات الکبریٰ:323/1) وفود میں شامل افراد کو عام طور پر انعام واکرام سے بھی نوازا جاتا ،
رسول اکرم ﷺ مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان فرق کیے بغیر ، ہر ایک کی خوب مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ یہاں آپ کے دو فرامین نقل کیے جاتے ہیں جن میں آپ نے مہمان نوازی کا حکم دیا ہے:
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ''جو بھی اللہ عزوجل پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے اپنے مہمان کی خوب اہتمام سے خاطر تواضع کرنی چاہیے۔'' عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول! خوب اہتمام سے مہمانی کتنے روز ہو؟ آپ نے فرمایا: ''ایک دن، ویسے مہمان نوازی تین دن ہے۔ اس کے بعد کی مہمان نوازی اہل خانہ کے لیے صدقہ شمار ہو گی۔ (صحیح مسلم:٤٥١٣/٤٨)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس کا اللہ عزوجل پر اور آخرت کے دن پر ایمان ہے، وہ اپنے مہمان کی عزت وتکریم کیاکرے۔'' (صحیح البخاری:٦٠١٨ وصحیح مسلم:٤٧)
مہمان نوازی کو نبوی ہدایات میں ممتاز اہمیت حاصل ہے ، اسلامی تعلیمات میں مہمان کی خاطر مدارت کی بہت تاکید کی گئی ، قرآن کریم میں مہمان نوازی کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اور سورت کہف میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا واقعہ اس حوالے سے خاص اہمیت کے حامل ہیں ،
مہمان نوازی اسلامی تہذیب ومعاشرے کا امتیازی مثالی وصف ہے ، مہمان نوازی کے کثیر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جیسے باہمی اخوت و بھائی چارگی کی آبیاری ، رشتہ داری اور تعلق داری کی مضبوطی ، اسلامی اقدار وروایات کا اظہار ، باہمی ہمدردی و خیرخواہی کا شاندار مظاہرہ، مصائب و مشکلات بانٹنے کا ذریعہ ، سب سے بڑھ کر یہ کہ رضائے الٰہی اور اجر و ثواب کا حصول ، اسی لیے مہمان نوازی کو رب العالمین اور روز آخرت پر ایمان کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،
جدید فکر وتہذیب کیونکہ خالق و دین اور روز آخرت ہی کی منکر ہے، اس لیے ان کے ہاں مہمان نوازی کسی دنیاوی مقصد کے بغیر ناممکن سی ہے ، جب خاندانی نظام ہی نابود ہو گیا ، پھر کسی کا مہمان بننا اور مہمان نوازی کرنا کیونکہ ہو سکتی ہے ، مذہب بیزار جدید تہذیب میں اگر یہ چیز ہے بھی ، تو انتہائی محدود صورت میں اور کمزور ترین بنیاد پر ، جدید فکر والحاد کے اہل اسلام پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ، مہمان نوازی اور دیگر سماجی رویوں میں کئی طرح کی کمزوریاں جنم لے چکی ہیں ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
++++++++++++++++++++