- شمولیت
- نومبر 14، 2018
- پیغامات
- 309
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 79
((رسول اللہ ﷺ کی خصوصیات ))
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
جوامع الکلم سے نوازے جانا
آنحضرت ﷺ ظاہری صفات و کمالات میں بھی بے نظیر تھے اور باطنی خصائل و اوصاف میں بھی لاثانی تھے۔ آپ گفتار و کردار اور شب و روز کے معمولات میں سب سے نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔
دعوت و تبلیغ میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اسلوب کی شائستگی، طرز تکلم اور انداز تخاطب میں آپ جداگانہ اوصاف کے حامل تھے۔
آپ کی باتیں سامعین کے دل میں اتر جایا کرتیں۔ اسلوب آسان، الفاظ سہل، انتخاب عمدہ، ترتیب شاندار اور کلمات مختصر لیکن مطلب و مفہوم وسیع۔
آپ کے اسی طرز تکلم اور انداز نگارش کو ''جوامع الکلم'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس خصوصیت سے آنحضرت ﷺ بدرجہ اَتم متصف تھے۔
آپ ہی کا فرمان ہے:((أُعْطِیتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ)) (صحیح مسلم:٥٢٣ و أحمد بن حنبل، المسند:٧٦٣٢) ''مجھے جامع کلمات سے نوازا گیا ہے۔''
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''مجھے جامع کلمات دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔'' (صحیح البخاری:٢٩٧٧ و صحیح مسلم:٥٢٣)
آنحضرت ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب جامع الکلم ہے۔ اس میں آسان ترین اور کم ترین الفاظ میں دنیا جہاں کے علوم و فنون پنہاں ہیں۔ قیامت تک اس کے رموز پر لکھا جاتا رہے اور اس کے علمی نکات اور شہ پاروں کو منظر عام پر لایا جاتا رہے، تب بھی کوئی اس پر کمالِ دسترس کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
سورہ فاتحہ میں تمام قرآنی مضامین موجود ہیں۔ سورہ اخلاص میں خالق و مالک کا شاندار تعارف ہے، سورۃ العصر میں دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔ ان تینوں سورتوں میں یہ باتیں انتہائی آسان، مختصر اور جامع کلمات کے انداز میں بیان ہوئی ہیں۔
آنحضرت ﷺ جامع الکلم کی خصوصیت سے اس قدر متصف تھے کہ دعا کرتے ہوئے بھی جامع کلمات کا انتخاب فرمایا کرتے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ''کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ یَسْتَحِبُّ الْجَوَامِعَ مِنَ الدُّعَاء، وَیَدَعُ مَا سِوٰی ذٰلِکَ'' (سنن أبی داود:١٤٨٢ و أحمد بن حنبل، المسند:٢٥١٥١)رسول اﷲ ﷺ دعا میں جامع کلمات ہی پسند فرماتے اور غیر جامع الفاظ سے احتراز برتتے تھے۔
جامع الکلم گفتگو کے تعلق اسلوب خطاب اور طرزِ تکلم سے ہے ، دعوت وتبلیغ اور تعلیم و تربیت میں طرزِ گفتگو کی بہت اہمیت ہوتی ہے ،
تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قوم میں ہی مبعوث کیے گئے اور وہ اپنی قومی زبان میں ہی لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے ،قرآن کریم میں اس کی حکمت بھی بیان کی گئی ہے،
عصر حاضر میں دعوت دین کے حوالے سے داعیان اسلام میں کئی طرح کی کتاہیاں پائی جاتی ہیں ، ان میں سے ایک مسئلہ اندر گفتگو اور طرزِ تکلم کابھی ہے ، اس کی وجہ دعوت واصلاح میں زبان وبیان کی اہمیت سے عدم شناسائی ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))
جوامع الکلم سے نوازے جانا
آنحضرت ﷺ ظاہری صفات و کمالات میں بھی بے نظیر تھے اور باطنی خصائل و اوصاف میں بھی لاثانی تھے۔ آپ گفتار و کردار اور شب و روز کے معمولات میں سب سے نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔
دعوت و تبلیغ میں بھی آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اسلوب کی شائستگی، طرز تکلم اور انداز تخاطب میں آپ جداگانہ اوصاف کے حامل تھے۔
آپ کی باتیں سامعین کے دل میں اتر جایا کرتیں۔ اسلوب آسان، الفاظ سہل، انتخاب عمدہ، ترتیب شاندار اور کلمات مختصر لیکن مطلب و مفہوم وسیع۔
آپ کے اسی طرز تکلم اور انداز نگارش کو ''جوامع الکلم'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس خصوصیت سے آنحضرت ﷺ بدرجہ اَتم متصف تھے۔
آپ ہی کا فرمان ہے:((أُعْطِیتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ)) (صحیح مسلم:٥٢٣ و أحمد بن حنبل، المسند:٧٦٣٢) ''مجھے جامع کلمات سے نوازا گیا ہے۔''
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ''مجھے جامع کلمات دے کر مبعوث کیا گیا ہے۔'' (صحیح البخاری:٢٩٧٧ و صحیح مسلم:٥٢٣)
آنحضرت ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب جامع الکلم ہے۔ اس میں آسان ترین اور کم ترین الفاظ میں دنیا جہاں کے علوم و فنون پنہاں ہیں۔ قیامت تک اس کے رموز پر لکھا جاتا رہے اور اس کے علمی نکات اور شہ پاروں کو منظر عام پر لایا جاتا رہے، تب بھی کوئی اس پر کمالِ دسترس کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
سورہ فاتحہ میں تمام قرآنی مضامین موجود ہیں۔ سورہ اخلاص میں خالق و مالک کا شاندار تعارف ہے، سورۃ العصر میں دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز بتایا گیا ہے۔ ان تینوں سورتوں میں یہ باتیں انتہائی آسان، مختصر اور جامع کلمات کے انداز میں بیان ہوئی ہیں۔
آنحضرت ﷺ جامع الکلم کی خصوصیت سے اس قدر متصف تھے کہ دعا کرتے ہوئے بھی جامع کلمات کا انتخاب فرمایا کرتے۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ''کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ یَسْتَحِبُّ الْجَوَامِعَ مِنَ الدُّعَاء، وَیَدَعُ مَا سِوٰی ذٰلِکَ'' (سنن أبی داود:١٤٨٢ و أحمد بن حنبل، المسند:٢٥١٥١)رسول اﷲ ﷺ دعا میں جامع کلمات ہی پسند فرماتے اور غیر جامع الفاظ سے احتراز برتتے تھے۔
جامع الکلم گفتگو کے تعلق اسلوب خطاب اور طرزِ تکلم سے ہے ، دعوت وتبلیغ اور تعلیم و تربیت میں طرزِ گفتگو کی بہت اہمیت ہوتی ہے ،
تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قوم میں ہی مبعوث کیے گئے اور وہ اپنی قومی زبان میں ہی لوگوں کو وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے ،قرآن کریم میں اس کی حکمت بھی بیان کی گئی ہے،
عصر حاضر میں دعوت دین کے حوالے سے داعیان اسلام میں کئی طرح کی کتاہیاں پائی جاتی ہیں ، ان میں سے ایک مسئلہ اندر گفتگو اور طرزِ تکلم کابھی ہے ، اس کی وجہ دعوت واصلاح میں زبان وبیان کی اہمیت سے عدم شناسائی ہے ،
""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے