حسن شبیر
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 18، 2013
- پیغامات
- 802
- ری ایکشن اسکور
- 1,834
- پوائنٹ
- 196
تحریر: قاضی محمد حارث
میری اُن سے پہلی ملاقات خاندان کی ایک تقریب میں ہوئی تھی، جن سے روایتی انداز میں میری والدہ نے یہ کہہ کر متعارف کروایا تھا کہ یہ میرا بیٹا ہے حارث
اور حارث! یہ فُلاں کی والدہ ہیں۔
نہایت نحیف سی وہ خاتون جنکی شکل دیکھ کر ہی گماں ہوتا تھا کہ شدید تکلیف کا شکار ہیں۔
اُنکو ایک سال پہلے سُرطان کا مرض لاحق ہوا تھا، گلے کا سُرطان۔
بہت علاج کروایا لیکن
مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی
حتی کہ اُنکے بال بھی جَھڑ گئے تھے، شعاعوں سے علاج کروانے کی وجہ سے گردن بھی ایک جانب ڈھلک گئی تھی۔ تقریب میں شرکت کے وقت بھی سکارف سے سَر ڈھک کر ایک جانب بیٹھی تھیں۔
میرے ذہن میں اُس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اِس حالت میں انکو تقریب میں شرکت کی کیا ضرورت تھی؟ اب تو اللہ اللہ کرنے کا وقت ہے۔
لیکن یہ میری کتنی بڑی غلطی تھی شاید مجھے اِسکا اندازہ اُس وقت بھی نہ ہوسکا جب میں نے یہ خیال آتے ہی اپنے آپ کو جھڑکا اور کوسا کہ کسی کے بارے میں بلا وجہ اُلٹے گمان رکھنا غلط بات ہے۔
بہرحال بعد میں پتہ لگتا رہا کہ اُنکی طبیعت مزید خراب ہورہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اُنکو رَٹ لگ گئی کہ مجھے اب اللہ کے گھر جانا ہے میں وہیں صحیح ہونگی اَب۔
کوششیں کی گئیں کہ اُنکی خواہش کو عملی جامہ پہنایا جائے، چار دن پہلے اُنکی ہوائی راستہ سے سعودیہ روانگی تھی۔
رات نو بجے وہ روانہ ہوئیں اور پاکستانی رات 1 بجے وہ وہاں پہنچ گئیں، جدہ سے سب سے پہلے مدینہ گئیں، کیونکہ وہاں اُنکے کچھ جاننے والے تھے۔
مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا شوق ہوا، نماز کی نیت باندھی۔ پہلی رکعت کا پہلا سجدہ کیا، سجدہ میں ہی خون کی اُلٹی ہوئی اور اللہ نے اپنے پاس بُلا لیا۔
شاید میں اِس وقت اپنے احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر ہوں لیکن میری اس وقت جو کیفیت ہے میں ہی جانتا ہوں۔
اللہ نے اُنکو پاکستان سے وہاں بُلا کر اپنے سامنے اپنے محبوب کی مسجد میں جھکا کر اپنے پاس بُلایا اور دنیا کے بہترین قبرستان میں انکو جگہ دی، مسجدِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کے امام سے اُنکی نمازِ جنازہ پڑھوائی اور اب مجھے اپنی وہ سوچ یاد آئی کہ
"یہ وقت تو اللہ اللہ کرنے کا ہے، تقاریب میں شرکت کا تھوڑی۔"
باتیں کرنے والے باتیں کرتے رہ جاتے ہیں اور بازی لے جانے والے بازی لے جاتے ہیں۔
بہت سے لوگ ہمیں دِکھ کچھ اور رہے ہوتے ہیں اور وہ حقیقتاً کچھ اور ہوتے ہیں۔
میری اُن سے پہلی ملاقات خاندان کی ایک تقریب میں ہوئی تھی، جن سے روایتی انداز میں میری والدہ نے یہ کہہ کر متعارف کروایا تھا کہ یہ میرا بیٹا ہے حارث
اور حارث! یہ فُلاں کی والدہ ہیں۔
نہایت نحیف سی وہ خاتون جنکی شکل دیکھ کر ہی گماں ہوتا تھا کہ شدید تکلیف کا شکار ہیں۔
اُنکو ایک سال پہلے سُرطان کا مرض لاحق ہوا تھا، گلے کا سُرطان۔
بہت علاج کروایا لیکن
مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی
حتی کہ اُنکے بال بھی جَھڑ گئے تھے، شعاعوں سے علاج کروانے کی وجہ سے گردن بھی ایک جانب ڈھلک گئی تھی۔ تقریب میں شرکت کے وقت بھی سکارف سے سَر ڈھک کر ایک جانب بیٹھی تھیں۔
میرے ذہن میں اُس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ اِس حالت میں انکو تقریب میں شرکت کی کیا ضرورت تھی؟ اب تو اللہ اللہ کرنے کا وقت ہے۔
لیکن یہ میری کتنی بڑی غلطی تھی شاید مجھے اِسکا اندازہ اُس وقت بھی نہ ہوسکا جب میں نے یہ خیال آتے ہی اپنے آپ کو جھڑکا اور کوسا کہ کسی کے بارے میں بلا وجہ اُلٹے گمان رکھنا غلط بات ہے۔
بہرحال بعد میں پتہ لگتا رہا کہ اُنکی طبیعت مزید خراب ہورہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اُنکو رَٹ لگ گئی کہ مجھے اب اللہ کے گھر جانا ہے میں وہیں صحیح ہونگی اَب۔
کوششیں کی گئیں کہ اُنکی خواہش کو عملی جامہ پہنایا جائے، چار دن پہلے اُنکی ہوائی راستہ سے سعودیہ روانگی تھی۔
رات نو بجے وہ روانہ ہوئیں اور پاکستانی رات 1 بجے وہ وہاں پہنچ گئیں، جدہ سے سب سے پہلے مدینہ گئیں، کیونکہ وہاں اُنکے کچھ جاننے والے تھے۔
مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا شوق ہوا، نماز کی نیت باندھی۔ پہلی رکعت کا پہلا سجدہ کیا، سجدہ میں ہی خون کی اُلٹی ہوئی اور اللہ نے اپنے پاس بُلا لیا۔
شاید میں اِس وقت اپنے احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر ہوں لیکن میری اس وقت جو کیفیت ہے میں ہی جانتا ہوں۔
اللہ نے اُنکو پاکستان سے وہاں بُلا کر اپنے سامنے اپنے محبوب کی مسجد میں جھکا کر اپنے پاس بُلایا اور دنیا کے بہترین قبرستان میں انکو جگہ دی، مسجدِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کے امام سے اُنکی نمازِ جنازہ پڑھوائی اور اب مجھے اپنی وہ سوچ یاد آئی کہ
"یہ وقت تو اللہ اللہ کرنے کا ہے، تقاریب میں شرکت کا تھوڑی۔"
باتیں کرنے والے باتیں کرتے رہ جاتے ہیں اور بازی لے جانے والے بازی لے جاتے ہیں۔
بہت سے لوگ ہمیں دِکھ کچھ اور رہے ہوتے ہیں اور وہ حقیقتاً کچھ اور ہوتے ہیں۔