• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قسم کے بعد ان شاء اللہ کہنا؟

شمولیت
مئی 31، 2017
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
36
قسم کے بعد ان شاء اللہ!
تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری

قسم کے متصل بعد ان شاء اللہ کہنے سے قسم بے اثر ہو جاتی ہے،اگر وہ کام کر دے تو گناہ گار نہیں ہو گا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں؛
اتفق العلماء علی أن من حلف باللّٰہ لیقضین دین غریمہ غداً إن شاء اللّٰہ أو لیردن ودیعتہ أو غصبہ، أو لیصلین الظہر أو العصر إن شاء اللّٰہ، أو لیصومن رمضان إن شاء اللّٰہ ونحو ذلک مما أمرہ اللّٰہ بہ، فإنہ إذا لم یفعل المحلوق علیہ لا یحنث مع أن اللّٰہ أمرہ، بہٖ لقولہٖ : إنشاءاللّٰہ،فعلم أناللّٰہ لم یشأمع أمرہ بہ .
''علماءکااجماع ہےکہ جوشخص یوں قسم اٹھائےکہاللہکیقسم !انشاءاللہکلمیںقرضہیادیتاداکئےدوںگا،غصبشدہچیزلوٹادوںگا،ظہریاعصرپڑھوںگایارمضانکےروزےرکھوںگاوغیرہ،اگروہاسقسم کو پورا نہیں کر سکا تو کفارہ نہیں ہو گا کیوں کہ اس نے ان شاء اللہ کہہ دیا تھا کہ اللہ چاہے گا تو کروں گا اور اللہ نے نہیں چاہا کہ وہ ایسا کرے۔''
(مجموعۃ الرسائل والمسائل :5/151)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (٤٥٦ھ)لکھتے ہیں؛
مَنْ حَلَفَ عَلٰی شَيْءٍ ثُمَّ قَالَ مَوْصُولًا بِکَلَامِہٖ : إنْشَاءَاللّٰہُتَعَالٰی،أَوْإلَّاأَنْیَشَاءَاللّٰہُ،أَوْإلَّاأَنْلَایَشَاءَاللّٰہُ،أَوْنَحْوَہٰذَا،أَوْإلَّاأَنْأَشَائَ،أَوْإلَّاأَنْلَاأَشَائَ،أَوْإلَّاإنْبَدَّلَاللّٰہُمَافِيقَلْبِي،أَوْإلَّاأَنْیَبْدُوَ إلَيَّ، أَوْ إلَّا أَنْ یَشَاءَ فُلَانٌ، أَوْ إنْ شَاءَ فُلَانٌ، فَہُوَ اسْتِثْنَاءٌ صَحِیحٌ وَقَدْ سَقَطَتِ الْیَمِینُ عَنْہُ بِذٰلِکَ، وَلَا کَفَّارَۃَ عَلَیْہِ إنْ خَالَفَ مَا حَلَفَ عَلَیْہِ .
''کسی کام پر قسم اٹھانے کے بعد اگر کہے کہ میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں ان شاء اللہ میں کام کروں گا،یا ایسے کہے کہ اگر اللہ نے چاہا، تو یہ کام کروں گا،یا کہے اگر اللہ نے نہ چاہا تو نہیں کروں گا۔ ایسے الفاظ کا استعمال بھی درست ہے کہ اگر میں چاہوں گا کر دوں گا نہ چاہا تو نہیں کروں گا،یا یوں کہے کہ کام کروں گا اگر اللہ نے میرا ارادہ نہ بدل دیا یا مجھے کوئی اور کام نہ کرنا پڑا تو، اسی طرح قسم کو کسی ذات کے ساتھ معلق کردینا کہ اگر فلاں نے چاہا تو کروں گا ورنہ نہیں تو یہ سبھی صورتیں قسم کو بے اثر کر دیتی ہیں،اب اگر یہ قسم توڑ بھی دے تو اس پر کفارہ نہیں ہو گا۔''
(المُحلّٰی بالآثار :6/301)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
سُلَیْمَانُ بْنُ دَاوُدَ نَبِیُّ اللّٰہِ : لَـأَطُوفَنَّ اللَّیْلَۃَ عَلٰی سَبْعِینَ امْرَأَۃً، کُلُّہُنَّ تَأْتِي بِغُلَامٍ یُقَاتِلُ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ، فَقَالَ لَہ، صَاحِبُہ، أَوِ الْمَلَکُ : قُلْ : إِنْ شَاءَ اللّٰہُ، فَلَمْ یَقُلْ وَنَسِیَ، فَلَمْ تَأْتِ وَاحِدَۃٌ مِنْ نِسَائِہٖإِلَّاوَاحِدَۃٌجَاءَتْبِشِقِّغُلَامٍ،فَقَالَرَسُولُاللّٰہِصَلَّیاللّٰہُعَلَیْہِوَسَلَّمَ : وَلَوْقَالَ : إِنْشَاءَاللّٰہُ،لَمْیَحْنَثْ،وَکَانَدَرَکًالَہ، فِي حَاجَتِہٖ .
''اللہکےنبیسیدناسلیمانبنداود علیھما السلام نے قسم اٹھائی کہ آج رات ستربیویوں کے پاس جاوں گا ،سبھی بیٹا جنم دیں گی اور وہ سب بیٹے اللہ کے رستے میں قتال کریں گے،ساتھی یا فرشتے نے کہا : ان شاء اللہ کہہ لیجئے، سیدنا سلیمان علیھ السلام ان شاء اللہ کہنا بھول گئے، تو ایک ہی عورت کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ بھی معذور، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر سلیمان علیھ السلام ان شاء اللہ کہہ دیتے تو ان کی قسم نہ ٹوٹتی اور ان شاء اللہ سے ان کی حاجت برآوری ہو جاتی۔''
(صحیح مسلم : 1654)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
من حلف علی یمین، فقال : إن شاء اللّٰہ فقد استثنی .
''ان شاء اللہ کہہ کر اٹھائی جانے والی قسم پر کفارہ نہیں ہوتا۔''
(مسند الإمام أحمد :2/10، سنن أبي داود : 3261، سنن النسائي : 3860، سنن الترمذي : 1531، سنن ابن ماجۃ : 2105، وسندہ، صحیحٌ)
مسند حمیدی (٧٠٧) میں سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے،ا ن کے بہت سارے متابع بھی ہیں،اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن ،امام ابن الجارود (٩٢٨)، امام ابو عوانہ (٥٩٩١)اور امام ابن حبان رحمہم اللہ (٤٣٣٩)نے ''صحیح''کہا ہے۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
من حلف فاستثنی، فإن شاء رجع وإن شاء ترک غیر حنث .
''ان شاء اللہ کہہ کر قسم اٹھائی،اب چاہو توکام کرو چاہو،تو چھوڑ دو، کفارہ نہیں ہو گا۔''
(سنن أبي داود :3262، وسندہ، صحیحٌ)
امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں؛
وَالعَمَلُ عَلٰی ہٰذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِہِمْ : أَنَّ الِاسْتِثْنَاءَ إِذَا کَانَ مَوْصُولًا بِالیَمِینِ فَلَا حِنْثَ عَلَیْہِ . وَہُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالأَوْزَاعِيِّ، وَمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ المُبَارَکِ، وَالشَّافِعِیِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ .
''اس حدیث پر اکثر اہل علم صحابہ وغیرہ کا عمل ہے،کہ اگر ان شاء اللہ کہہ کر قسم اٹھائی جائے تو اس قسم پر کفارہ نہیں ہو گا،یہ سفیان ثوری،اوزاعی،مالک بن انس،عبد اللہ بن مبارک ،شافعی ،احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔''
(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 1531)
راوی حدیث سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں؛
مَنْ قَالَ : وَاللّٰہ! ثُمَّ قَالَ : إِنْ شَاءَ اللّٰہُ، ثُمَّ لَمْ یَفْعَلِ الَّذِي حَلَفَ عَلَیْہِ، لَمْ یَحْنَثْ .
''جس نے یو ں قسم اٹھائی کہ اللہ کی قسم! ان شاء اللہ میں یہ کام کروں گا، پھر وہ کام نہیں کیا، کفارہ نہیں ہو گا۔''
(موطا الإمام مالک :2/477، وسندہ، صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں؛
کُلُّ اسْتِثْنَاءٍ مَوْصُولٌ، فَلَا حَنَثَ عَلٰی صَاحِبِہٖ،وَإِنْکَانَغَیْرَمَوْصُولٍ،فَہُوَحَانِثٌ .
''قسمکےساتھہیانشاءاللہکہہدے،توکفارہنہیں،لیکنقسمکےساتھ ان شاء اللہ نہ کہے، تو کفارہ ہو گا۔''
(السنن الکبری للبیہقي :10/47، وسندہ، حسنٌ)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (٤٦٣ھ)لکھتے ہیں:
وَأَجْمَعُوا أَنَّ الِاسْتِثْنَاءَ إِنْ کَانَ فِي نَسَقِ الْکَلَامِ دُونَ انْقِطَاعٍ بَیِّنٍ فِي الْیَمِینِ بِاللّٰہِ أَنَّہ، جَائِزٌ .
''اس بات پر اجماع ہے کہ اگر ان شا ء اللہ کلام کے فورا بعد کہا جائے، اس طرح کہ کلام اور استثناء میں واضح انقطاع نہ ہو، تو یہ طریقہ جائز ہے۔''
(التَّمہید لما في المُؤَطّأ من المعاني والأسانید : 14/374)
امام ابن حزم رحمہ اللہ (٤٥٦ھ)لکھتے ہیں؛
وَإِجْمَاع لأمۃ علی أَن اللّٰہ عز وَجل حکم بِأَن من حلف فَقَالَ : إِن شَاءَ اللّٰہ أَو إِلَّا أَن یَشَاء اللّٰہ علی أَیِّ شَيْء حلف فَإِنَّہ، إِن فعل مَا حلف عَلَیْہِ أَن لَا یَفْعَلہ فَلَا حنث عَلَیْہِ وَلَا کَفَّارَۃ تلْزمہ، لِأَن اللّٰہ تَعَالٰی لَو شَاءَ لَا نفذہ وَقَالَ عز وَجل (وَلَا تقولن لشَيْء إِنِّي فَاعل ذٰلِک غَدا إِلَّا أَن یَشَاء اللّٰہ)
''امت کا اجماع ہے کہ ان شاء اللہ کہہ کر کسی بھی کام پر قسم اٹھا لے، تو اختیار ہے کہ چاہے تو کرے، چاہے تو نہ کرے،اس پر کفارہ نہیں ہو گا، کیوں کہ اگر اللہ چاہتا تووہ کام ہو جاتا،فرمان باری تعالیٰ ہے؛
(وَلَا تقولن لشَیْء إِنِّي فَاعل ذٰلِک غَدا إِلَّا أَن یَشَاء اللّٰہ)
'ان شاء اللہ کہے بغیر کبھی نہ کہیں کہ میں کل یہ کام کر وں گا۔''
(الفِصَل في الملل والأہواء والنحل:3/86)
قسم میںاستثناء کی شرائط:
1 قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے کا مقصد یہ ہو کہ میں اللہ کی مشیت پر چھوڑ رہاں ہوں ،قسم فقط تبرک کے لئے نہ ہو۔
2 قسم جس وقت اٹھائی جائے ،ان شاء اللہ بھی اسی وقت کہا جائے،بعد میں کہنے کا فائدہ نہیں۔
3 صرف دل میں ان شاء اللہ کہنا کافی نہیں، بل کہ زبان سے بھی کہنا ہو گا۔
فائدہ :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے؛
إِذَا حَلَفَ الرَّجُلُ عَلٰی یَمِینٍ فَلَہ، أَنْ یَسْتَثْنِیَ وَلَوْ إِلٰی سَنَۃٍ .
''آپ قسم اٹھالیں تو سال بعد بھی ان شاء اللہ کہہ کر استثناء کر دینا چاہئے۔''
(المستدرک علی الصَّحیحین للحاکم : ح، 7833)
سند ضعیف ہے،اعمش ''مدلس ''ہیں سماع کی تصریح نہیں کی۔
 
Top