• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصر نماز

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
اگر کوئی مسافر کسی جگہ پڑاؤ ڈالے اور وہاں نماز کا وقت ہو جائے ظہر،عصر،مغرب یا عشاء اور وہ نماز کے شروع یعنی اللہ اکبر کہتے ہوئے ہی جماعت کے ساتھ مل جائے تو کیا وہ پوری نماز پڑھے گا۔جبکہ مسافر نے دو رکعت نماز قصر کرنی ہے تو کیا وہ دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر صف سے نکل جائے یا نہ؟

اور اگر امام ہی مسافر ہو تو کیا امام دو پڑھا کر سلام پھیر دے گا اور سارے مقتدی اپنی نماز مکمل کریں گے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
شیخ صالح المنجد لکھتے ہیں :


مقيم كے پيچھے مسافر كى نماز - 26186
سوال : ايك مسافر شخص اپنى منزل مقصود پر پہنچ كر مقيم امام كے ساتھ نماز ادا كرنا چاہے تو كيا اس كى نماز صحيح ہو گى ؟

الحمد للہ :

مسافر كے ليے مقيم كے پيچھے نماز ادا كرنے ميں كوئى مانع نہيں، چاہے نماز كى ہيئت ميں ہو يا نہ ہو، اور اس ميں نيت كا اختلاف غير موثر ہے، ليكن اگر مسافر امام كے ساتھ ايك ركعت بھى نہ ادا كر سكتے تو وہ قصر نماز ادا كرے گا.

اس كى مثال يہ ہے كہ: ايك مسافر ظہر كى نماز ميں امام كے ساتھ آخرى تشھد ميں ملا تو اس وقت وہ ظہر كى دو ركعت ادا كرےگا، اس كى يہ نماز اس وقت ہے جب وہ امام كے ساتھ ايك ركعت يا اس سے زيادہ ادا نہ كر سكے.

ليكن اگر مسافر مقيم كے ساتھ ايك ركعت يا اس سے زيادہ پا لے تو وہ وجوبا نماز پورى كرےگا، اكثر اہل علم كا مسلك يہى ہے، اور ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى مروى ہے.

صحيح مسلم ميں موسى بن سلمہ ھذلى رحمہ اللہ سے مروى ہے وہ كہتے ہيں ميں نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا كہ اگر ميں مكہ ميں ہوں اور امام كے ساتھ نماز ادا نہ كر سكوں تو نماز كيسے ادا كروں ؟

تو انہوں نے فرمايا: دو ركعت ادا كرنا ابو القاسم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 688 ).

اور صحيح مسلم ميں ہى نافع رحمہ اللہ كے طريق سے مروى ہے كہ جب ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما امام كے ساتھ نماز ادا كرتے تو چار ركعت پڑھتے اور جب اكيلے پڑھتے تو دو ركعت ادا كرتے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 694 ).

اور بيھقى نے سنن بيھقى ميں سليمان تميمى عن ابى مجلز رحمہما اللہ كے طريق سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے كہا:

" مسافر شخص مقيم حضرات كے ساتھ دو ركعت پالے تو كيا يہ دو ركعت كفائت كر جائينگى ؟ يا وہ ان كى نماز ادا كرے ؟

راوى كہتے ہيں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما ہنس كر كہنے لگے: ان كے ساتھ مكمل نماز ادا كرے "

اور جب نماز كى ہيئت مختلف ہو جائے مثلا عشاء كى نماز ادا كرنے والے مقيم كے پيچھے مسافر مغرب كى نماز ادا كرے، تو اس وقت وہ تيسرى ركعت كے بعد بيٹھ جائے.

كيا مسافر اپنى نماز مكمل كركے فارغ ہو جائے يا كہ امام كا انتظار كرے حتى كہ وہ اپنى نماز مكمل كرے تو اس كے ساتھ تشھد ميں بيٹھ كر سلام پھيرے ؟

اس ميں دونوں اقوال كا احتمال ہے، ليكن ميرى نظر ميں دوسرا احتمال زيادہ قريب ہے كہ وہ انتظار كرے.

اور اگر اس كے برعكس ہو مثلا مغرب كى نماز ادا كرنے والے مقيم كے پيچھے مسافر عشاء كى نماز ادا كرے تو اس مسئلہ ميں مجھے جو ظاہر ہوتا ہے وہ يہ كہ وہ دو ركعت ادا كر كے بيٹھ جائے حتى كہ امام اپنى نماز مكمل كرلے اور امام كے ساتھ تشھد بيٹھ كر سلام پھيرے.
اللہ تعالى اعلم
الشيخ ناصر بن سليمان بن العلوان
 
Top