• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصہٴ عُزیر علیہ السلام

شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
94
لیجئے ایک نبی ؑ کا قصہ سنئے جو ایک گدھے پر سوار ایک سفر پر رواں دواں تھے کہ موت نے آ لیا۔ ایک سو برس موت کی حالت میں پڑے رہے اور پھر زندہ کئے گئے، مگر زمانے کے تغیرات سے وہ بے خبر ہی تھے۔
﴿ اَوْکَا لَّذِیْ مَرَّعلٰی قَرْیَةٍ وَّھِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا قَالَ اَنّٰی یُحْی ھٰذِہِ اللهُ بَعْدَ مَوْتِھَا فَاَمَاتَہُ اللهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَ بَعَثَہ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرٰبِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَ نَکْسُوْھَا لَحْمًا ﴾
” یا اس شخص کی مانند جس کا گذر ایک ویران بستی سے ہوا۔ اس نے کہا کہ اللہ کس طرح اِس (مُردہ بستی) کو موت کے بعد زندہ فرمائے گا؟ اللہ نے اس کو بھی موت کی نیند سلا دیا اور وہ سو برس مرا پڑا رہا۔ پھر اس کو زندہ کیا۔ اس سے پوچھاکہ تم اس حال میں کتنی مدت رہے؟ عرض ہوا کہ ایک یوم یا اس کا کچھ حصہ۔ ارشاد ہوا کہ تم تو سو برس اس حال میں رہے ہو۔ پس اب تم اپنے کھانے اور پینے کی چیزوں کی طرف دیکھو ،وہ باسی نہیں ہوئیں۔ اور اپنے گدھے کی طرف دیکھو۔ ہم تمھیں ان لوگوں کے لیے نشانی بناتے ہیں۔ ان ہڈیوں کی طرف دیکھو کہ ہم کس طرح ان کو جوڑ کر گوشت پوست پہناتے ہیں ۔ “(البقرة:259)
ان واقعات پر اگر آپ بھی غور فرمائیں تو سمجھ میں بات آتی ہے کہ موت وارِد ہونے کے بعد کسی نبی یا بزرگ کا اس مادی دنیا کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں رہتا۔ وہ ہماری آہ و فُغاں سن بھی نہیں سکتے، فریادپوری کرناتو دور کی بات ہے۔!
برا نہ مانیں بلکہ سوچیں اور قرآن پڑھیں۔ اسی میں آپ کا فائدہ ہے۔ غصہ میں آنا آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ لیجئے اور پڑھیئے:
﴿ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ وَاِذَا حُشِرَالنَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآءً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ ﴾ (الأحقاف:6-5)
” اس شخص سے بڑھ کر گم کردہ راہ کون ہو گا جو اللہ کے سوا اُس کو پکارتا ہے جو روزِ قیامت تک اُس کی پکار قبول نہ کر سکے اور اس کی چیخ و پکار سے بھی بے خبر ہو۔ پھر جس روز لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا تو وہ ان پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کر دیں گے ۔ “
غور فرمائیں! صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس سے مراد محض بت نہیں بلکہ وہ ہستیاں مراد ہیں جن سے کوئی بُت یا قبر منسوب ہوتی ہے۔ اور جن کو لوگ عقیدت سے پکارتے ہیں۔ اگر یقین نہیں آیا تو قرآن پاک کا یہ مقام پڑھیں۔ارشاد ہوا ہے:
﴿ اَیُشْرِکُوْنَ مَالَا یَخْلُقُ شَیْئًَا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَسْتَطِیْوْنَ لَھُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ ﴾ (الأعراف:192-191)
”کیا یہ لوگ ان کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو کچھ پیدا تو نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ ان کی مدد کی قوت بھی نہیں رکھتے اور اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتے ۔ “
﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْ ھُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ اَلَھُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِھَآ اَمْ لَھُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِھَآ اَمْ لَھُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِھَآ اَمْ لَھُمْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا ﴾ (الأعراف:195-194)
”بیشک جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو۔ وہ تمہاری طرح کے بندے ہیہیں پس تم ان کو پکار دیکھو، اگر تم سچے ہو تو وہ تمہاری پکار کو قبول کریں۔ کیا ان کے پاوٴں ہیں؟ جن سے وہ چل سکیں۔ کیا ان کے ہاتھ ہیں؟ جن سے وہ پکڑ سکیں۔ کیا ان کی آنکھیں ہیں؟ جن سے وہ دیکھ سکیں۔ کیا ان کے کان ہیں؟ جن سے وہ سن سکیں ۔ “
سوچئے! کہ اس شخص سے بڑھ کر کون قابلِ رحم ہو سکتا ہے۔ جو اللہ قادرِ مطلق کو چھوڑ کر بزرگوں کو پکارتا ہے۔ جو ہماری طرح کے بندے تو ہیں مگر اُن کے اعضاء کام نہیں کرتے۔ یہ بُت نہیں بلکہ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ (تمہاری طرح کے بندے) ہیں ۔۔۔
پھر فرمایا:
﴿ وَالَّذِینَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ اَمْوَاتٌ غَیْرُُاَحْیَآءٍ وَّمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ﴾ (النحل:21-20)
” اور اللہ کے علاوہ جن لوگوں کو بھی یہ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے ۔بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں۔ وہ مردہ ہیں زندہ نہیں ہیں۔ وہ تویہ بھی نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے ۔ “
بتوں کو اٹھائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بزرگ ہی ہیں۔ ان کو معلوم تک نہیں کہ انکو پکارا جا رہا ہے۔ قیامت کے دن وہ انکار کر دیں گے بلکہ جھگڑیں گے:
﴿ وَیَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا مَکَانَکُمْ اَنْتُمْ وَشُرَکَآوٴُکُمْ فَزَیَّلْنَابَیْنَھُمْ وَقَالَ شُرَکَآوٴُ ھُمْ مَّاکُنْتُمْ اِیَّانَا تَعْبُدُوْنَ فَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًامْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغٰفِلِیْنَ ﴾ (یونس:29-28)
”اُس دن ہم سب کو اکٹھا کریں گے۔ پھر شریک بنانے والوں کو کہیں گے کہ تم اور تمہارے شریک اپنی جگہ کھڑے رہو۔ پھر ہم ان کو الگ الگ کر دیں گے۔ جن کو وہ اللہ کا شریک بناتے رہے ہوں گے وہ کہیں گے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے کہ تم ہماری عبادت ہر گز نہیں کرتے تھے۔ ہم تو تمہاری عبادت سے بالکل بے خبر تھے ۔ “
اللہ کرے کہ اب آپ سمجھ گئے ہوں کہ یہ جھگڑنے والے بُت نہیں، بلکہ بزرگ ہیں۔ کیونکہ اللہ نے ان سے بھی جواب طلبی فرمائی ہے اور وہ اپنا دامن صاف کرنے کے لئے جھگڑ رہے ہیں:
﴿ وَ یَوْمَ یَحْشُرُھُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مَنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ھٰٓوٴُلَآءِ اَمْ ھُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ قَالُوْاسُبْحٰنَکَ مَا کَانَ یَنْبَغِیْ لَنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ مِنْ دُوْنِکَ مِنْ اَوْلِیَآءَ وَلٰکِنْ مَّتَّعْتَھُمْ وَاٰبَآءَ ھُمْ حَتّٰی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوْا قَوْمًام بُوْرًا فَقَدْ کَذَّبُوْکُمْ بِمَاتَقُوْلُوْنَ فَمَا تَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْفًا وَّلَا نَصْرًا ﴾ (الفرقان:19-17)
” جس دن اللہ کے سوا عابد و معبودوں کو اکٹھا کیا جائے گا پھر ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی گم کردہ راہ ہو گئے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ تیری ذات تو پاک ہے۔ ہم کو تو خود یہ بات زیب نہیں دیتی تھی کہ تیرے سوا کسی کو کارساز بنا لیں مگر تو خود ہی ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو فائدے دیتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ تیرا ذکر بُھلا کر ایک ہلاک ہونے والی قوم ہو گئے۔ (اے مشرکو !) جو دعویٰ تم آج کر رہے ہو، اس میں وہ تم کو جھوٹا قرار دیں گے۔ تم اللہ کے عذاب کا رُخ نہ پھیر سکو گے اور تمہارا کوئی حامی و ناصر نہ ہو گا ۔ “
میرے بھائیو! کیا اب بھی آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ بُت ہی ہیں،بزرگ نہیں ہیں ۔ لیجئے ،ایک بزرگ ہی کا نام لے کر آپ کی غلط فہمی رفع کر دیتا ہوں۔
ارشاد ہے:
﴿ وَاِذْ قَالَ اللهُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِی وَاُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَالَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ اِنْ کُنْتُ قُلْتُہ فَقَدْ عَلِمْتَہ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ مَا قُلْتُ لَھُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٓ اَنِ اعْبُدُواللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَ اَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٌ ﴾ (المآئدة: 117-116)
”جب اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابنِ مریم (علیہ السلام)! کیا تم نے ان سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ کارساز بنا لینا؟ وہ جواب دیں گے کہ تیری ذات تو پاک ہے۔ مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ میں وہ بات کہوں جو کہنے کا مجھے حق نہ پہنچتا ہو۔ اگر میں نے کہا بھی ہوتا تو تجھ کو علم ہوتا کیونکہ تو میرے دل کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے دل کی بات نہیں جان سکتا۔ بے شک تو غیبوں کا جاننے والا ہے۔ میں نے اس کے سوا انہیں کچھ نہیں کہا تھا مگر وہی جو تو نے مجھے حکم فرمایا تھا۔ اور وہ یہ کہ اللہ کی عبادت کرو،جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے ۔جب تک میں ان کے درمیان رہا میں ان کو دیکھتا رہا۔ لیکن جب تو نے مجھ کو دنیا سے اٹھا لیا تو ان کا نگہبان تو ہی تھا۔ بے شک ہر چیز کو دیکھنے والا تو ہی ہے ۔ “
جو اَب بھی نہ سمجھے اس کا کیا علاج؟ میں نے کہا تھا کہ بُت پرست دنیا میں کوئی نہیں۔ بُت کی پوجا سے مراد دراصل بزرگ کی پوجا ہے۔ موت کے بعد کوئی بزرگ ہمارے حالات سے آگاہ نہیں۔ یہ بزرگ ہماری عبادت کا انکار کر کے اپنا دامن صاف کرنے کے لئے جھگڑیں گے، جیسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام۔
مسلمان بھائیو! سوچو! ہم کیا کر رہے ہیں؟
توحید اور ہم -( بشیر احمد لودھی)

قصہٴ عُزیر علیہ السلام.png
 
Top