محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
يَسَْٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ۰ۭ قُلْ ہِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ۰ۭ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِھَا وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى۰ۚ وَاْتُوا الْبُيُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۱۸۹
(۱) اس لیے کہ اسلام دین فطرت ہے جس میں اہل حضر سے لے کر اہل بادیہ تک سب لوگوں کی رعایت رکھی گئی ہے۔شمسی مہینے شہر کے متمدن لوگوں کو تو معلوم ہوسکتے ہیں لیکن خانہ بدوش اور غیر شہری نہیں جان سکتے۔
(۲) اس لیے بھی کہ اسلام کا مقصد صرف تعیین وتقرر ہی نہیں بلکہ تشویق وترغیب بھی ہے ۔مثلاً رمضان اگر شمسی تاریخوں میں ہوتا تو بلاکسی انتظار کے کھٹ سے آموجود ہوتا اور اس وجہ سے دلوں میں پہلے سے کوئی شوق واضطراب نہ ہوتالیکن اب لوگ ماہِ صیام کا چاند دیکھنے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں اور اس طرح طبیعتوں میں ماہِ صیام کے لیے زبردست شوق پیدا ہوجاتا ہے۔یعنی مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور خود بخود تحریک بھی پیدا ہوجاتی ہے
(۳)پھرایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے موسم بدلتے رہتے ہیں۔شمسی مہینوں میں رمضان ہمیشہ ایک ہی موسم میں ہوا کرتا۔ یا گرما میں یاسرما میں۔ اس طریق سے موقع ملتا ہے اورتنوع قائم رہتا ہے ۔ ان اسباب و وجوہ کی بناپر ضروری تھا کہ مہینوں کا حساب چاند سے متعلق ہو۔
۲؎ انصار جب اثنائے حج میں گھروں کو لوٹتے تو دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے بلکہ پچھواڑے سے دیواریں پھاند کرآتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ محرم کے سرپر سواآسمان کے اور کسی چیز کا سایہ نہ ہونا چاہیے۔قرآن حکیم نے بتایا کہ یہ محض وہم ہے۔دروازوں سے داخل ہونا بہتر ہے ۔
حج کا مقصد تو تقویٰ واصلاح کے جذبات کو پیدا کرنا ہے ۔ وہ ان اوہام وظنون سے پیدا نہیں ہوتے۔ ہوسکتا ہے یہ ایک ضرب المثل ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ہرکام اس طریق سے کرنا چاہیے جو درست وصحیح ہو اور جس کام سے کوئی فائدہ ہوتا ہو۔ بیکار کاوش سے کیا حاصل؟ پہلی آیت سے اس کا تعلق یہ ہوگا کہ چاند کے متعلق ایسے سوال کرنا جو شرعی لحاظ سے غیر صحیح اور غیر مفید ہیں، محض بے سود ہے ۔ تم یہ پوچھو کہ قمری مہینوں میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
تجھ سے نئے چاند۱؎ کی بابت سوال کرتے ہیں۔ تو کہہ کہ یہ لوگوں کے اور حج کے لیے ٹھیرے ہوئے وقت ہیں اور یہ نیکی نہیں کہ تم اپنے گھروں میں ان کی چھت پر سے آؤ۔ نیکی یہ ہے کہ آدمی ڈرے اور گھروں میں دروازوں سے آؤ اور خدا سے ڈرو کہ تم مراد کو پہنچو۔۲؎(۱۸۹)
۱؎ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ثعلبہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ حضورﷺ! چاند کیوں بڑھتا اور گھٹتا ہے؟ اس پر یہ جواب دیا گیا کہ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ یعنی بجائے اس کے کہ لِم بیان کی جائے۔حکمت وفلسفہ بیان کردیا اور اس طریق سے یہ بتایا کہ سوال غلط ہے۔ یہ مذہب کے موضوع سے متعلق نہیں، البتہ یہ پوچھ سکتےہو کہ چاند کے بڑھنے اور گھٹنے سے شرعی طورپر کیا فوائد مرتب ہوتے ہیں؟اسلام نے حج، صوم اور دیگر ضروریات دین کے لیے قمری مہینوں کو پسند فرمایا ہے ۔حالانکہ شمسی مہینے زیادہ واضح اور متعین ہوتے ہیں۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔قمری مہینوں کا فلسفہ
(۱) اس لیے کہ اسلام دین فطرت ہے جس میں اہل حضر سے لے کر اہل بادیہ تک سب لوگوں کی رعایت رکھی گئی ہے۔شمسی مہینے شہر کے متمدن لوگوں کو تو معلوم ہوسکتے ہیں لیکن خانہ بدوش اور غیر شہری نہیں جان سکتے۔
(۲) اس لیے بھی کہ اسلام کا مقصد صرف تعیین وتقرر ہی نہیں بلکہ تشویق وترغیب بھی ہے ۔مثلاً رمضان اگر شمسی تاریخوں میں ہوتا تو بلاکسی انتظار کے کھٹ سے آموجود ہوتا اور اس وجہ سے دلوں میں پہلے سے کوئی شوق واضطراب نہ ہوتالیکن اب لوگ ماہِ صیام کا چاند دیکھنے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں اور اس طرح طبیعتوں میں ماہِ صیام کے لیے زبردست شوق پیدا ہوجاتا ہے۔یعنی مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور خود بخود تحریک بھی پیدا ہوجاتی ہے
(۳)پھرایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے موسم بدلتے رہتے ہیں۔شمسی مہینوں میں رمضان ہمیشہ ایک ہی موسم میں ہوا کرتا۔ یا گرما میں یاسرما میں۔ اس طریق سے موقع ملتا ہے اورتنوع قائم رہتا ہے ۔ ان اسباب و وجوہ کی بناپر ضروری تھا کہ مہینوں کا حساب چاند سے متعلق ہو۔
۲؎ انصار جب اثنائے حج میں گھروں کو لوٹتے تو دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے بلکہ پچھواڑے سے دیواریں پھاند کرآتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ محرم کے سرپر سواآسمان کے اور کسی چیز کا سایہ نہ ہونا چاہیے۔قرآن حکیم نے بتایا کہ یہ محض وہم ہے۔دروازوں سے داخل ہونا بہتر ہے ۔
حج کا مقصد تو تقویٰ واصلاح کے جذبات کو پیدا کرنا ہے ۔ وہ ان اوہام وظنون سے پیدا نہیں ہوتے۔ ہوسکتا ہے یہ ایک ضرب المثل ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ہرکام اس طریق سے کرنا چاہیے جو درست وصحیح ہو اور جس کام سے کوئی فائدہ ہوتا ہو۔ بیکار کاوش سے کیا حاصل؟ پہلی آیت سے اس کا تعلق یہ ہوگا کہ چاند کے متعلق ایسے سوال کرنا جو شرعی لحاظ سے غیر صحیح اور غیر مفید ہیں، محض بے سود ہے ۔ تم یہ پوچھو کہ قمری مہینوں میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟