• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قومی یکجہتی میں مدارس اسلامیہ کا کردار

شمولیت
فروری 16، 2018
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
43
*34چوتینسویں آل انڈیا اھل حدیث کانفرنس رام لیلا میدان دھلی*
*موضوع خطاب : قومی یکجہتی میں مدارس اسلامیہ کا کردار
*مقرر: مولانا عبدالحکیم عبدالمعبود المدنی،ممبئی*
*نئی دہلی10؍مارچ 2018*
شیخ عبدالحکیم عبدالمعبود المدنی حفظہ اللہ نے رام لیلامیدان میں مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کی جانب سے منعقدہ چوتینسویں کل ہند کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران پرعزم لہجہ میں کہا کہ مدارس اسلامیہ ہماری پہچان ہیں ، دلیل کے طورپر مولانا نے تاریخ کے کچھ اوراق کے حوالے سےواضح کیا کہ یہ مدارس ھمیشہ قومی یکجہتی کا درس دیتی ہیں۔افادہ عام کے لئے پورا خطاب ھدیہ قارئین ھے ......
******الحمدالله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين وعلى آله وأصحابه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين امابعد
فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم اللّه الرحمن الرحيم

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
*محترم صدر اجلاس فضیلۃ الشیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی حفظہ اللہ*
*استاد محترم فضیلۃ الشیخ اصغر علی امام مہدی السلفی المدنی حفظہ اللہ (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند)*
**فاضل گرامی فضیلۃ الشیخ ھارون سنابلی حفظہ اللہ (ناظم عمومی مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند)*
**فضیلۃ الشیخ شیر خان جمیل احمد عمری حفظہ اللہ
(نائب ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ )*
*فاضل علماء کرام! اسلامی دینی اور ملی بھائیو!
اللہ کی حمد وثنا اور کائنات کے آخری نبی صلی الله عليه وسلم پر درود سلام کے بعد آج ھماری گفتگو کا عنوان ھے

(1) *مدارس کیا ہیں* ؟

(2) *قومی یکجہتی کیا ھے* ؟

(3)اور اس قومی یکجہتی کے فروغ میں ہمارے مدارس اسلامیہ کا اور اس سے جو جڑے ہوئے ہیں اس کے فارغین علماء ، مدرسین اور اساتذہ کا کردار کیا ھے ؟
مدرسہ وہ جگہ ہے جسے دین کی تعلیم کے لئے مخصوص کیاجاتایے ،چاھے وہ مسجد کے کسی حجرے میں ہو یا مسجد کے باہر کسی مخصوص جگہ کو مدرسے کے لئے دینی تعلیم کے لئے خاص کیا گیا ہو ۔۔
پیارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے رسالت سے لیکر آج تک دینی تعلیم کا یہ سلسلہ مدرسے کی شکل میں اور اس طرح کی درسگاہوں کی شکل میں مکہ اور مدینہ منورہ سے لیکر دنیا کے تمام گوشے میں موجود رہاہے اور آج بھی موجود ہے، اللہ تعالیٰ کے آخری نبی جناب محمد مصطفیٰ صلی الله عليه وسلم کے مکی دور میں چاھےدار ارقم کا حجرہ ہو جہاں پر صحابہ کرامؓ کو دین کی تعلیم دی جاتی تھی یا مدینہ منورہ میں مدنی دور میں صفہ کے چبوترے پرمسجد نبویؐ کی وہ درسگاہ ہو جہاں پر بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کے آخری نبی صلی الله عليه وسلم کی درسگاہِ نبوت سے فیض حاصل کیا تھا اور وہاں سے فارغ ہوئے تھے اوردین کی تعلیم پائی تھی یا اسی طریقے سے امتداد زمانہ کے ساتھ کائنات کے آخری نبی جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں مکاتیب کے نام سے یا کتابت اسلامیہ کے نام سےجانی جانے والی اور مانی جانے والی وہ درسگاہ ھوں جہاں کبھی قراء قرآن کی تعلیم بچوں کو دیا کرتے تھے، یا مفتیان اور فقہا احکام اسلام کی تعلیم دیا کرتے تھے، یا اسی طریقے سے صحابہ کرام اور ان کے شاگردان باصفا تابعین اور حضرات تبع تابعین امت کے لوگوں کی رہنمائی کا انتظام کیا کرتے تھے، یااسی طریقے سے بعد کے ادوار میں جب انسانیت ترقی پر پہنچی تعمیرات اور اس طریقے سے دوسری ٹکنالوجیاں عام ہوئیں تو مدرسے کے لئے دار الاقامہ کا سسٹم رائج ہوا ،مدرسے کے لئے ہاسٹل کا سسٹم رائج ہوا، درسگاہوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ قیام و طعام کا انتظام ہوا ،یہ تمام شکلیں جو دار ارقم سے چلیں اوراصحاب صفہ سے شروع ہوئیں اور اس طریقے سےہمارے اور آپ کے اس زمانے تک مدرسے تعلیم اور سسٹم کی شکل میں مدارس اسلامیہ کی شکل میں موجود ہیں، یہ تمام کے تمام مدارس اسلامیہ کی وہ بنیادیں ہیں وہ تعلیم گاہیں اور درسگاہیں اور اس کے نمونے ہیں، جو تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں

ہمارے ملک بر صغیر میں ،ہمارے ملک ہندوستان میں میاں صاحب کی وہ درسگاہ، میاں صاحب کی وہ تعلیم گاہ ،میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی وہ تعلیمی درسگاہ جسے مدرسہ نذیریہ کے نام سے آج بھی جانا جاتا ہے آج بھی وہ دلی کے اندر موجود ہے یا اسی طریقے سے مولانا مولانا ابراہیم آروی رحمہ الله کا قائم کر دہ مدرسہ مدرسہ احمدیہ سلفیہ آرہ ہو یا اسی طریقے سے احمدیہ سلفیہ در بھنگہ ہو یا اسی طریقے سے جنگ آزادی سے پہلے ہماری اور آپ کی آبرو دارالحدیث رحمانیہ دھلی ہو یا اسی طریقے سے ملک کے طول ارض میں پائی جانے والے وہ تعلیم گاہیں وہ ادارے ہوں وہ دینی درسگاہیں وہ مراکز ہوں جہاں پر یہ اساتذہ یہ علماء یہ دعاۃ یہ مدراس میں پڑھانے والے لوگ چٹایوں پر بیٹھ کر ،بوریوں پر بیٹھ کر، فرش گاہوں پر بیٹھ کر دین کی تعلیم ،قال اللہ وقال رسول کی صدائیں بلند کرتے ہیں یہ تمام کے تمام مدارس کے وجود کا اور اس کی تاریخ کا وہ سنہرا حصہ ہیں جو تاریخ کے صفحات پر نقش ہیں اور آج بھی ہمارےاور آپ کے گردوپیش ان کی مثالیں اور ان کے نمونے پائے جاتے ہیں قومی یکجہتی جو ہمارے عنوان کا ایک حصہ ہے قومی یکجہتی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک ملک میں ایک سوسائٹی میں رہنے والے تمام برادران تمام قومیت اور ملک کے تمام باشندوں کے ساتھ کوئی تمیز نہ کی جائے ان لوگوں کے درمیان اتحاد واتفاق کا ماحول قائم کیا جائے اور ایک خیر سگالی ایک یکجہتی کا ایسا عنوان پیدا کیا جائے ایک ایسی جوت جگائ جائے جس کے زریعہ سے سماج کے لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں، یہ قومی یکجہتی جو ہمارے اور آپ کے اس ملک ہندوستان کا ،اس کی آئین کا ،اس کے دستور کا ایک حصہ ہے در اصل کائنات کے آخری نبی جناب محمد عربی صلی الله عليه وسلم کی اس درسگاہِ نبوت کا وہ پیارا پیغام ہے وہ سنہرے عنوان ھے جسے اللہ کے آخری نبی جناب محمد مصطفیٰ صلی الله عليه وسلم نے دار ارقم سے، صفا پہاڑی سے ،مسجد نبویؐ میں اصحابِ صفہ کے چبوترے سے، بلند کیا تھا ،جہاں نفرت کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی تھی جہاں بھید بھاؤ کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی تھی، جہاں اونچ نیچ کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی تھی تمام اونچ نیچ کو ختم کر کے تمام بھید بھاؤ کو ختم کر کے اور انسانیت کو نقصان پہنچانے والے، انسانیت کو مٹانے والے انسانی قدروں کو پامال کرنے والی تمام چیزوں کو ختم کر کے مدارس کے اندر اللہ تعالیٰ کے نبی اکرم صلی الله عليه وسلم کی درسگاہوں میں اس قومی یکجہتی کی اسی خیر سگالی کی روح کو بیدار کیا جا تا تھا اور آج بھی مدارس اسی کا عنوان ہیں ۔مدارس کے کردار کو واضح کرنے کیلئے دو چھوٹے سے واقعات سنا کر اپنی بات ختم کرتا ھوں

(1)مناظراسلام ،فاتح قادیان ،شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ الله اِسی مدرسے کے پروڈکٹ تھے ،ایک جلسے میں ایک دشمن نے آپ کے اوپر جان لیوا حملہ کر دیا(اٹیک) کردیا ،مولانا ہسپتال میں چلے گئے اور دشمن مجرم پولیس کے قید میں چلا گیا ،مولانا جب شفایاب ہوکر اپنے گھر آئے تو انہیں پتا چلا کہ میری جان کا دشمن مجھ پر حملہ کرنے والا مجرم جیل میں قید ہے اور اس کے گھر کے لوگ روزی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں ،الله کی قسم ہے مدارس کی تاریخ مدارس سے فارغ ہونے والے علماء کرام کی تاریخ اور اس کی ترجمانی کرنے والے ہمارے علماء کی سنہری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری روزانہ اس کے گھر پر راشن چاول کھانے کے لئے غذا لیکر کے جاتے تھے

جب تک کہ وہ دشمن جیل سے چھوٹ کر کے نہیں آیا تو مولانا برابر اس فعل کو انجام دیتے رہے، یہ ہے مدارس اسلامیہ کی تعلیم یہ ھےمدارس اسلامیہ کا نمونہ ، وہاں کے فارغین کا وہاں سے تربیت پانے والے علماء کا نمونہ ۔

(2)دوسری اور آخری مثال آزادی کے بعد ابھی ۲۰۰۸ء میں وفات پانے والے مجاہد آزادی مولانا عبدالقیوم رحمانی کو کون نہیں جانتا ھے، ان کا ایک چھوٹا سا واقعہ ھے،
کہ آپ ایک جلسے میں گئے تھے جب جلسے سے لوٹ کر اپنے گاؤں میں آئے تو گاؤں میں ایک مزدور آدمی شہد فروخت کر رہا تھا ،شہد میں شکر کی ملاوٹ کے بنا پر لوگ اسے خریدنے کے لئے تیار نہیں ہو رہے تھے،
جب پورے گاؤں میں گھوم کر دوبارہ سہ بارہ مولانا کے پاس آیا، تو مولانا نے پوچھا کہ کیا ہوا تمھاری شہد کو کسی نےنہیں خریدا ،شہد فروخت کرنے والے نے کہا، مولانا میری شہد کو کسی نے نہیں خریدا، کوئی آگ لگا کر کے پتا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو کوئی کاغذ پر ڈال کر کے پتاکرنے کی کوشش کرتاہے اپنے اپنے طرح سے ہر کوئی اصلیت کاپتا لگانے کی کوشش کر رہا ہے، مولانا نے کہا تمھارا شہد کتنا ہے، مولانا نے اپنے گھر سے برتن منگوا کر کے پورا شہد خرید لیا
اور پوچھا کہ قیمت کتنی ہے، اس غریب نے جتنی قیمت بتائی، آپ نے پورا ادا کردیا
جب مولانا اپنے گھر کے اندر شہد لیکر پہنچے تو بیوی اور بچوں نے کہا اتنی شہد کی ہمیں ضرورت نہیں ہے

مولانا عبدالقیوم رحمانی رحمہ اللہ نےجواب دیا،
بیٹے! یہ غریب آدمی دن بھر گلی کوچوں میں گھوم کر کے دو روٹی حاصل کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے دن بھر شہد بیچنے کی مشقت کر رہا تھا، اس کی شہد کو کسی نے نہیں خریدا تو میں نے اس لئے خرید لیا اور اسے پیسہ دے دیا ہے کہ کم سے کم اس کے گھر میں آج چولھا جل سکے ،شام کے کھانے کا انتظام ہوسکے ،یہ ہمارے علماء کا، مدارس کے فارغین کا، مدارس کے پروڈکٹ کا ،وہاں پڑھنے اور پڑھانے والوں کا، اساتذہ کا، وہ سنہرا کردار تھا اورھےاور آج کے زمانے میں بھی یہ کردارہمارے اور آپ کے درمیان موجود ہے،
اس لئے میرے دینی بھائیواور دوستو!!!! ہمیں اور آپ کو چاہئے کہ ہم مدارس کے اس سنہری تاریخ کو، سنہرے ادوار کو پڑھیں اور قومی یکجہتی کے حوالے سے مدارس نے جو رول ادا کیا ہے انسانیت کو جگانے کا انسانی قدروں کو بیدار کرنے کا اور انسانیت نوازی کا جو اللہ کے آخری نبی صلی الله عليه وسلم کا درس تھا اسے پھچانیں اور اسے سماج کے اندر عام کریں ۔۔۔۔

اللہ رب العالمین سے دعا ہیکہ اللہ رب العالمین ہم تمام لوگوں کو مدارس کے اس حسین تاریخ کو حسین کردار کو پڑ ھنے کی توفیق بخشے

۔ *آمین* .
*عبداللہ زين الدين رحمانی
متعلم جامعة الرحمانية کاندیولی ممبئی*
 
Top