السلام علیکم ورحمة الله وبركاته.
قیامت کے دن اللہ رب العالمین کا دربار کہاں لگے گا؟؟؟ کیا شام میں؟؟؟
بعض لوگوں نے ساھرۃ کہا ہے. اور ساھرہ سے مراد امام ثوری نے شام کی زمین کو لیا ہے.
براہ کرم تصحیح فرمائیں. اور سوال کا جواب عنایت فرمائیں.
بارکم اللہ فیکم. جزاکم اللہ خیرا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس سلسلے میں پہلی بات یاد رکھنے کے لائق یہ ہے کہ :
( يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (سورہ ابراہیم 48)
ترجمہ : جس دن (موجودہ ) زمین ایک اور زمین سے بدل دی جائے گی ، اور آسمان بھی بدل دئے جائیں گے ، اور تمام لوگ اللہ واحد و قہار کے روبرو پیش ہو جائیں گے ‘‘
قیامت کے دن زمین و آسمان میں ایسی تبدیلیاں (Changes) لائی جائیں گی کہ وہ ایک نئی ہیئت میں اور نئے نظام کے ساتھ وجود میں آ جائیں گے۔
حدیث میں حشر کی زمین کی ہئت اس طرح بیان کی گئی ہے :
"یحشر الناس یوم القیامۃ علی ارضٍ بیضاءَ عفراءَ کقرصہ النقی لیس فیہامعلم لاحدٍ۔ قیامت کے دن لوگوں کو سفید سرخی مائل زمین پر جمع کیا جائے گا جو میدے کی روٹی کی ٹکیہ کی طرح ہوگی۔ اس پر کسی کے مکان وغیرہ نشان نہ ہوگا۔ " (بخاری کتاب الرقاق)
جب ماضی میں مادہ میں بہت سے تغیرات رونما ہوتے رہے یہاں تک کہ اس نے موجودہ زمین کی شکل اختیار کرلی تو آئندہ اس کی ساخت میں تبدیلی کا رونما ہونا ہرگز بعید نہیں ہے اور اس کا خالق یقیناً اس بات پر قادر ہے کہ اس کے عناصر ترکیبی اور اس کے طبعی قوانین کو بدل دے۔
غرضیکہ قیامت کے دن موجودہ دنیا ایک نئی دنیا سے بدل جائے گی جس کے زماں اور مکاں بالکل مختلف ہوں گے اور اس وقت لوگوں کو اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ ہوجائے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ان کی دنیا کو نئی دنیا سے بدل دینے پر قادر تھا۔ ‘‘
قرآن کی بعض آیات سے زمین میں تبدیلی کی جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں اس دن کوئی بلندی یا پستی نہیں رہے گی۔ سب پہاڑ زمین بوس کردیئے جائیں گے اور سب کھڈے بھر دیئے جائیں گے اس طرح سطح زمین ہموار اور پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور سب سے اہم تبدیلی یہ ہوگی کہ سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں کو خشک کردیا جائے۔ اور سمندر کی سطح کا رقبہ خشکی کے رقبہ سے تین گناہ زیادہ ہے اس طرح موجودہ زمین سے اس وقت کی تبدیل شدہ زمین کم از کم چار گنا بڑھ جائے گی اور دوسرے وہ زمین بالکل ہموار ہوگی۔
مسروق بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے یہ آیت تلاوت کی (
یوم تبدل الا رض غیر الارض ) اور پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! اس دن لوگ کہاں ہوں گے ! آپ نے فرمایا پل صراط پر۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 2791 سنن الترمذی رقم الحدیث 3121، مسند احمد ج 6 ص 35، سنن الدارمی رقم الحدیث 2812، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4279، صحیح ابن حبان رقم الحدیث 7380، المستدرک ج 2 ص 352)
عمرو بن میمون حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم تبدل الا رض غیر الارض کی تفسیر میں فرمایا وہ سفید زمین ہوگی گویا کہ وہ چاندی ہے اس میں کوئی حرام خون نہیں بہایا گیا ہوگا ، اور نہ اس میں کوئی گناہ کیا گیا ہے (المعجم الا وسط رقم الحدیث :7163، المعجم الکبیر رقم الحدیث :10323)
موجودہ زمین کے لحاظ سے ارض محشر کا خطہ ( سرزمین شام ) ہوگا ،
امام احمد ؒ نے مسند اور حاکم نے مستدرک میں حدیث بیان کی ہے کہ :
" تحشرون هاهنا وأومأ بيده إلى نحو الشام مشاة وركبانا، وعلى وجوهكم تعرضون على الله وعلى أفواهكم الفدام "
(نیز دیکھئے ’’ صحيح الجامع الصغير ۲۳۰۲ ‘‘
ترجمہ :۔ تم اس طرف پیدل ،سوار ،اور منہ کے بل گھسیٹتےاکٹھے کئے جاؤ گے ، ، اور اپنے ہاتھ سے ملک شام کی طرف اشارہ کیا ‘‘
اور صحیح الجامع الصغیر میں علامہ البانی نے مسند احمد وغیرہ سے سیدہ میمونہ بنت سعد کی حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : شام حشر و نشر کی سرزمین ہے
«الشام أرض المحشر والمنشر» .
(صحيح) ... [أبو الحسن ابن شجاع الربعي في فضائل الشام] عن أبي ذر. أحاديث فضائل الشام رقم 4: حم جم، ابن ماجه -ميمونة بنت سعد.
روز قیامت نئی زمین چمڑے کی طرح سیدھی ،ہموار بچھا دی جائے گی
قرآن پاک میں ارشاد ہے : ( وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ (3) اور جس دن زمین کھینچ یعنی بچھادی جائے گی
اس کی تفسیر میں امام ابن کثیر نے ابن جریرؒ کے حوالے یہ روایت بیان کی ہے
ابْنُ كَثِيرٍ عَنِ ابْنِ جَرِيرٍ بِسَنَدِهِ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: «إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَدَّ اللَّهُ الْأَرْضَ مَدَّ الْأَدِيمِ، حَتَّى لَا يَكُونَ لِبَشَرٍ مِنَ النَّاسِ إِلَّا مَوْضِعُ قَدَمَيْهِ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُدْعَى» . الْحَدِيثَ.
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو چمڑے کی طرح زمین کو کھینچ کر پھیلا دیا جائے گا پھر کسی آدمی کیلئے دو قدموں کے رکھنے سے زیادہ جگہ نہ ہوگی‘پھر سب سے پہلے مجھے پکارا جائے گا ‘‘