محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
كلاس روم كو صحيح كرنے كے ليے طالب علموں كو پيسے دينے كا كہتا اور اس كے عوض ميں انہيں شريك ہونے كے نمبر ديتا ہے
ٹيچر امتحانات سے قبل كلاس روم كى مرمت كے ليے ہم سے ( 30 ) ريال طلب كرتا ہے اور اگر مشاركت ميں نقص نہ ہو تو ہميں اس بنا پر شراكت يا امتحان كے نمبر ديتا ہے اور اس كا دعوى ہے كہ ايسا كرنا حلال ہے اور اس كى دليل يہ ديتا ہے كہ يہ نمبر پرچہ ميں نہيں ديے جاتے بلكہ آخر ميں مجموعى نمبروں ميں اضافہ ہوتا ہے، اور يہ موقع سب كے ليے ہے اس سے سب فائدہ حاصل كرسكتے ہيں، اور يہ ريال امتحانات سے قبل دينا ہونگے، اور جو طالب علم اتنے ريال دينے كى استطاعت نہيں ركھتا اس سے پيسوں ميں كمى كر دي جاتى ہے اور اور اگر تيس سے كم كيے گئے ريال بھى ادا نہ كرسكے تو اسے يہ ريال معاف كرديتا اور جس طرح تيس ريال دينے والے طلباء كو نمبر ملتے ہيں اسے بھى مليں گے، تو كيا اس كا يہ عمل صحيح ہے؟ آپ سے گزارش ہے كہ دلائل كے ساتھ تفصيلى جواب عنايت فرمائيں ؟
الحمد للہ:
مدرس كو طلباء سے كچھ بھى لينے كا حق نہيں پہنچتا اگرچہ اس رقم كا مقصد كلاس روم كى مرمت وغيرہ ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ يہ طلباء كى ذمہ دارى نہيں، بلكہ يہ ذمہ دارى تو سكول كى ہے، اور يہ مال بعض وجوہات كى بنا پر ٹيكس ميں شامل ہوتا ہے جو كہ حرام ہے، آپ ٹيكس كى حرمت كے متعلق تفصيلات كے ليے سوال نمبر ( 39461 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور پھر مشاركت كے نمبر تو طالب علم كو دوران تعليم اس كى كوشش اور جدوجہد كے ديے جاتے ہيں، نہ كہ ٹيچر يا استانى كو پيسے اور مال دينے پر، اور اسى طرح امتحان كے نمبر بھى اس كے لكھنے اور جواب دينے پر مبنى ہوتے ہيں كہ اس سے جس طرح كا جواب لكھا ہو گا اسے نمبر بھى اسى اعتبار سے مليں گے، كلاس روم كى مرمت اور اس كى سجاوٹ سے ان نمبروں كا كوئى تعلق نہيں.
لھذا استاد كا طلباء كو مال دينے كے عوض ميں نمبر دينا نظام تعليم كى مخالفت ہے، اور اس كے ساتھ لوگوں كے مالوں پر ظلم بھى ہے، اور فقير اور محتاج طلباء كا استاد كو يہ بتانا كہ سارى يا كچھ رقم ادا كرنے كى استطاعت نہيں ركھتےانہيں اس ميں حرج ہوتا ہے.
لھذا استاد كو چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كا خوف اور ڈر و تقوى اختيار كرتے ہوئے موجودہ نظام تعليم كے مطابق ہر طالب علم كو اتنے ہى نمبر دے جس كا وہ مستحق ہو، اور طلباء سے كسى بھى رقم كا مطالبہ نہ كرے چاہے وہ كتنى بھى كم ہو كيوں نہ ہو.
اور مدرس كو يہ حق ہے كہ وہ طلباء كو كلاس روم كى مرمت وغيرہ يا كسى اور خيرو بھلائى كے كام كے ليے چندہ جمع كرانے پر ابھارے كيونكہ ايسا كرنا نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں تعاون ہے، اور اس ميں طلاب كو خيروبھلائى كے كاموں ميں مال خرچ كرنے كا عادى بنانا ہے، ليكن اس كا طالب علم كے حاصل كردہ نمبروں سے كوئي تعلق نہيں ہونا چاہيے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ur/40234
ٹيچر امتحانات سے قبل كلاس روم كى مرمت كے ليے ہم سے ( 30 ) ريال طلب كرتا ہے اور اگر مشاركت ميں نقص نہ ہو تو ہميں اس بنا پر شراكت يا امتحان كے نمبر ديتا ہے اور اس كا دعوى ہے كہ ايسا كرنا حلال ہے اور اس كى دليل يہ ديتا ہے كہ يہ نمبر پرچہ ميں نہيں ديے جاتے بلكہ آخر ميں مجموعى نمبروں ميں اضافہ ہوتا ہے، اور يہ موقع سب كے ليے ہے اس سے سب فائدہ حاصل كرسكتے ہيں، اور يہ ريال امتحانات سے قبل دينا ہونگے، اور جو طالب علم اتنے ريال دينے كى استطاعت نہيں ركھتا اس سے پيسوں ميں كمى كر دي جاتى ہے اور اور اگر تيس سے كم كيے گئے ريال بھى ادا نہ كرسكے تو اسے يہ ريال معاف كرديتا اور جس طرح تيس ريال دينے والے طلباء كو نمبر ملتے ہيں اسے بھى مليں گے، تو كيا اس كا يہ عمل صحيح ہے؟ آپ سے گزارش ہے كہ دلائل كے ساتھ تفصيلى جواب عنايت فرمائيں ؟
الحمد للہ:
مدرس كو طلباء سے كچھ بھى لينے كا حق نہيں پہنچتا اگرچہ اس رقم كا مقصد كلاس روم كى مرمت وغيرہ ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ يہ طلباء كى ذمہ دارى نہيں، بلكہ يہ ذمہ دارى تو سكول كى ہے، اور يہ مال بعض وجوہات كى بنا پر ٹيكس ميں شامل ہوتا ہے جو كہ حرام ہے، آپ ٹيكس كى حرمت كے متعلق تفصيلات كے ليے سوال نمبر ( 39461 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور پھر مشاركت كے نمبر تو طالب علم كو دوران تعليم اس كى كوشش اور جدوجہد كے ديے جاتے ہيں، نہ كہ ٹيچر يا استانى كو پيسے اور مال دينے پر، اور اسى طرح امتحان كے نمبر بھى اس كے لكھنے اور جواب دينے پر مبنى ہوتے ہيں كہ اس سے جس طرح كا جواب لكھا ہو گا اسے نمبر بھى اسى اعتبار سے مليں گے، كلاس روم كى مرمت اور اس كى سجاوٹ سے ان نمبروں كا كوئى تعلق نہيں.
لھذا استاد كا طلباء كو مال دينے كے عوض ميں نمبر دينا نظام تعليم كى مخالفت ہے، اور اس كے ساتھ لوگوں كے مالوں پر ظلم بھى ہے، اور فقير اور محتاج طلباء كا استاد كو يہ بتانا كہ سارى يا كچھ رقم ادا كرنے كى استطاعت نہيں ركھتےانہيں اس ميں حرج ہوتا ہے.
لھذا استاد كو چاہيے كہ وہ اللہ تعالى كا خوف اور ڈر و تقوى اختيار كرتے ہوئے موجودہ نظام تعليم كے مطابق ہر طالب علم كو اتنے ہى نمبر دے جس كا وہ مستحق ہو، اور طلباء سے كسى بھى رقم كا مطالبہ نہ كرے چاہے وہ كتنى بھى كم ہو كيوں نہ ہو.
اور مدرس كو يہ حق ہے كہ وہ طلباء كو كلاس روم كى مرمت وغيرہ يا كسى اور خيرو بھلائى كے كام كے ليے چندہ جمع كرانے پر ابھارے كيونكہ ايسا كرنا نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں تعاون ہے، اور اس ميں طلاب كو خيروبھلائى كے كاموں ميں مال خرچ كرنے كا عادى بنانا ہے، ليكن اس كا طالب علم كے حاصل كردہ نمبروں سے كوئي تعلق نہيں ہونا چاہيے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
http://islamqa.info/ur/40234