• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لاہور میں گدھے کا گوشت

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
لاہور میں گدھے کا گوشت​
کالم: ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر، 18 نومبر 2014

لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے اور اس کے باسیوں کو زندہ دلان لاہور کا نام دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لاہور کے کھانوں کی تعریف کی جاتی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے کسی ملک میں آپ کی کسی لاہوریئے سے ملاقات ہو تو وہ لاہور کو جتنی شدت سے یاد کرے گا اس سے زیادہ اس کے کھانوں کا حسرت سے تذکرہ کرے گا۔ ویسے تو لاہور میں سب کچھ ملتا ہے مگر ایک معاصر کی اطلاع کے مطابق لاہور میں گدھے کا گوشت بھی سپلائی ہوتا ہے اور خبر کے مطابق محکمہ لائیوسٹاک کو اطلاع ملی تھی کہ حویلی لکھا کے نواح سے گدھے کا گوشت لاہور کے ہوٹلز کو سپلائی کرنے کے لئے لایا جا رہا ہے جس پر محکمہ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف اس کوشش کو ناکام بنا دیا بلکہ دو ملزمان کے قبضے سے 70 کلوگرام گوشت برآمد کر لیا۔

محکمہ لائیوسٹاک کے اہلکار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک دن گدھے کا گوشت لاہور نہیں پہنچنے دیا۔ یا کم از کم ایک پارٹی کی ایسی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ مگر اس خبر سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ لاہور میں گدھے کے گوشت کی باقاعدہ طلب ہے اور طلب کو پورا کرنے کے لئے بہت سے لوگ سرگرم عمل رہتے ہیں۔ خبر میں یہ تو بتایا گیا ہے کہ دو ملزمان محمد رفیق ا ور محمد نور کو گرفتار کر لیا گیا ۔ مگر ان ملزمان سے تفتیش کے نتائج کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ لاہور میں گوشت کھانے کا ہر شوقین شبہ کر سکتا ہے کہ وہ گائے بھینس یا بکرے کی بجائے گدھے کا گوشت کھاتا رہا ہے۔

چند سال پہلے لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں چند لڑکے وارڈن کے پاس یہ شکایت لے کر گئے تھے کہ ان کے ہاسٹل میں گدھے کا گوشت پکایا جا رہا ہے۔ ہکا بکا وارڈن نے طلبا کو بتایا کہ گوشت باقاعدہ ٹولنٹن مارکیٹ سے آتا ہے اور اس میں کسی گھپلے کا کوئی امکان نہیں۔ مگر طلبا بضد تھے کہ گوشت میں کوئی بڑی گڑبڑ ہو رہی ہے۔ ان کے شبہہ کی وجہ دریافت کی تو طلباء نے بتایا کہ ہاسٹل کا گوشت کھانے سے جس تیزی کے ساتھ طلبا کا نہ صرف دماغ موٹا ہو رہا ہے بلکہ ان کی کرتوتیں بھی بدمعاش گدھوں جیسی ہو رہی ہیں اسے صرف گدھے کے گوشت کا ہی کمال قرار دیا جاسکتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ لاہور میں مردہ مرغیاں بھی سپلائی کی جاتی ہیں اور بہت سے لوگ انہیں ذوق و شوق سے کھاتے ہیں۔ ان کے مطابق دور دراز کے شہروں سے جب مرغیوں کو لاہور لایا جاتا ہے تو راستے میں ان میں سے بہت سی مرغیاں ہلاک ہو جاتی ہیں۔ لاہور میں داخلے سے پہلے ہی ان مردہ مرغیوں پر چھری چلا دی جاتی ہے اور ان کا گوشت بنا لیا جاتا ہے۔ اس گوشت کو ’’کھیر‘‘ کا کوڈ نام بھی دیا جاتا ہے۔ دکاندار ان مرغیوں کو تقریباً آدھے ریٹ پر خریدتے ہیں اور ان کے بروسٹ یا کڑاہی بنا کر فروخت کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ان مردہ مرغیوں کا گوشت بطور رشوت ناکوں پر کھڑے ہوئے سپاہیوں کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ ناکے سے گزرنے کے بعد اکثر مرغیوں کی گاڑیوں کے ڈرائیور زوردار قہقہہ لگا کر اپنے ساتھی ڈرائیوروں کو بتاتے ہیں ’’آج تو سپاہیوں کو خالص حرام کھلا کر آ رہے ہیں۔‘‘

انگریز مجسٹریٹ نے جب مرزا غالب سے ان کا مذہب دریافت کیا تھا تو انہوں نے بتایا تھا کہ آدھا مسلمان اور آدھا کرسچئن اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ شراب پیتا ہوں سور نہیں کھاتا۔ امریکہ اور یورپ میں اکثر مسلمان آج بھی مرزا غالب کی تقلید کرتے ہیں۔ شراب پی لیتے ہیں مگر سور کھانے سے سخت پرہیز کرتے ہیں۔ مسلم فوڈ کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اس میں خنزیر کی کوئی چیز شامل نہیں ہے۔

آپ کو ایسے بے شمار واقعات سننے کو ملیں گے کہ وہاں کسی صاحب کو پتہ چلا کہ اس نے غلطی سے چند ماہ قبل سور کھا لیا تھا تو اس کے بعد وہ کئی کئی دن قے کرتے رہے۔ مغرب میں آپ کو کئی ایسے پرہیزگار مسلمانوں کی زیارت بھی ہو سکتی ہے جو فخر سے بتائیں گے کہ وہ نہ تو شراب پیتے ہیں اور نہ ہی سور کھاتے ہیں۔ گدھا کھانا اس لئے حرام اور مکروہ ہے کہ اس کی مذہب میں ممانعت کی گئی ہے وگرنہ چین‘ کوریا جیسے کئی ممالک میں گدھا ذوق و شوق سے کھایا جاتا ہے اور ایسے لوگوں کا شمار باقاعدہ معززین میں ہوتا ہے۔ وہاں ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ کی بجائے ’’یہ منہ اور گدھے کا گوشت‘‘ جیسے محاورے استعمال ہوتے ہیں۔

پاکستان میں جب موٹر وے بن رہی تھی تو یہاں کوریا کے انجینئر اور مزدور کام کر رہے تھے۔ وہ اپنے قریبی علاقوں میں کتوں کا اسی طرح شکار کرتے تھے جیسے ہمارے ہاں معزز شکاری ہرن کا شکار کرتے ہیں اور اس کے بعد باقاعدہ کتے کے گوشت کی گرینڈ پارٹی کی جاتی تھی۔ ہمارے چینی بھائی بھی گدھے اور کتے کا گوشت کھاتے ہیں اور جن لوگوں کو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے وہ بتاتے ہیں کہ چینی کتے یا گدھے کے گوشت کے تحفے کو خاصی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ تم اونٹ سموچا نگل جاتے ہو مگر مچھر پر دلیلیں تلاش کرتے ہو۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ہم اپنے مسلمان ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو کسی نہ کسی انداز میں اللہ کی برگزیدہ قوم کے درجے پر فائز کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ مگر ہم کبھی اس پر غور نہیں کرتے لوگ کس طرح دوسروں کو گدھوں اور کتوں کا گوشت کھلانے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں ایک ایسا دور بھی تھا جب لوگ حرام کی کمائی سے ہی نہیں بلکہ حرام کی کمائی کھانے والوں سے بھی نفرت کرتے تھے۔ اب دولت کو ہر چیز کا متبادل قرار دیا جاتا ہے۔ آج بہت سے لوگ آپ کو فخر سے یہ بھی بتائیں گے کہ ہم کتاب نہیں پڑھتے مگر کتاب پڑھنے والوں کو ملازم ضرور رکھتے ہیں۔ اس طرح ہم خود تو نماز سے دور رہتے ہیں تاہم مساجد کی خدمت ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ دولت کمانے کے لئے جب ہر غلط اور حرام کام فیشن بن جائے تو پھر گدھے کے تکے یا کڑاہی کھانے میں کیا حرج ہے؟ ہمارے ارد گرد بے شمار معززین روزانہ عوام کا خون پیتے ہیں اور اپنے لئے ’’مردم خوری‘‘ کو جائز سمجھتے ہیں۔ کاش! کبھی ہم ذاتی مفادات کی عینک پریڈ اتار کر ان کی شناخت پریڈ بھی کریں۔

ح
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اس پر ایک سچا واقعہ بتاتا چلوں کچھ عرصہ پہلے ہمارے محلہ میں سے ایک سبزی بیچنے والے کا گدھا واقعی گم ہو گیا ہے رات کو کسی نے چرا لیا ہے اب یہ خبر پڑھ کر معاملہ سمجھ آ گیا اس لئے
جس کسی نے کھایا ہو اس سے گزارش ہے کہ اس سبزی والے سے معافی مانگ کر یا نقصان کا ازالہ کر کے گناہ معاف کروا لے
 
Last edited:
Top