9۔دامانوی صاحب قسطنطنیہ پر چوتھا حملہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید کے زیرامارت ہونا بیان کرتے ہوئے اس کے تحت سنن ابو داؤد کی اسلم ابوعمران والی روایت ذکر کرتے ہیں، جس میں ہے :
’’وعلی الجماعۃ عبد الرحمٰن بن خالد بن الولید‘‘
’’جماعت پر عبدالرحمن بن خالد بن الولید امیر تھے۔‘‘
اسی روایت میں ابوعمران یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ
’’فلم یَزل أبو أیوب یجاھد في سبیل اﷲ حتی دُفن بالقسطنطینیۃ ‘‘
’’پس ابوایوب مسلسل (بغیر کسی انقطاع کے) اللہ کے راستے میں جہاد کرتے رہے یہاں تک قسطنطنیہ میں دفن ہوئے۔‘‘
اس روایت سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ عبدالرحمن بن خالد جب جماعت پرامیر تھے، یہ غزوہ جاری رہا اور ابوایوب انصاریؓ اس میں وفات پاگئے۔ جبکہ صحیح بخاری کی محمود بن ربیع والی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
فحدثتھا قومًا فیھم أبو أیوب صاحب رسول اﷲ ! في غزوتہ التي تُوفي فیہا ویزید بن معاویۃ علیہم بأرض الروم (صحیح بخاری:۱؍۱۵۸)
’’پس میں نے یہ حدیث ایسے لوگوں کوبیان کی جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی ابوایوب بھی تھے۔ اس غزوہ میں جن میں وہ وفات پاگئے اور یزید بن معاویہ ان پر امیر تھے۔‘‘
یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ اسلم ابوعمران کی روایت میں بھی ابوایوب کی وفات کا ذکر ہے اور اس حدیث ِمحمود بن ربیع میں بھی ان کی وفات کا ذکر ہے۔عبدالرحمن بن خالد کی اِمارت والے غزوہ میں ان کی عدم واپسی اور مسلسل جہاد اور پھر وفات ثابت ہے اور اس حدیث میں بھی۔ لہٰذا یہ دونوں روایات ایک ہی غزوے یا واقعے کے متعلق ہیں۔ اَب رہ گئی یہ بات کہ عبدالرحمن بن خالد بھی امیر ہیں اور یزید بن معاویہ بھی تو اس میں منافات نہیں بلکہ تطبیق ممکن ہے۔چونکہ یہ نہایت اہم غزوہ ہے، اس بنا پر سیدنا معاویہؓ نے اس کے لیے بہت بڑا لشکر بھیجا تھا اور اہل مصر کی جماعت پر عقبہ بن عامر امیر تھے، اہل شام کی جماعت پر فضالہ بن عبید اور مدینہ سے آنیوالی جماعت پر عبدالرحمن بن خالد امیر تھے جبکہ تمام لوگوں پر یزید بن معاویہ امیرتھے۔
اس تطبیق سے اس اشکال کا حل بھی نکل آتا ہے کہ جامع ترمذی کی روایت میں
وعلی الجماعۃ فضالۃ بن عبید ’’جماعت پر فضالہ بن عبید امیر تھے۔‘‘
کے الفاظ آئے ہیں اور دامانوی صاحب یا ان کے اُستاذ صاحب نے ان الفاظ کو وہم قرار دیاہے، کیونکہ وعلی الجماعۃ فضالۃ بن عبید اور وعلی أھل الشام فضالۃ بن عبید میں کوئی فرق نہیں ہے،کیونکہ الجماعۃ سے مراد اہل شام ہی کی جماعت ہے اور عبدالرحمن بن خالد بھی الجماعۃ پر امیر تھے، لیکن وہ الجماعۃ جو مدینہ سے نکلی تھی جیسا کہ اسلم ابوعمران کے الفاظ اس کی تائید کرتے ہیں۔
غزونا من المدینۃ نرید القسطنطینیۃ سے پتہ چلا کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اور الجماعۃ پر عبدالرحمن بن خالد امیر تھے، یعنی وہ جماعت جو مدینہ سے نکلی تھی۔ یہی بات دکتور صلابی نے اپنی کتاب میں لکھی ہے:
’’یعنی الجماعۃ الذین غزوا من المدینۃ یعنی وہ جماعت جو مدینے سے جہاد کے لیے نکلی تھی، جبکہ قائد ِعام یزید بن معاویہ ہی تھے۔‘‘ (الدولۃ الأمویۃ:۲؍۳۶)
دامانوی صاحب ’’اس وضاحت سے کئی باتیں ثابت ہوئیں‘‘ کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’قسطنطنیہ پر ان حملوں کے دوران پوری جماعت پر عبدالرحمن بن خالد امیر تھے۔‘‘(ص۷۰)
حالانکہ اس کی اُنہوں نے کوئی صریح دلیل پیش نہیں کی۔پھر لکھتے ہیں:
’’شروع کے حملوں میں یا اوّل جیش میں یزید بن معاویہ شامل نہ تھے،کیونکہ یہ واقعات ۴۴ھ۴۵ھ۴۶ھ کے دوران پیش آئے تھے اور یہ حملے یزید بن معاویہ کے ۴۹ھ کے حملے سے پہلے ہوئے تھے۔ ‘‘ (ص۷۱)
تو عرض یہ ہے کہ دامانوی صاحب اپنے ان دعووں پرکوئی قابل اعتبار صحیح اور متصل سند والی کوئی روایت پیش کریں، کیونکہ ان کے بقول
’’بے سند روایت کا وجود اور عدمِ وجود برابر ہے۔‘‘
بہرحال کچھ مزید غلطیاں بھی ان کی تحریر میں موجود ہیں، لیکن ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ جو تطبیق ہم نے بیان کی ہے، اگر کسی کو اس سے اتفاق نہ ہو تو نہ کرے۔ اگر وہ کسی کو جنتی نہیں مانتے تو نہ مانیں، لیکن کسی کو بزور جہنمی ثابت کرنے کی بھی کوشش نہ کریں۔ ہم تو ان تمام کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ
’’ تِلْکَ أمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ وَلَاتُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘ ـ(البقرہ:۲؍۱۴۱)
’’یہ امت ہے جوگزر چکی جو انہوں نے کیا ان کے لیے ہے اور جو تم نے کیا تمہارے لیے،تم ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ کیے جائو گے۔‘‘
اورحضرت عیسیٰؑ کا قول جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکرکیا ہے:
’’ إنْ تُعَذِّبْھُمْ فَإنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإنْ تَغْفِرْلَھُمْ فَاِنَّکَ أنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘‘ (المائدۃ:۵؍۱۱۸)
’’ اگر تو ان کوسزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کومعاف فرما دے تو تو غالب ہے حکمت والا ہے۔‘‘