• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لفظ حدیث اور اہل حدیث پر تحقیق

شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
173
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
قران پاک میں ہے کہ تم اس قران کے بعد کون سی حدیث کا انتظار کر رہے ہو جس پر تم نے ایمان لانا ہے (المرسلات 50) گویا قران کو ہی حدیث کہا جا رہا ہے اور اس کے بعد کسی اور حدیث کی نفی کی جا رہی ہے۔
جہاں تک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اطاعت کا تعلق ہے تو اس کے لیے اللہ تعالی نے اسوہ حسنہ کا لفظ استعمال کیا ہے نہ کہ حدیثوں کا (الاحزاب21) اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی سنت پر چلنے کا حکم دیا ہے نہ کہ اپنی حدیثوں پر (ابوداود 4612)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور اپ کی سنت کا ہمیں کیسے پتہ چلے گا؟ تو اول تو یہ صرف فروعی مسائل میں منحصر نہیں بلکہ اصلاح نفس وقلب وباطن کا نام بھی یے اور فکر آخرت اور فکر دیں و تبدیلی یقین و مقصد بھی ہے تو اس کے لیے قران نے ہمیں یہ کہا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو جو ہماری طرف متوجہ ہے (لقمان15) یعنی اللہ والوں کے پیچھے چلو وہ تمہیں نبی کی صحیح صحیح سنت سے جوڑ دیں گے اور اسی طرح قران پاک نے کہا کہ تم انعام یافتہ لوگوں کی پیروی کرو (فاتحہ6) یعنی جو اللہ تعالی کے محبوب بندے ہیں وہ تمہیں نبی پاک ﷺ کے صحہح صحیح اسوہ حسنہ پر چلا دینگے
اور جہاں تک اجتہادی مسائل کا تعلق ہے تو قران پاک میں اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ ہم نے ان میں سے امام بنائے جو کہ ان کی ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے ہیں (الم سجدہ 24) یعنی یہ امام مجتہد ہمیں عقائد و مسائل میں سنت کا صحیح پتہ دیں گے اسی طرح سے اللہ جل شانہ نے قران پاک میں فرمایا کہ تم سارے کے سارے دین کا تفصیلی علم سیکھنے کے لیے مت نکل کھڑے ہو بلکہ ایک بڑے علاقعے کے لوگوں میں سے ایک جماعت نکلے اور وہ دین میں تفقہ یعنی اچھی طرح اور گہری سمجھ بوجھ حاصل کریں اور واپس آکر باقی سب لوگوں کو اللہ کی فرمانبرداری پر ابھاریں اور نافرمانی سے ڈرائیں (توبہ 122) یعنی گویا ان تمام ایات کے اندر ہمیں اہل اللہ، علمائے فقہ، آئمہ مجتہدین اور اولیاء کی اتباع کا حکم دیا جا رہا ہے جن سے ہمیں نصوص کے ساتھ اجتہادی عقائد ومسائل کا علم بھی ملیگا اور اپنی اصلاح نفس و قلب و باطن بھی ہوگی یقین و فکر و مقصد کی اصلاح بھی ہوگی اور اس سب کے مجموعے کا نام سنت اور اسوہ حسنہ ہے
اسی طرح سے نبی پاک ﷺ وسلم نے بھی فرمایا کہ میرے بعد میرے خلفاء راشدین کی اتباع کرنا (ابوداود 4607) اور ایک جگہ فرمایا کہ نجات یافتہ طبقہ وہ ہے جو میرے صحابہ کی جماعت کے ساتھ ہوگا (ابن ماجہ 3992) اور دوسری روایت میں ہے کہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہوگا (ترمذی 2641) پھر خیرالقرون کے تابعین و تبع تابعین علماء کی تعریف کی اور ان کو بہترین زمانے قرار دیا (بخاری 6695)
ان تمام رواہتوں میں ہمیں یعنی عوام الناس کو خلفا، صحابہ، خیرالقرون کے علما کے حوالے کیا جا رہا ہے نا کہ عوام خود حدیثوں کو پڑھ پڑھ کر صرف اختلافی عقائد و مسائل اخذ کرے اور اپنی اصلاح نفس و باطن اور یقین و فکر آخرت و مقصد دعوت کو سیکھنے سے غافل رہے
البتہ اتنی پہچان ضروری ہے کہ جن علما و اہل اللہ کی اتباع کررہے ہیں وہ متبع سنت ہوں باشرح ہوں فرقہ پرست و قبر پرست نا ہوں اولیا سے مانگنے کی بجائے ان کے راستے ہر چل کر اللہ سے لینا سکھانے والے ہوں جادو ٹونے اور حاجت روائی و مشکل کشائی کیلئے استعمال نا کئے جاتے ہوں صرف اصلاح نفس و باطن کرتے ہوں فرقوں کی طرف بلانے والے نہ ہوں بلکہ اللہ سے جوڑنے والے ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل سنت زندگی سے جوڑنے والے ہوں اتنا دیکھنا عام ادمی کے ذمے ہے
جہاں تک تعلق ہے لفظ اہل حدیث کا تو یہ محدثین کے لیے بولا گیا جیسے مفسرین کے لیے اہل تفسیر اور مورخین کے لیے اہل تاریخ بولا جاتا ہے محدثین وہ ہیں جنہوں نے حدیثوں کو جمع کیا جو کہ علم کا ایک شعبہ ہے نہ کہ کوئی فقہی واصلاحی سلسلہ اور یہ حدیثوں کا علم اہل اللہ اولیاء اللہ اور علمائے حق کا خاصہ ہے کہ وہ اسلاف کے تواتر عملی کے ساتھ ساتھ انہیں پڑھ کر عام لوگوں کی راہنمائی کریں سنت زندگی و فکر و مقصد سے متعارف کروا کر اللہ سے جوڑنے کا کام کریں نہ کہ لوگ خود حدیثوں سے دین کو اخذ کریں اور اہل اللہ سے بیزار ہو جائیں یا بغیر اہل اللہ کی پہچان کے ہر ایک کے پیچھے لگ جائیں یہ دونوں چیزیں غلط ہیں
جن ائمہ نے یہ کہا ہے کہ جب حدیث صحیح ہوگی تو یہ ہمارا مذہب ہے تو یہاں حدیث سے مراد بھی سنت ہے کیونکہ خالی سند کا صحیح ہونا کافی نہیں بہت سی صحیح احادیث ہیں لیکن منسوخ و متروک ہیں ۔ صحیح حدیث کا سند کے ساتھ ساتھ معنی کے اعتبار سے صریح ہونا یعنی ذومعنی و مبہم نہ ہونا اور غیر معارض ہونا اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بہا ہونا ضروری ہے اور ایک بھی شرط مفقود ہے تو یہ صحیح نہیں، نص نہیں اجتہادی امر ہے جس میں مجتہد کی تقلید واجب ہے اور ذاتی فہم و ناقصین کی اقتدا حرام ہے خواہ انہوں نے اپنے اوپر قرآن حدیث کے خوشنما لیبل لگائے ہوں اور یہ ساری چیزیں علمائے مجتہدین اور علمائے فقہ ہی جان سکتے ہیں عام علما بھی صرف وعظ و نصیحت کا کام کریں نماز جمعہ نکاح، جنازے اور بچے پڑھائیں خود فقیہ اور مجتہد نا بنیں اور عقائد و مسائل میں ان مجتہد و فقیہ علما کی پیروی کریں چہ جائیکہ عوام الناس حدیثیں پڑھ پڑھ کے جہالت پھیلائیں
اہل حدیث بطور فرقہ یا فقہی سلسلہ دور انگریز تک امت میں کبھی بھی رائج نہیں رہا صرف محدثین کو اہل حدیث کہا جاتا تھا جو کہ اہل قرآن اہل تفسیر اور اہل تاریخ کی طرح علم کا ایک شعبہ تھا ۔ محدثین یا اہلحدیث کے ہاں حدیثوں کو باقاعدہ جمع کرنے کا کام بھی دو صدیوں بعد ہوا ہے جو امام بخاری ؒ سے شروع ہوا جنکی پیدائش 194ھ ہے فقہ اس سے پہلے فقہ مرتب ہوئی ہے جو امام ابوحنیفہ ؒ سے شروع پوئی جو 80ھ میں پیدا ہوئے
حدیث بنیادی طور پر مجتہد و فقیہ علماء کا سورس ہے نا کہ عوام الناس کا اور عام علما اور عوام الناس کا اگر سورس ہے تو صرف وعظ و نصیحت کی حد تک جنکا تعلق فضائل سے پے
حدیث اصل میں دور نبوی ﷺ اور خیرالقرون کے اندر ہونے والے اقوال، افعال اور واقعات کا مجموعہ ہے جن کا تعلق نبی پاک ﷺ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین سے ہے ان می ناسخ منسوخ، عام خاص معمول بہا اور بحالت عذر بطور رخصت چیزیں مکس ہیں ان سے سنت واسوہ اخذ کرنا اور ان کو روحانی اصلاح و باطنی اصلاح کے لیے استعمال کرنا یہ بنیادی طور پر علماء کرام، اہل اللہ اور اولیاء کرام کا کام ہے عوام الناس کا کام ان اہل اللہ، اولیاء اور علماء کی اتباع کرنا ہے اس پہچان کے ساتھ کے وہ فرقہ پرستی نا پھیلاتے ہوئے فروعات میں نا جھگڑتے ہوں شرک کا کاروبار نہ کرتے ہوں
بغیر پہچان کے پر ایک کے پیچھے لگ جانا بریلویت ہے اور عوام الناس کو حدیثوں کا ماہر بنانا اور اولیاء واہل اللہ سے غافل ودور کرنا یہ غیر مقلدیت ہے
برصغیر میں اس وقت جتنے بھی فرقہ واریت ہے اس کا اغاز حدیثوں کے اردو ترجمے سے ہوا جو کہ ایک تقیہ باز شیعہ علامہ وحیدالزماں حیدرآبادی نے اہل حدیث فرقے میں گھس کے کیا جس کے بعد ایک ہوا چل پڑی کہ ہر ادمی اٹھ کر یہ کہنے لگا کہ حدیثوں میں یہ لکھا ہے اور وہ لکھا ہے جبکہ اس کو حدیثوں کی پوری سمجھ اور فہم حاصل نہیں تھا اسکے دماغ کی رسائی صرف چند اختلافی حدیثوں تک ہوتی ہے۔ اج کل کے دور میں ایسی ایپ بنا دی گئی ہیں کہ جن کے ذریعے سے ہر ادمی ان کو پڑھ پڑھ کر مسائل میں گھستا ہے اور فرقہ واریت پھیلاتا ہے جن میں سے ایک بڑی مثال اج کل مرزا محمد علی انجینیئر بھی ہے جو حدیثوں کو صرف اس لئے استعمال کرتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو مطعون کیا جا سکے صحابہ کی قدر کو کم کیا جاسکے ان کے باہمی اختلافات اور بشری کمزوریوں کو خوب اچھالا جائے اہل بیت اور علی رضی اللہ عنہ کی شان میں غلو کیا جائے اور لوگوں کو فروعی وتاریخی مسائل میں مبتلا کر کے فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا جائے۔
ترجمہ شدہ حدیثوں کو جب عام انسان تفصیلا شروع سے آخر تک پڑھتا ہے تو اسکے ذہن میں کئی خلجان پیدا ہوتے ہیں کئی احادیث میں باہم تعارض ہوتا ہے جس میں تطبیق و ترجیح کے اصول وہ نہیں جانتا بعض اسکو جدید دور کے اخلاقی تقاضوں کے خلاف لگتی ہیں بعض اسکی سمجھ سے اوپر ہوتی ہیں بعض میں اسکو مقدس ہستیوں کا قد بہت چھوٹا لگتا ہے اور وہ خلجان میں مبتلا ہو کر اسے چوں چوں کا مربہ سمجھتا ہے اور بعض لوگ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلافات سے تنگ آکر بالآخر حدیث سے ہاتھ دھو بیٹھتے یے منکر حدیث بن جاتے ہیں جیسا کہ غلام احمد پرویز اور اسکے متبع طبقے کے ساتھ ہوا۔ واللہ اعلم
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,020
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
یہ تمام تر قباحتیں، مسائل ، پیچیدگیاں، الجھنیں وغیرہ تو فقہ حنفی میں بھی ہیں۔اور انہیں اختلافات کا تحفہ دیوبندی پھر حیاتی دیوبندی اور مماتی دیوبندی اور بریلوی وغیرہ بھی ہیں۔ ہماری محتاط رائے میں قادیانیت بھی فقہ حنفی کا پودا ہے جو اب تناور درخت بن چکا ہے۔ اگر آپ فقہ حنفی کی مصیبتوں پر بھی کچھ لکھ دیتے تو قاری تک صحیح معلومات پہنچ جاتی۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
650
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
77
تمہارے اپنے ہی الفاظ تمہاری تضاد بیانی کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔ ایک طرف تم یہ کہتے ہو کہ :

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی سنت پر چلنے کا حکم دیا ہے نہ کہ اپنی حدیثوں پر
اور دوسری طرف خود ہی تسلیم کرتے ہو کہ :


جن ائمہ نے یہ کہا ہے کہ جب حدیث صحیح ہوگی تو یہ ہمارا مذہب ہے تو یہاں حدیث سے مراد بھی سنت ہے
اگر حدیث اور سنت میں فرق ہے، تو پھر اماموں کے قول میں حدیث کو سنت کے مترادف ماننے پر تمہارا اعتراض کہاں گیا؟ اور اگر حدیث سے ہی سنت اخذ کی جاتی ہے، تو پھر تمہارا یہ دعویٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "حدیثوں" پر چلنے کا حکم نہیں دیا، سراسر غلط ثابت ہوتا ہے۔

تمہاری اپنی دلیل تمہیں ہی رد کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سنت اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ حدیث ہی سنت کا سب سے بڑا ماخذ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کو حدیث کہتے ہیں، اور جب انہی حدیثوں پر مسلسل عمل کیا جاتا ہے تو وہ سنت کہلاتی ہے۔ اگر حدیث کو نہ پڑھا جائے تو پھر "سنت" کہاں سے معلوم ہوگی؟ تمہارا یہ تضاد اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہارا مؤقف علمی اصولوں پر نہیں بلکہ محض اپنی خواہشات پر قائم ہے۔

تم دوسروں کو یہ کہہ رہے ہو کہ :

خود فقیہ اور مجتہد نا بنیں اور عقائد و مسائل میں ان مجتہد و فقیہ علما کی پیروی کریں چہ جائیکہ عوام الناس حدیثیں پڑھ پڑھ کے جہالت پھیلائیں
لیکن دوسری طرف تم نے اپنی پوری پوسٹ میں کسی بھی مستند فقیہ یا مجتہد کا کوئی قول نقل نہیں کیا، بلکہ خود ہی حدیثوں کے اردو ترجمے لکھ کر ان سے خودساختہ، باطل استدلال گھڑ لیے!

سب سے پہلے تمہیں خود اپنی بات پر عمل کرنا چاہیے تھا! لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ:

کہیں قرآن کی آیت کا سیاق و سباق توڑے بغیر سوچے سمجھے غلط استدلال کر رہے ہو،
کہیں حدیثوں کے تراجم نقل کر کے اپنی من پسند تشریح کر رہے ہو،
اور کہیں خود ہی حدیث سے سنت اور سنت سے حدیث کے بارے میں متضاد دعوے کر رہے ہو!

کیا یہ کھلی جہالت نہیں؟

تم ایک طرف یہ دعویٰ کرتے ہو کہ :

ہمیں یعنی عوام الناس کو خلفا، صحابہ، خیرالقرون کے علما کے حوالے کیا جا رہا ہے نا کہ عوام خود حدیثوں کو پڑھ پڑھ کر صرف اختلافی عقائد و مسائل اخذ کرے
لیکن دوسری طرف خود قرآن کی آیات اور حدیثوں کو براہ راست نقل کر کے اختلافی مسائل چھیڑ رہے ہو!

اگر تمہارے اصول کے مطابق عوام الناس کو براہ راست قرآن و حدیث کو دلیل نہیں بنانی چاہیے، تو پھر تم خود کیوں یہی کام کر رہے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا یہ طرزِ عمل سراسر علمی تضاد اور دوغلے معیار کی واضح مثال ہے۔

ہم اہل حدیث اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دین کا اصل ماخذ قرآن و حدیث ہیں، اور اس کو سمجھنے کے لئے فہم سلف صالحین والا لیا جائے گا۔ ہاں اس دور کے علما کی رہنمائی بھی ضروری ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کو کتاب و سنت سے کاٹ دیا جائے اور انہیں صرف مخصوص افراد کے اقوال پر منحصر کر دیا جائے۔ تمہارا یہ نظریہ درحقیقت عوام کو جامد مقلد بنانے کی کوشش ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں "تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ" (میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رہو گے، ہرگز گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔ (موطا امام مالک، حدیث: ٣٣٣٨)) کا درس دیا ہے۔

تمہاری دلیل خود تمہارے خلاف گواہی دے رہی ہے!

ایک طرف تم یہ الزام لگاتے ہو کہ :

برصغیر میں اس وقت جتنے بھی فرقہ واریت ہے اس کا اغاز حدیثوں کے اردو ترجمے سے ہوا
جبکہ دوسری طرف خود تم اپنی اسی پوسٹ میں حدیثوں کے اردو ترجمے لکھ کر اپنے من پسند نتائج اخذ کر رہے ہو۔ اگر تمہارے اصول کے مطابق حدیثوں کے اردو ترجمے سے فرقہ واریت پھیلتی ہے، تو پھر تم خود یہ عمل کیوں کر رہے ہو؟ تم یہاں فرقہ واریت کیوں پھیلا رہے ہو؟

حقیقت یہ ہے کہ حدیث کا ترجمہ کرنا اور اسے عام لوگوں تک پہنچانا کسی طور پر غلط نہیں بلکہ عین دین کی خدمت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً" میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔ (صحيح البخاري، حدیث: ۳۴۶۱)۔ دین کو عام فہم زبان میں پیش کرنا ہر دور میں علما کا طریقہ رہا ہے، ورنہ تو تمہارے اصول کے مطابق قرآن کے بھی اردو تراجم بند کر دینے چاہئیں!

مزید برآں، تم خود ہی اپنی باتوں کے جال میں پھنس رہے ہو۔ اگر حدیث کا اردو ترجمہ لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے، تو پھر تم نے اسی پوسٹ میں احادیث کو اردو میں لکھ کر اپنی دلیل کیوں بنائی؟ اگر اردو ترجمہ فرقہ واریت کو جنم دیتا ہے، تو تمہارا یہ طرزِ عمل کیا ثابت کرتا ہے؟

جہاں تک تعلق ہے لفظ اہل حدیث کا تو یہ محدثین کے لیے بولا گیا جیسے مفسرین کے لیے اہل تفسیر اور مورخین کے لیے اہل تاریخ بولا جاتا ہے محدثین وہ ہیں جنہوں نے حدیثوں کو جمع کیا جو کہ علم کا ایک شعبہ ہے
یعنی تمہاری نظر میں "اہل حدیث" صرف وہ لوگ ہیں جو حدیث جمع کرنے اور روایت کرنے کا کام کرتے ہیں!

لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جو خود ائمہ اہل السنۃ میں سے ایک بڑے امام اور حدیث و فقہ دونوں کے جامع تھے واضح طور پر فرماتے ہیں کہ :
صاحب الحديث عندنا من يستعمل الحديث ہمارے نزدیک اہل حدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے۔ [الجامع لعلوم الإمام أحمد، ج : ١٥، ص : ٤١٣]

یہ قول تمہاری بات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے! امام احمد رحمہ اللہ نے یہ نہیں کہا کہ اہل حدیث صرف وہ ہیں جو حدیث روایت کرتے ہیں، بلکہ وہ لوگ بھی "اہل حدیث" میں شمار ہوتے ہیں جو حدیث کو اپناتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔

پس تمہاری بات امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے قول کے خلاف ہے، اور جب ایک طرف تم ہو اور دوسری طرف امام احمد بن حنبل جیسے سلف صالحین کا قول، تو کسی کے لیے بھی فیصلہ کرنا آسان ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے!

آخر میں تم نے ایک بات کہی :
اور وہ خلجان میں مبتلا ہو کر اسے چوں چوں کا مربہ سمجھتا ہے اور بعض لوگ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلافات سے تنگ آکر بالآخر حدیث سے ہاتھ دھو بیٹھتے یے منکر حدیث بن جاتے ہیں جیسا کہ غلام احمد پرویز اور اسکے متبع طبقے کے ساتھ ہوا
جبکہ تمہاری اس پوسٹ کی ابتدا میں ہی تم خود غلام احمد پرویز کے طریقے پر چلتے ہوئے آیات کے ترجمے کو نقل کرکے منکرین حدیث والے باطل اور خود ساختہ معانی گھڑے ملاحظہ فرمائیں :

قران پاک میں ہے کہ تم اس قران کے بعد کون سی حدیث کا انتظار کر رہے ہو جس پر تم نے ایمان لانا ہے (المرسلات 50) گویا قران کو ہی حدیث کہا جا رہا ہے اور اس کے بعد کسی اور حدیث کی نفی کی جا رہی ہے۔
تم نے بھی غلام احمد پرویز کی طرح ایک آیت کو سیاق و سباق سے ہٹا کر اس سے غلط مطلب نکال لیا! تم خود تو قرآن وحدیث کے ترجمے سے چوں چوں کا مربہ بنا رہے ہو۔

تمہاری باتیں آپس میں متضاد ہیں جو تمہارے موقف کو کمزور اور تمہارے دعویٰ کو بے بنیاد ثابت کر دیتی ہے!
 
Last edited:
Top