• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لندن میں چھری اور خنجر کے واروں سے فوجی قتل

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
لندن میں چھری اور خنجر کے واروں سے فوجی قتل​
دی نیوز ٹرائب 22 اپریل 2013 :Ubaid Mughal

لندن: برطانوی دارالحکومت لندن میں دو نامعلوم ملزمان نے خنجر اور چھری سے وار کرے ایک فوجی کو قتل جب کہ ایک کو زخمی کردیا۔

پولیس کے مطابق واقعہ لندن کے جنوبی مشرقی علاقے وول وچ میں رائل آرٹلری بیرکس سے 200 میٹر کے فاصلے پر پیش آیا۔

عینی شاہدین کے مطابق 2 نامعلوم ملزمان نے چھری اور خنجر کی مدد سے فوجیوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں ایک ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا،عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے فوجی کا سرکاٹنے کی کوشش بھی کی۔

حملہ اور فوجی کو ہلاک کرنے کے بعد موقع پر موجود رہے،واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس نے ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جس پر ملزمان نے پولیس پر فائرنگ شروع کردی۔

پولیس کی جوابی فائرنگ سے دونوں حملہ آور زخمی ہوگئے جنہیں گرفتار کرکے اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں ان کا علاج جاری ہے۔

واقعہ کے بعد وزیر داخلہ ٹیریسامے نے ہنگامی اجلاس طلب کرکے ایک تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی ہے جو ہولناک واقعہ کی تفتش کررہی ہے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ہر کسی کو ہر وقت قابو میں رکھنا ناممکن ہے
آخری وقت اشاعت: جمعـہ 24 مئ 2013 ,
‭ 13:12 GMT 18:12 PST

برطانوی حکومت نے لندن میں ایک فوجی کے قتل کے پس منظر میں ہونے والی تنقید کے خلاف اپنی سکیورٹی اداروں کا دفاع کیا ہے۔

خیال رہے کہ برطانوی سکیورٹی ادارے اس بات پر تنقید کا نشانہ بنیں کہ وہ ان علامات کی نشاندہی نہیں کر سکیں جس سے ممکنہ طور پر اس فوجی کی جان بچائی جا سکتی تھی۔

پچیس سالہ رگبے کو مشرقی لندن کے وولچ علاقے کی ایک گلی میں بدھ کو چاقو کے وار کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔ ان کا ایک دو سالہ بیٹا بھی ہے۔

یہ تنقید اس وقت ہوئی جب یہ بات سامنے آئی کہ لی رگبے کے قتل کے سلسلے میں گرفتار افراد کو برطانوی خفیہ ادارہ ایم آئی 5 جانتی تھی۔

مشتبہ حملہ آوروں کے نام مائیکل ادیبولاجو اور مائیکل ادیبوال بتائے جاتے ہیں۔

کمیونٹی سیکرٹری ایرک پیکلز کا کہنا ہے کہ یہ ناممکن تھا کہ ہر کسی کو ہر وقت قابو میں رکھا جاتا۔

انہوں نے بی بی سی بریک فاسٹ کو بتایا کہ ’ارکانِ پارلیمان اس بات کی بھرپور تحقیقات کریں گے کہ سکیورٹی اداروں کو کتنا معلوم تھا۔ لیکن میں نے سکیورٹی کے ماہرین کو اس بات کی وضاحت کرتے سنا ہے کہ ایک آزاد معاشرے میں ہر فرد کو قابو کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔‘

جن دو حملہ آوروں نے اس مذکورہ برطانوی فوجی پر حملہ کیا تھا ان پر پولیس نے بھی فائرنگ کی جس میں وہ دونوں زخمی ہوگئے تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق متاثرہ شخص کو دو افراد نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے چاقو سے کاٹ کر ہلاک کیا۔

موقع پر جمع ہونے والے افراد نے ایک حملہ آور کی ویڈیو بنائي تھی جس میں اسے کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ چونکہ برطانوی فوجی ہر روز مسلمانوں کو مارتے ہیں اس لیے اس نے یہ حملہ کیا ہے۔

ایم 16 کے سابق سربراہ رچرڈ باریٹ نے بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ کو بتایا کہ اس جیسے حملوں کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ’میرے خیال میں ان افراد کا تعلق ایک چھوٹے گروپ سے ہے جن کے کوئی بیرونی رابطے نہیں ہیں اور نہ ہی برطانیہ کے اندر کوئی بڑے کنکشنز ہیں جو سکیورٹی اداروں کی نظر میں آتے۔‘

لندن میں قتل ہونے والے فوجی لی رگبے کا ایک دو سالہ بیٹا ہے

انہوں نے کہا کہ’ کب شدت پسند خیالات کا اظہار کرنے والا شخص ایک شدت پسند گروپ میں شامل ہوتا ہے اور تشدد کی طرف مائل ہوتا ہے۔میرے خیال میں یہ معلوم کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔‘

میٹروپولیٹن پولیس کے سابق کمیشنر لارڈ بلیئر نے ریڈیو فور کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ کمیٹی اس بات کی تحقیقات کرے گی کہ ان مشتبہ افراد کی کیسے نگرانی کی گئی، جس سے اس بات کا پتہ لگایا جا سکے گا کہ غلطی کہاں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ’ میرے خیال میں عوام کے لیے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی غلطی ہوئی، کوئی غلط فیصلہ کیا گیا، کیونکہ کہ عوام کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ سکیورٹی اور پولیس کے ادارے صحیح کام کر رہے ہیں۔‘

ادھر جمعرات کو برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی فوجی کے قتل کو برطانوی طرزِ زندگی پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان قاتلوں نے اپنے مذہب کو بھی دھوکہ دیا ہے۔

انہوں نے یہ بات اس واقعے پر برطانوی حکومت کی قومی سلامتی کی کمیٹی ’کوبرا‘ کے ہنگامی اجلاس کی صدارت کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہی تھی۔

برطانیہ میں مسلمانوں کی تنظیم ’دی مسلم کونسل آف بریٹن‘ نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اسلام میں اس طرح کے قتل کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بنیاد پرستی ہے کیا
آخری وقت اشاعت: جمعـء 24 مئ 2013 ,‭ 16:38 GMT 21:38 PST


’شریعہ کی تشریع جس میں مساوات، انصاف اور پیار محبت کو قانون کی بنیاد سمجھا جاتا ہے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے‘

برطانیہ میں کویلیم فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر اسامہ حسن نے زور دیا ہے کہ اعتدال پسند مسلمانوں کو اپنے نوجوان ہم مذہبوں کو اپنے قریب لانے کے لیے زیادہ محنت کرنی چاہیے۔انہوں نے یہ بات لندن کے علاقے وُولِچ میں بظاہر اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں ایک برطانوی فوجی کی ہلاکت کے پس منظر میں کہی ہے۔
ڈاکٹر حسن کے مضمون کا ترجمہ

کئی دہائیوں سے برطانیہ اور دیگر ممالک میں مسلمانوں کے بارے میں بحث میں بنیاد پرستی اور اسلام پسندی جیسے موضوعات کا غلبہ رہا ہے۔

میں نے، برطانیہ میں کئی اور ہزاروں اور مسلم ممالک کے لاکھوں لوگوں کی طرح، ایک لمبا عرصہ ان تنگ نظر خیالات اور اسلام کی سطحی اور غلط تشریح کو فروغ دینے میں گزار دیا۔ لیکن پھر بالآخر روحانی اور زندگی کے تجربات کی بدولت میں سوچ اور ایمان کی ان پستیوں سے باہر آنے میں کامیاب ہو گیا۔

ضرورت اس بات کی ہے سوچ کے ان دھاروں کو شکست دی جائے اور ان کے مقابلے میں نئی سوچ کو فروغ دیا جائے۔

بنیاد پرستی سے میری مراد کلام کو سیاق و سباق سمجھے یا اس کو تاریخ کے تناظر میں دیکھے بغیر پڑھنا ہے۔ ایسی بنیاد پرستی کی مثالوں میں انسانی حقوق کے میدان میں پیش رفت، خواتین اور مردوں کے لیے مساوی حقوق اور سماجی اور سیاسی اصلاحات کی مخالفت شامل ہیں۔

قرآن کی آیات میں انسانوں کے درمیان مکمل برابری کی بات کی گئی ہے اور اِن میں غلامی، نسل پرستی، زن بیزاری کی گنجائش نہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ وہ آیات ہیں جن میں بظاہر غلامی، غیر مسلموں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور خواتین کو مارنے کی بات کی گئی ہے واضح طور پر خاص وقت کے لیے آئی تھیں اور یہ آزادی کی طرف سفر میں عارضی اقدامات تھے۔

اسلام نے ساتویں صدی کے عرب معاشرے میں خواتین اور غلاموں کا مقام بلند کیا۔ تاریخ سے نابلد بنیاد پرست تشریح میں اس دور میں لیے گئے اقدامات کو تمام ادوار کے لیے سمجھتے ہیں اور بالکل آگے بڑھنے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ مُصر ہیں کہ ساتویں صدی کی اقدار تمام معاشروں اور تمام ادوار کے لیے برحق ہیں۔

اسلام پرستی کو ’پولیٹیکل اسلام‘ کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ اس کی زیادہ درست تعریف ’حد سے زیادہ سیاسی بنیاد پرست اسلام‘۔

اسلام پرستی کے بنیادی محرکات میں اُمّہ، خلیفہ، شریعہ اور جہاد شامل ہیں اور ان تصورات کو حد سے زیادہ سیاسی بنا دیا گیا ہے۔

دوسروں سے لڑائی کا ذکر

مسلمان ممالک کی دوسروں سے لڑائی کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے مثلاً کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق جبکہ مسلمانوں کی باہمی وحشیانہ لڑائیوں جیسے کے ایران عراق جنگ، دارفور اور شام کی لڑائیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ کئی مسلم ممالک جیسے کہ پاکستان، مصر اور ایران میں عیسائیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا کبھی ذکر نہیں ہوتا۔

اسلام پرستوں امہ کے تصور کو اس حد تک آگے لے جاتے ہیں کہ مسلمان اور ان کی’عالمی سطح پر تکالیف‘ مستقل ان کے ذہن پر طاری رہتی ہیں (توجہ صرف ان کے مسائل پر رہتی اور ان پر ہونے والی بھلائیوں کا کبھی ذکر نہیں ہوتا)۔ نتیجتًا مظلوم ہونے کا احساس مستقل ان میں گھر کر جاتا ہے۔

اسلام پرستوں کے نزدیک خلیفہ کے تصور کے تحت وہ اسلامی ریاستیں بنانے کے پابند ہیں جو مِل کر ایک عالمی اسلامی ریاست کے ماتحت ہوں گی۔

ان لوگوں کے نزدیک شریعہ کا مطلب قرون وسطیٰ کے اسلامی اصولوں کو جدید دور کی اسلامی ریاستوں میں نافذ کرنا ہیں۔
اسلام پرستوں کے نزدیک جہاد کا مطلب تشدد (فوجی، نیم فوجی یا دہشت گردی) ہے۔

ان کے جہاد کا مطلب اسلامی ریاست کا تحفظ یا اسے وسعت دینا ہے۔ شدت پسند اسلام کے لیے چین، امریکہ، بھارت اور روس کو شکست دے کر پوری دنیا فتح کرنے کے بھی خواب دیکھتے ہیں۔
اسلام پرستوں کی سوچ سے مخالف سوچ بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔

اُمّہ سے مراد

اسلام کے شروع کے دنوں میں اُمّہ سے مراد سیاسی آبادیاں تھیں جن میں عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے۔اس کی ایک مثال پیغمبر اسلام کے دور میں مدینہ کی دی جا سکتی ہے۔

قرآن میں جب امہ کا ذکر آتا ہے تو تاریخی حوالے بھی دیے جاتے ہیں جن میں دیگر مذاہب کے پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں کا ذکر آتا ہے۔

اسلام کے شروع کے دنوں میں اُمّہ سے مراد سیاسی آبادیاں تھیں جن میں عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے۔اس کی ایک مثال پیغمبر اسلام کے دور میں مدینہ کی دی جا سکتی ہے۔

انیسویں صدی میں سلطنت عثمانیہ میں شہریوں کا تصور رائج تھا جن میں تمام لوگوں کو ان کے مذہب سے قطع نظر مساوی حقوق حاصل تھے۔

بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی ایک ایسی ریاست کا تصور پیش کیا تھا جس میں ہندووں، سکھوں اور عیسائیوں کو مساوی حقوق ملنے تھے۔

شریعہ کی مختلف مکاتب فکر نے الگ الگ تشریح کی ہے۔ اس معاملے میں تنگ نظری جدید دور میں کام نہیں آئے گی۔شریعہ کی تشریع جسے مقاصد الشریعہ کہا جاتا ہے اور جس میں مساوات، انصاف اور پیار محبت کو قانون کی بنیاد سمجھا جاتا ہے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

ح
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
قتل ناحق تو بہرحال جرم ہی ہےلیکن اس وقت دنیامیں جس قتل کی کوئی قیمت نہیں وہ مسلمان کا قتل ہے۔ان کےساتھ ہر طرح کا ظلم کرنارواہےوہاں دوفوجی مرےہیں تو پوری دنیامیں شور مچ گیاہے ادھرافغانستان وغیرہ میں ہزاروں بےگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگےجاتےہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔بلکہ الٹےمجرم بھی یہی ہیں۔خیریہ مسلہ تو برطانوی حکومت خود ہی حل کرلےگی تاہم کبھی کبھی ا سطرح کےمسائل حل کرنےکیلے اقوام متحدہ جیسی لونڈی بھی میسرہے۔جب قوموں کاقتل کرناہویاناجائزکاموں کو تحفظ دینامقصود ہوتو اس کی خدمات بھی لی جا تی ہیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
قتل ناحق تو بہرحال جرم ہی ہے لیکن اس وقت دنیا میں جس قتل کی کوئی قیمت نہیں وہ مسلمان کا قتل ہے۔ ان کے ساتھ ہر طرح کا ظلم کرنا روا ہے وہاں دو فوجی مرے ہیں تو پوری دنیا میں شور مچ گیا ہے ادھر افغانستان وغیرہ میں ہزاروں بےگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے جاتے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ بلکہ الٹے مجرم بھی یہی ہیں۔ خیر یہ مسلہ تو برطانوی حکومت خود ہی حل کر لے گی تاہم کبھی کبھی اسطرح کے مسائل حل کرنے کیلے اقوام متحدہ جیسی لونڈی بھی میسر ہے۔ جب قوموں کا قتل کرنا ہو یا ناجائز کاموں کو تحفظ دینا مقصود ہو تو اس کی خدمات بھی لی جا تی ہیں۔


السلام علیکم

جی درست فرمایا آپ نے کہ ان کا ایک بھی مارا جائے تو دنیا میں شور ڈال دیتے ہیں اور ہر طرح کی ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ملک میں عوام کو سیف رکھ سکیں جس کے وہ خادم ہیں۔ مگر ہمارے ملک اگر کوئی ان کا اسلحہ سے بھڑی گاڑی سے پکڑا جاتا ھے تو اسے آئی جی صاحب محفوظ طریقہ سے اسے اس کے گھر چھوڑ کر آتے ہیں۔ کیوں مسلمانوں کا خون سستا ھے؟ اس کی ذمہ دار بھی مسلمان حکومت ھے۔

داخلی مسئلہ میں اقوام متحدہ کی ضرورت پیش نہیں آتی اور داخلی معاملات اندر ہی حل کئے جاتے ہیں، اس پر کچھ منفی رد عمل ہوا ھے کچھ مساجد پر حملے کئے گئے ہیں مگر پولیس نے اسے بھی کنٹرول کر لیا تھا اور ایسا کرنے والے بھی گرفتار ہو چکے ہیں۔ یہاں ہر دین و مذھب و نسل کو تحفط فراہم کیا جاتا ھے یہ بھی داخلی پالیسی ھے۔ نیچے ایک خبر سے دیکھیں ملک کو نقصان پہنچانے والے جو اندر ہی موجود ہوں انہیں معاف نہیں کیا جاتا اور اس پر یو نیشن جانے کی بھی ضرورت نہیں۔

===========​

سعودی عرب میں دو اشتہاری ملزم پولیس مقابلے میں ہلاک​


سعودی عرب کے شمالی مشرقی علاقے میں دو افراد سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ دونوں ملہوکین ریاض سمیت دیگر علاقوں میں قتل، مسلح ڈکیتی اور سکیورٹی حکام پر فائرنگ کی متعدد وارداتوں میں مطلوب تھے۔

سکیورٹی فورسز کچھ عرصے سے ان کے تعاقب میں تھی۔ اس کارروائی میں پبلک سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ نے بھی متعلقہ حکام کو مکمل تعاون فراہم کیا۔ اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کے کے لیے ریاض اور مشرقی علاقے میں خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔

روزنامہ ’’الشرق‘‘ کے مطابق یہ دونوں ریاض کے ضلع افلاج میں ایک شہری کے قتل، احساء کے علاقے خریص میں گاڑیوں کی اسمگلنگ اور مسلح ڈکیٹتیوں میں ملوث تھے۔ یہ گاڑیوں کے مالکان کو اسلحے کے زور پر دھمکاتے اور اس کی گاڑی پر قبضہ کرکے اسے لے اڑتے تھے۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ رماح اور النعیریہ کے اضلاع میں بھی اسلح کے زور پر گاڑیاں چھیننے میں ملوث تھے۔ نیز ان پر ریاض اور مشرقی خطے میں گشت کرنے والی سکیورٹی ٹیموں پر فائرنگ کا بھی الزام تھا۔

گزشتہ کچھ عرصے کی انتھک کوششوں کے بعد گرفتاری کے لیے تشکیل دی گئی فیلڈ ٹیموں کو ان دونوں کی نقل و حرکت کے متعلق آگاہی ہوئی اور اس طرح بدھ کی شام سکیورٹی فورسز حفر باطن ضلع کے علاقے ھجرہ سامودہ کے قریب ایک صحرائی علاقے میں ان دونوں تک جا پہنچیں، یہ دونوں اس وقت ایک چھینی گئی گاڑی ’’لیکسس جیپ‘‘ میں کہیں جا رہے تھے۔


دونوں ملزمان نے سکیورٹی فورسز کو دیکھتے ہیں ان پر فائرنگ شروع کردی، سکیورٹی اہلکاروں سے مقابلے کے دوران ان دونوں میں سے ایک موقع پر ہی مارا گیا اور ایک شدید زخمی ہوگا، مقابلے میں ان دونوں کی گاڑی اور سکیورٹی فورسز کی بعض گاڑیاں بھی تباہ ہوگئیں۔ متوفی اور زخمی دونوں کو ہسپتال لے جایا گیا، جہاں سے جمعرات کی صبح ساڑھے پانچ بجے زخمی کی موت کی بھی خبر آگئی۔

ان کے قبضے سے ایک پستول، رائفل ، مشین گن اور بارودی مواد قبضے میں لیا گیا ہے۔ متعلقہ اداروں نے اس واقعے کی فوجداری خطوط پر تفتیش شروع کردی ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ -
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
’مشتبہ حملہ آور کو ایم آئی فائیو کی نوکری کی پیشکش‘
آخری وقت اشاعت: ہفتہ 25 مئ 2013 ,‭ 08:54 GMT 13:54 PST

بی بی سی کے انٹرویو کے بعد ابو نصیبہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

لندن کے وول وچ میں قتل کے الزام میں گرفتار مائکل ادیبولاجو کے بچپن کے دوست نے کہا ہے کہ چھ ماہ قبل مائکل ادیبولاجو کو برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو نے نوکری کی پیشکش کی تھی۔

ادیبو لاجو کے عہدِ طفلی کے دوست ابو نصیبہ نے بی بی سی نیوز نائٹ سے کہا کہ ان کے دوست نے سکیورٹی سروس کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔

واضح رہے کہ مائکل ادیبولاجو جنوب مشرقی لند میں قتل کیے جانے والے ڈرمر لی رگبی کے قتل کے دو ملزمین میں سے ایک ہیں۔

بہر حال اس معاملے کی بی بی سی کو خفیہ ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر وھائٹ ہال سے تصدیق نہ ہو سکی۔

بی بی سی کے انٹرویو کے بعد ابو نصیبہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

لندن کی مٹ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے 31 سالہ شخص کو لندن کے وقت کے مطابق جمعہ کی رات ساڑھے نو بجے دہشت گردی کے مبینہ واقعے میں گرفتار کیا ہے اور مشرقی لندن کے دو مکانوں کی تلاشی جا رہی ہے۔

یہ گرفتاریاں ڈرمر رگی کے قتل معاملے سے براہ راست منسلک نہیں ہے۔

واضح رہے کہ برطانوی فوجی ڈرمر کو بدھ کی سپہر وول وچ بیرک میں قتل کر دیا گیا تھا۔

مشتبہ قاتل ادیبولاجو نے کئی سال قبل اسلام قبول کیا تھا

ابو نصیبہ نے نیوز نائٹ کے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ان کے خیال میں گزشتہ سال کینیا کے دورے کے دوران سکیورٹی فورسز کی حراست میں رہنے کے بعد سے ان میں ’تبدیلی‘ آئی تھی۔

ابو نصیبہ نے کہا کہ ’ان کے دوست ادیبولاجو نے کہا تھا کہ افریقی ملک کی جیل میں تفتیش کے دوران انہیں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔‘

نصیبہ نے مزید کہا کہ ’اس کے بعد وہ الگ تھلگ رہنے لگا وہ کم گفتگو کرنے لگا اور وہ پرانا چہکنے والا شخص نہیں رہا۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں ادیبولاجو نے بتایا تھا کہ واپسی پر ایم آئی فائیو ان کے پیچھے پڑ گئي تھی اور ’اس کے دروازے پر دستک دیتی رہتی تھی۔‘

ابو نصیبہ نے کہا کہ ’بنیادی طور پر اسے حراساں کیا جا رہا تھا‘۔

اس نے مزید کہا کہ ادیبولاجو کے اس بارے میں یہ الفاظ تھے ’وہ میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔‘

’شروع میں وہ کسی مخصوص شخص کے بارے میں پوچھتے کہ آیا وہ اسے جانتے ہیں کہ نہیں لیکن جب اس نے ان کے بارے میں اپنی لاعلمی ظاہر کی تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔‘

’انھوں نے واضح طور پر ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا تھا اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ان افراد کو نہیں جانتے ہیں۔‘

ایم آئی فائیو کے ہیڈ کوراٹر وھائٹ ہال نے بی بی سی سے بتایا کہ 28 سالہ ادیبولاجو بنیادی طور پر مشرقی لندن کے علاقے رومفورڈکے رہائشی ہیں اور ان کے ساتھی 22 سالہ مائکل ادیبووالے جنوب مشرقی لندن گرینچ کے رہنے والے ہیں اور وہ انھیں گزشتہ آٹھ برسوں سے جانتے ہیں۔

اس قتل کے معاملے میں دو خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جنھیں بعد میں رہا کر دیا گیا لیکن ایک 29 سالہ شخص کو ابھی بھی حراست میں رکھا گیا ہے۔


ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
وولچ واقعے کے بعد مسلمان مخالف واقعات میں اضافہ

آخری وقت اشاعت: ہفتہ 25 مئ 2013 ,
‭ 15:42 GMT 20:42 PST

لندن کے مشرقی علاقے وولچ میں بدھ کو ایک برطانوی فوجی ڈرمر کے قتل کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

فیتھ میٹررز نامی چیرٹی کے ڈائریکٹر فیاض مغل نے بتایا ہے کہ بدھ کے روز ایک برطانوی فوجی کی ہلاکت کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ایک سو باسٹھ واقعات پیش آئے ہیں جبکہ اس سے پہلے روزانہ ایسے پانچ سے چھ واقعات رپورٹ کیے جاتے تھے۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات میں مساجد پر حملے، دیواروں پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے، مسلمان عورتوں کے حجاب کو کھینچنے، مسلمانوں کو گالیاں دینا اور مختلف ناموں سے پکارنے کے واقعات شامل ہیں۔

برطانوی پولیس نے متعدد افراد کو سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد چھاپنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔

برطانوی فوجی ڈرمر لی رگبی کو بدھ کے روز وولچ کی بارکوں کے نزدیک بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا تھا۔

فوجی کی ہلاکت کے بعد اٹھائیس سالہ مائیکل ادیبلاجو کو یہ کہتے ہوئے کمیرہ پر ریکارڈ کیا کہ اس نے افغانستان اور عراق میں برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل کا بدلہ لیا ہے۔ ادیبلاجو نے کئی سال قبل اسلام قبول کیا تھا۔

دوسرے مشتبہ شخص مائیکل ادیبوالے پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہو گئے تھے اور اب دونوں کا ہسپتال میں کڑے پہرے میں علاج ہو رہا ہے۔
برطانیہ کی سکیورٹی ایجنسی کو ان دونوں افراد کے شدت پسندانہ رویوں کے بارے میں آگاہی تھی لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔

ایک مشتبہ شخص کے بچپن کے دوست نے بی بی سی کے پروگرام نیوز نائیٹ کو بتایا ہے کہ ملک کی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کے اہلکاروں نے مائیکل ادیبلاجو کو ایجسنی کے لیے کام کرنے کی پیشکش کی تھی جسے اس نے مسترد کر دیا تھا۔ بی بی سی کے انٹرویو کے بعد ابو نصیبہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

فیاض مغل نے بی بی سی ریڈیو فائیو لائیو کو بتایا کہ مسلمانوں کے نفرت کے واقعات کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک سے ایسے واقعات کی اطلاعات مل رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شوشل میڈیا ویب سائٹ پر مسلمانوں کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے۔

ابو نصیبہ نے نیوز نائٹ کے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ان کے خیال میں مائیکل ادیبلاجو گزشتہ سال کینیا کے دورے کے دوران سکیورٹی فورسز کی حراست میں رہنے کے بعد سے ان میں ’تبدیلی‘ آئی تھی۔

ابو نصیبہ نے کہا کہ ’ان کے دوست ادیبلاجو نے کہا تھا کہ افریقی ملک کی جیل میں تفتیش کے دوران انہیں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔‘

نصیبہ نے مزید کہا کہ ’اس کے بعد وہ الگ تھلگ رہنے لگا وہ کم گفتگو کرنے لگا اور وہ پرانا چہکنے والا شخص نہیں رہا۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں ادیبلاجو نے بتایا تھا کہ واپسی پر ایم آئی فائیو ان کے پیچھے پڑ گئي تھی اور ’اس کے دروازے پر دستک دیتی رہتی تھی۔‘

ح
 
Top