کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
لندن کیا پھر 'لندنستان' بن رہا ہے
عرب ممالک میں جمہوری حکومتوں کے قیام کے لیے جدوجہد کی ناکامی کی گونج برطانیہ میں سنائی دے رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کچھ عرب حکومتوں کی جانب سے اپنے مخالفین کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں لندن کیا ایک مرتبہ پھر سنہ 1900 کی دہائی کی طرح ایسے عرب منحرفین کا مرکز بن سکتا ہے جو اپنے آبائی ممالک میں حکومتوں کو گرانے کے لیے کوشاں ہیں؟
اس زمانے میں فرانسیسی خفیہ اداروں کے حکام برطانوی دارالحکومت کو 'لندنستان' کے نام سے پکارتے تھے اور اس سے ان کا اشارہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک کے ان منحرفین کی جانب ہوتا تھا جو مصر، یمن اور الجزائر جیسے ممالک میں سیکیولر حکومتیں گرانے کی سازشیں کر رہے تھے۔
ان منحرفین میں سے زیادہ تر تو پرامن تھے لیکن کچھ کے تعلقات غیرملکی پرتشدد گروہوں سے بھی تھے۔ حتیٰ کہ اسامہ بن لادن نے بھی لندن میں عوامی رابطے کے لیے دفتر قائم کر رکھا تھا۔
سال ہا سال تک برطانوی ہوم آفس یا وزارتِ داخلہ، میٹروپولیٹن پولیس اور خفیہ ادارے ایم آئی فائیو نے اس معاملے کو یہ سوچتے ہوئے نظرانداز کیا کہ اس طریقے سے وہ خود ان کی کارروائیوں سے بچے رہیں گے۔
لیکن پھر لندن میں بم دھماکوں نے اس خیال کو غلط ثابت کیا۔
ایک دہائی آگے چلیں تو آج برطانوی ایوانِ اقتدار میں یہ سوچ بچار جاری ہے کہ عرب حزبِ مخالف کے یہ کارکن برطانوی سرزمین پر کس سلسلے میں موجود ہیں۔
یکم اپریل کو وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ان اطلاعات کے بعد مصر کی تنظیم اخوان المسلمین کی سرگرمیوں کے جائزے کا حکم دیا کہ اس کے کچھ رہنماؤں کا تعلق مصر میں دہشت گردی کی کارروائیوں سے ہے۔
انتہاپسندی کے معاملات کے ماہر رافیئلو پنٹوشی کا کہنا ہے کہ 'برطانیہ تاریخی طور پر ایسے افراد کا گڑھ رہا ہے جو غیر ممالک میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں لیکن اب جو چیز بدلی ہے وہ یہ کہ لوگ اب ایسے افراد اور گروپوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔'
لیکن برطانیہ تو آزادیِ اظہار اور جمہوریت پسند افراد کی پناہ گاہ نہیں ہونی چاہیے؟
اب جبکہ عرب دنیا میں زیادہ تر ممالک میں جمہوریت نہیں تو کیا برطانیہ کو اس بات کا کریڈٹ نہیں ملنا چاہیے کہ ان غیر منتخب حکومتوں کے پرامن مخالفین لندن کو اپنا مرکز بنا رہے ہیں؟
اور کیا برطانیہ میں یہ خطرہ موجود نہیں کہ آپ ان بےضرر منحرفین کو انتہاپسندوں کی جانب دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
دہشت گردی کے خلاف جنگ
صالح مغاچی کا تعلق تو الجزائر سے ہے لیکن وہ لندن میں مقیم ہیں اور یہاں بہت خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'سیاسی طور پر لندن تمام سیاسی افراد کے لیے اچھی جگہ ہے کہ وہ یہاں آزادانہ طور پر گھوم پھر سکتے ہیں اور آمروں یا اپنے آبائی ممالک کے کسی دباؤ کے بغیر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔'
سو یہ آزادیِ اظہار کب غیرقانونی سرگرمی کی شکل اختیار کرتی ہے؟ میں نے حکومت کے انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے غیرجانبدار جائزہ کار ڈیوڈ اینڈرسن کے سامنے یہ سوال رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ 'اس سلسلے میں ایک سوال ہوتا ہے جس کا اطمینان بخش جواب ملنا لازمی ہوتا ہے۔
مصر اور یمن طویل عرصے تک برطانیہ سے سخت گیر خیالات کے حامی مبلغ ابوحمزہ کی سرگرمیوں کی شکایت کرتے رہے۔
'اس گروپ کا دہشت گردی سے تعلق ہونا چاہیے تاہم اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور حقیقت میں یہ کسی بھی ایسے گروپ پر لاگو ہوتا ہے جو دنیا میں کسی بھی حکومت کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہو۔'
انھوں نے بتایا کہ 'اس دائرے کو محدود کرنے کے لیے وزیرِ داخلہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتی ہیں اور وہ کئی عوامل پر نظر رکھتی ہیں۔ وہ یہ دیکھیں گی کہ دہشت گردی کہاں ہو رہی ہے اور یہ کہ اس گروپ کی برطانیہ میں پوزیشن کس قدر مضبوط ہے اور سب سے اہم بات کہ کئی معاملات میں وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ممالک کا ساتھ دینے پر غور کریں گی۔'
مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ میں معاشرے کے لیے خطرہ بننے والے افراد کی تعریف اکثر اس کے اتحادی عرب ممالک کے قدامت پسند نظریات سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ایک عرصے تک مصر اور یمن کی حکومتیں برطانوی حکومت سے سخت گیر خیالات کے حامی مبلغ ابوحمزہ کی سرگرمیوں کی شکایت کرتی رہیں لیکن 2004 تک انھیں گرفتار اور قید نہیں کیا جا سکا۔
شمالی لندن کے علاقے کرکل وڈ میں ایک سعودی منحرف آزادانہ طور پر قیام پذیر ہے جبکہ اس کے آبائی ملک میں ان کی حکومت نے انھیں دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔
عرب انقلاب کے دوران متحدہ عرب امارات کے حکام کھلے عام اخوان المسلمین کے خلاف شکایت کرتے رہیں ہیں۔ وہ اس تنظیم کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں اور اس تنظیم کے کئی ارکان برطانیہ میں مقیم ہیں۔
ڈیوڈ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ 'ایسے کئی معاملات ہیں جن میں دیگر ممالک نے تنظیموں پر پابندیاں لگائی ہیں اور ہم سے بھی اس کی توقع کی ہے۔ ہم یقیناً ہر بار ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ ہمیں مطمئن ہونا ہوتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی تعریف پر پوری اترتی ہوں۔'
آخر میں اب سوال یہ ہے کہ کیا برطانیہ ایسی تنظیموں کے خلاف صحیح وقت پر کارروائی کرتا ہے اور تشدد اور نفرت پر اکسانے اور اظہار کی آزادی کے فرق کو برقرار رکھتا ہے؟
بی بی سی کو بھیجے گئے ایک بیان میں برطانوی وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کے طریقوں کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے جن میں ملک بدری اور شہریت کی منسوخی بھی شامل ہیں۔
ہوم آفس کے ترجمان نے کہا ہے کہ 'برطانیہ میں آ کر رہنا ایک موقع ہے جو ہم ان لوگوں کو دینے سے انکاری ہیں جو ہماری اقدار کو نقصان پہنچانا اور ہمارے معاشرے کے لیے خطرہ بننا چاہتے ہیں۔'
سو کیا ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا گیا ہے؟
رافیئلو پنٹوشی کے خیال میں 'لندنستان' کی واپسی کا تو امکان نہیں اور 'سخت گیر موقف کی کھلے عام ترویج اور اس سلسلے میں لوگوں کی بھرتی ہم ماضی میں دیکھتے رہے ہیں، آج کے دور میں ان کا دوبارہ ابھرنا بہت مشکل ہے۔'
فرینک گارڈنر نامہ نگار برائے سکیورٹی امور: جمعرات 17 اپريل 2014