• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لولاک ما خلقت الأفلاک

شمولیت
جولائی 20، 2016
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
75

لولاک ما خلقت الأفلاک
اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمان (و زمین) پیدا نہ کرتا!


سوال: محترم حافط زبیر علی زئی صاحب کیا یہ بات صحیح ہے کہ اگر نبی کریم ﷺ کو پیدا نہ کیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کائنات کو پیدا نہ کرتا ۔ وضاحت فرمائیں۔ (محمد ندیم سلفی، سرکلر روڈ راولپنڈی)
الجواب: بعض الناس یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "
لولاک ما خلقت الأفلاک" (اے نبی!) اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمان (و زمین) پیدا نہ کرتا۔
اس جملے کاکوئی ثبوت حدیث کی کسی کتاب میں باسند موجود نہیں ہے ۔ اس بے سند جملے کو شیخ حسن بن محمد الصغانی (متوفی ۶۵۰؁ھ) نے "موضوع" یعنی من گھڑت قرار دیا۔دیکھئے موضوعات الصغانی (۷۸) و تذکرۃ الموضوعات (ص ۸۶) لمحمد طاہر الفتنی الہندی (متوفی ۹۸۶؁ھ) الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانی (ص ۳۲۶) الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لملا علی القاری الحنفی (۳۸۵) کشف الخفاء للعجلونی (۲۱۲۳) اور الآثار المرفوعۃفی الاخبار الموضوعۃ لعبد الحئی اللکنوی (ص ۴۰)
تنبیہ: عجلونی اور ملا علی قاری نے حسن الصغانی سے اس جملے کا " موضوع" ہونا نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ "معناہ صحیح" یعنی اس (موضوع روایت کا ) معنی صحیح ہے۔ !
عرض ہے کہ جب یہ روایت باطل، من گھڑت اور اللہ و رسول پر افتراء ہے تو کس دلیل سے اس کے معنی کو صحیح کہا گیاہے؟
ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ دیلمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً نقل کیاہے کہ
"أتاني جبریل فقال: یا محمد ! لولاک ما خلقت الجنۃ ولولاک ما خلقت النار" میرے پاس جبریل آئے تو کہا: اے محمد (ﷺ)! اگر آپ نہ ہوتے تومیں جنت پیدا نہ کرتا اور آپ نہ ہوتے تو میں (جہنم کی) آگ پیدا نہ کرتا ۔ (الاسرار المرفوعۃ ص ۲۸۸)
یہ روایت کنز العمال (۴۳۱/۱۱ ح ۳۲۰۲۵) اور کشف الخفاء (۴۵/۱ ح ۹۱) میں بحوالہ دیلمی عن ابن عباس (ابن عمر ) منقول ہے ۔ دیلمی (متوفی ۵۰۹؁ھ) کی کتاب فردوس الاخبار میں یہ روایت بلا سند و بلا حوالہ مذکور ہے ۔ (۳۳۸/۵ ح ۸۰۹۵)

معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی بےسند و بے حوالہ ہونے کی وجہ سے موضوع و مردود ہے ۔

محدث احمد بن محمد بن ہارون بن یزید الخلال (متوفی ۳۱۱؁ھ) نے بغیر کسی سند و حوالے کے نقل کیا ہے کہ "یا محمد! لولاک ما خلقت آدم"
اے محمد (ﷺ)! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا نہ کرتا ۔ (السنۃ ص ۲۳۷ ح ۲۷۳)

یہ روایت بھی بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع و مردود ہے ۔
ملا علی قاری نے ابن عساکر سے نقل کیا ہے کہ
"لولاک ما خلقت الدنیا"
اگر آپ نہ ہوتے تودنیا پیدا نہ کی جاتی یا میں دنیا پیدا نہ کرتا۔ (الاسرار المرفوعۃ ص ۲۸۸)
ابن عساکر والی روایت تاریخ دمشق (۲۹۶/۳، ۲۹۷) کتاب الموضوعات لابن الجوزی (۲۸۸/۱، ۲۸۹) اور اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للسیوطی (۲۷۲/۱) میں موجود ہے ۔ ابن جوزی نے کہا : "ھٰذا حدیث موضوع لا شک فیہ، وفي إسنادہ مجھولان و ضعفاء فمن الضعفاء أبو السُّگین و إبراھیم بن الیسع، قال الدارقطني: أبو السکین ضعیف، و إبراھیم و یحیی البصري متروکان، قال أحمد بن الحنبل: خرقت أحادیث یحیی البصري وقال الفلاس: کان کذاباً یحدث أحادیث موضوعۃ وقال الدارقطني: متروک" (کتاب الموضوعات نسخہ محققہ ج ۲ ص ۱۹ ح ۵۴۹، نسخہ قدیمہ ۲۸۹/۱، ۲۹۰)
یعنی (ابن جوزی کے نزدیک ) یہ حدیث بلاشک و شبہ موضوع ہے اور اس کے تین راوی ابوالسکین ، ابراہیم بن الیسع اور یحییٰ البصری مجروح ہیں۔ ملخصًا
سیوطی نے کہا :"موضوع " یہ روایت موضوع ہے ۔ (اللآلی المصنوعۃ ۲۷۲/۱)
اس کا راوی خلیل بن مرہ بھی ضعیف ہے ۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: ۱۷۵۷)
سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ
"ولولا محمد ما خلقتک"(اے آدم!) اگر محمد (ﷺ) نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔ (المستدرک للحاکم ۶۱۵/۲ ح ۴۲۲۸ وقال: "ھٰذا حدیث صحیح الإسناد")
اس روایت کو اگرچہ حاکم نے صحیح الاسناد کہا ہے لیکن یہ روایت کئی وجہ سے موضوع ہے :

۱: حافظ ذہبی نے کہا :"بل موضوع و عبدالرحمٰن واہٍ" بلکہ یہ روایت موضوع ہے اور عبدالرحمٰن (بن زید بن اسلم) سخت کمزور راوی ہے ۔ (تلخیص المستدرک ج ۲ ص ۶۷۲)

۲: عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں خود حاکم لکھتے ہیں : "روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ لا یخفَی علیٰ من تأملھا من أھل الصنعۃ أن الحمل فیھا علیہ" اس نے اپنے ابا (زید بن اسلم) سے موضوع حدیثیں بیان کی ہیں۔ حدیث کا علم جاننے والوں پر یہ مخفی نہیں ہے کہ ان موضوع روایات کی وجہ سے یہ شخص بذاتِ خود ہے ۔ (المدخل الی الصحیح ص ۱۵۴ رقم : ۹۷)
یعنی اس نے اپنے باپ پر جھوٹ بولتے ہوئے حدیثیں گھڑی ہیں۔
تنبیہ: مستدرک والی روایت بھی عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم
ـــــــــــــ بشرطِ صحتـــــــــ اپنے باپ ہی سے بیان کرتاہے۔۳: عبداللہ بن مسلم الفہری نامعلوم (مجہول) ہے یا وہ عبداللہ بن مسلم بن رشید (مشہور کذاب) ہے ۔ دیکھئے لسان المیزان (ج۳ ص ۳۵۹ ، ۳۶۰ طبعہ جدیدہ ج ۴ ص ۱۶۱،۱۶۲)
معلوم ہوا کہ اس موضوع روایت کو حاکم کا "صحیح الإسناد" کہنا ان کی غلطی ہے ۔
مستدرک کی ایک دوسری روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ "فلولا محمد ما خلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنۃ ولا النار"اگر محمد (ﷺ) نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو پیدا نہ کرتا اور اگرمحمد (ﷺ) نہ ہوتے تو میں جنت اور جہنم پیدا نہ کرتا ۔ (۶۱۵/۲ ح ۴۲۲۷ وقال: ھٰذا حدیث صحیح الاسناد)
یہ روایت کئی وجہ سے موضوع اور مردود ہے :

۱: حافظ ذہبی نے کہا : "أظنہ موضوعًا علیٰ سعید" میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت سعید (بن ابی عروبہ) کی طرف مکذوبًا منسوب کی گئی ہے ۔ (تلخیص المستدرک ۶۷۱/۲)
۲: عمرو بن اوس مجہول ہے ۔ (دیکھئے میزان الاعتدال ۲۴۶/۳ و لسان المیزان ۳۵۴/۴)
۳: سعید بن ابی عروبہ مختلط ہیں۔
۴: سعیدبن ابی عروبہ اور قتادہ دونوں مدلس ہیں۔ اگر یہ روایت ان سے ثابت بھی ہوتی تو مردود تھی ۔
۵: طبقات ابی الشیخ الاصبہانی (۲۸۷/۳ ح ۴۹۴) میں جندل بن والق کی سند سے یہ روایت "ثنا محمد بن عمر المحاربي عن سعید بن أوس الأنصاري عن سعید بن أبي عروبۃ...." إلخ کی سند سے مروی ہے ۔ اس میں محمد بن عمر مجہول ہے جس نے عمرو بن اوس کو سعید بن اوس سے بدل دیا ہے ۔
خلاصۃ التحقیق :
لولاک ما خلقت الأفلاک اور اس مفہوم کی ساری روایات موضوع اور باطل ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾﴾ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیاہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ (الذاریٰت: ۵۶)

وما علینا إلا البلاغ (۱۰/ جنوری ۲۰۰۷؁ھ)
 
Top