• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لوگ جبری شادیوں کے حوالے سے ہوشیار رہیں

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
لوگ جبری شادیوں کے حوالے سے ہوشیار رہیں

اعداد و شمار کے مطابق جبری شادی کے ان واقعات میں سکولوں کی چھٹیوں کے دوران تیزی دیکھی جاتی ہے

برطانوی حکومت نے اساتذہ، ڈاکٹروں اور ہوائی اڈّوں کے عملے کو خبردار کیا ہے کہ وہ سکولوں میں موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران جبری شادیوں کے حوالے سے ہوشیار رہیں۔

وزراء کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ نوجوانوں کو چھٹیوں کے بہانے ملک سے باہر لے جا کر شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ان واقعات میں سکولوں کی چھٹیوں کے دوران تیزی دیکھی جاتی ہے۔

وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ کے جبری شادیوں کے حوالے سے خصوصی دفتر نے گذشتہ سال جون سے اگست کے دوران ایسے چار سو واقعات کی نشاندہی کی تھی۔

حالیہ اندازوں کے مطابق ہر سال تقریباً پانچ ہزار برطانوی بچوں کو جبری شادی کرنی پڑتی ہے۔ ان میں سے ایک تہائی کی عمر سولہ سال سے کم ہوتی ہے۔

حکومت سے اس معاملے میں آگاہی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور ایک تجویزی فون لائن قائم کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ممکنہ متاثرین کے لیے معلوماتی کارڈ بھی جاری کیے جائیں گے۔

دفترِ خارجہ کے مارک سمنڈز کا کہنا تھا کہ 'گرمیوں کی چھٹیاں ہی وہ وقت ہے جب نوجوانوں کو ملک سے باہر لے جا کر ان کی زبردستی شادی کرنے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔'

'اٹس یوئر چوائس' (یہ آپ کی مرضی ہے) کارڈز کا مقصد ایسے افراد جن کی جبری شادی کیے جانے کا خطرہ ہو، اس بات سے واقف ہوں کہ ان کے پاس ملک کے اندر اور باہر، جبری شادیوں سے متعلق خصوصی حکومتی دفتر سے رجوع کرنے کا حق ہے۔

وزرا کا کہنا تھا کہ یہ بات غلط ہے کہ جن نوجوانوں کو اپنے امتحانوں اور تعلیم کے بارے میں سوچ رہے ہونا چاہیے وہ خوف اور غلامی کی زندگی میں پھنس جاتے ہیں۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'فریڈم چیرٹی' کی بانی کارکن انیتا پریم کا کہنا تھا کہ 'یہ اہم ہے کہ کسی شادی میں شرکت کے لیے ملک سے باہر جانے والے نوجوانوں کو یہ معلوم ہو کہ یہ ان کی اپنی شادی بھی ہو سکتی ہے اور انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایسی مشکل میں وہ کس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔'

حزبِ اختلاف کی جانب سے امیگریشن کے وزیر کرس برائنٹ نے اس موضوع پر آگہی بڑھانے کا خیر مقدم کیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'سکولوں کی چھٹیاں شروع ہوئے کئی ہفتے ہو چکے ہیں۔ بہت بہتر ہوتا اگر ہوم آفس سے اقدامات سکولوں کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے کرنے کا سوچتا۔'

برطانوی حکومت اس سلسلے میں سکاٹ لینڈ کی مثال کی پیروی کرنے کے بارے میں منصوبہ بھی جاری کرنے کو ہے جہاں جبری شادی کروانا ایک مجرمانہ فعل ہے۔

ایسے اقدام کے ذریعے بچوں کی جبری شادی کرنے والدین کو قید کی سزا دی جا سکے گی۔

حکومتی وزیر جریمی براؤن کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے اور اسی لیے ہم اسے غیر قانونی بنانا چاہتے ہیں۔

بی بی سی: ہفتہ 10 اگست 2013
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
برطانیہ میں جبری شادی پر قید کی سزا

برطانیہ میں متعارف کروائے جانے والے نئے قوانین کے تحت اپنی اولاد کی جبراً شادیاں کروانے والے والدین کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔

سکاٹ لینڈ میں پہلے ہی جبری شادی کا قانون موجود ہے اور برطانوی وزیرِ داخلہ تھریسا مے جلد ہی اعلان کرنے والی ہیں کہ یہ عمل اب انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں ایک فوجداری جرم تصور ہوگا۔

تاہم اس نئے قانون کے تحت والدین کی جانب سے طے شدہ شادیوں اور جبری شادیوں میں امتیاز کیا جائے گا۔

ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں ہر سال آٹھ ہزار کے قریب خواتین کو ان کی مرضی کے بغیر شادی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

برطانوی جبری شادی یونٹ کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری سے مئی دو ہزار بارہ کے درمیان برطانیہ میں ہونے والی چھیالیس فیصد جبری شادیوں کا شکار پاکستانی نژ|د برطانوی لڑکیاں بنیں۔

برطانوی وزارتِ داخلہ نے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے حکم پر اس قانون کے بارے میں مشاورت کی تھی جو رواں برس مارچ میں مکمل ہوئی۔ ڈیوڈ کیمرون جبری شادیوں کو 'غلامی سے کچھ زیادہ' اور 'صریحاً غلط' قرار دے چکے ہیں۔

وزیرِ داخلہ تھریسا مے قانون کے اعلان کے ساتھ پانچ لاکھ پونڈ کے ایک فنڈ کا بھی اعلان کریں گی جس کی مدد سے سکولوں اور دیگر اداروں میں جبری شادیوں کے ابتدائی اشاروں کی نشاندہی کی جا سکے گی۔
اسی قسم کا قانون گزشتہ برس نومبر میں سکاٹ لینڈ میں نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت عدالت ان افراد کے لیے حفاظتی احکامات جاری کر سکتی ہیں جنہیں جبری شادی کا خطرہ ہو اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں دو برس قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

دو ہزار آٹھ سے انگلینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں عدالتیں اس معاملے میں دیوانی احکامات جاری کرنے کی مجاز ہیں تاہم اب سے فوجداری معاملہ بنایا جا رہا ہے۔

تاہم جبری شادیوں کے خلاف مہم چلانے والوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس عمل کو جرم قرار دینے سے ان معاملات کو رپورٹ کرنے کے واقعات میں کمی آ سکتی ہے۔

جبری شادیوں کو فوجداری معاملہ بنانے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے جبری شادیوں کا شکار افراد اپنے ساتھ ہونے والے سلوک سے مطلع کرنے میں کترائیں گے کیونکہ وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے رشتہ دار مجرمانہ ریکارڈ کے حامل بن جائیں۔

2012 کے اعداد و شمار
اعداد و شمار کے مطابق رواس سال جنوری سے مئی تک جبری شادیوں کے 594 کیسز سامنے آئے۔ ان میں 87 فیصد کیسز خواتین اور تیرہ فیصد کیسز مردوں کے تھے۔

اس کے علاوہ پندرہ سال سے کم عمر کے 14 فیصد کیسز آئے،
سولہ سا سترہ سال کے 31 فیصد،
اٹھارہ سے اکیس سال کے 35 فیصد،
بائیس سے پچیس سال کے 12 فیصد،
چھبیس سے تیس سال کے پانچ فیصد کیس سامنے آئے۔
اس کے علاوہ اکتیس سا چالیس سال کے دو فیصد اور 41 سے 45 سال کے ایک فیصد کیس آئے۔

برطانوی ہائی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جبری سادی کے سب سے زیادہ کیسز پاکستان میں سامنے آئے جو کہ 46 فیصد ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں 9 فیصد، برطانیہ 8.7 فیصد، بھارت میں سات اور افغانستان میں ڈھائی فیصد سے زیادہ کیسز آئے۔

2011 کے اعداد و شمار
یونٹ کے گزشتہ برس جنوری سے دسمبر کے دوران جاری اعداوشمار کے مطابق تقریبا پندرہ سو مواقعوں پر اس یونٹ نے مشورہ یا امداد مہیا کی۔ جن واقعات میں متاثرہ افراد کی عمر معلوم تھی وہاں سب سے زیادہ عمر کی متاثرہ خاتون ستاسی سالہ تھیں جب کے سب سے کم عمر پانچ سالہ لڑکی ثابت ہوئی۔

زبردستی کی شادی میں عام تاثر کے برعکس مدد کے لیے درخواست کرنے والوں میں ناصرف اٹھتر فیصد عورتیں بلکہ بائیس فیصد مرد بھی شامل تھے۔ سب سے زیادہ متاثرہ افراد یعنی ستائیس فیصد کی عمر اٹھارہ سے اکیس سالہ کے درمیان تھی۔

بی بی سی: جمعـہء 8 جون 2012
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

برطانیہ میں جبری شادیوں پر یہ مسئلے میرپور والوں کے ساتھ ہی پیش آتے ہیں۔ یہاں اکثریت میرپور کی ھے وجہ اس کی یہ ھے کہ سینکنڈ ورلڈوار کے بعد یہاں انہیں پاکستان سے ری بلڈ کرنے کے لئے لایا گیا تھا اور اب ان کی تیسری سے چوتھی پیڑی چل رہے ھے۔ یہ لوگ اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں کسی بھی طرح میرپور لے جا کر انہیں وہاں 5 سال تک ضرور رکھتے ہیں تاکہ وہ پاکستان میں ان کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لیں اور جب ان کی شادی کا وقت آتا ھے تو ان کی شادیاں میرپور میں ہی جا کر کرتے ہیں اپنے عزیز یا قریبی رشتہ داروں، ذات برادری میں اس میں ضرورت پڑنے پر اگر میچ برابر نہیں بھی ہوتا تو بھی 15 سال چھوٹے فرق میں ان کو بیاہ دیتے ہیں بات بری نہیں یہ شادیاں کامیاب ہوتی ہیں مگر غلط کہاں ھے وہ یہ کہ کچھ بچے جو بگڑ چکے ہوتے ہیں اور برطانیہ کے رنگ میں رنگ چکے ہونے کی وجہ سے والدین کے ساتھ بغاوت پر اتر آتے ہیں جو کہ اکثر انہیں چھوڑ جاتے ہیں یا اگر نہ چھوڑیں تو والدین کے فیصلہ پر انکار کرتے ہیں وہی بچے اپنے والدین کے خلاف رپورٹ کرتے ہیں اتنا ریشیو تو پاکستان میں بھی ھے۔

والسلام
 
Top