محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
ہر دور میں حکمراں اپنے مجرموں کو قید کرنے کیلئے بد ترین قید خانے بناتے رہے ہیں اور اِس دور کے گوانتاناما بے ‘ ابو غریب جیل ‘ بگرام جیل جیسے نہایت ہی بھیانک اور بد ترین قید خانوں یا جیل خانوں کے نام ہم سب نے سن رکھے ہیں۔ لیکن سائنس و ٹیکنولوجی کے اس دور میں کیا کویٴ ایسا قید خانہ بنا سکتا ہے جو مچھلی کے پیٹ میں ہو اور مچھلی قیدی کو لئے ہوئے ہزاروں میٹر پانی کے نیچے چلی جائے جہان اندھیرا ہی اندھیرا ہو‘ رات کا اندھیرا ‘ سمندر کی گہرایٴ کا اندھیرا اور پھر مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا اور جہاں نہ ہوا ہو نہ آکسیجن لیکن قیدی پھر بھی صحیح سلامت اور زندہ رہے۔
جی کویٴ نہیں ۔ ایسا قید خانہ صرف ہمارا رب ہی بنا سکتا ہے کیونکہ
أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا
اللہ ہر چیز قدرت رکھتا ہے اور یہ اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے،
اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو (عراق) موصل کے علاقے نینویٰ والوں کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ آپ اپنی قوم کو ایمان و توحید کی دعوت دیتے رہے لیکن آپؑ کی قوم آپؑ کی تکذیب کرتی رہی اور کفر و عناد پر اڑی رہی۔ ایک مدت کی تبلیغ کے بعد جب آپؑ بالکل مایوس ہوگئےکہ قوم ایمان لانے والی نہیں اور عذابِ الٰہی کا وقت قریب آگیا تو آپ اپنی قوم کو تین دن کے بعد عذابِ الٰہی کی وعید سنا کر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نکل گئے اور مشکل سے دوچار ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا۔
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ ﴿٤٨﴾ سورة القلم
پس اپنے رب کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو اور مچھلی والے (یونس علیہ اسلام) کی طرح نہ ہو جاؤ، جب اُس نے پکارا تھا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ ….سورة الأنبياء
مچھلی والے (حضرت یونس علیہ السلام) کو یاد کرو! جبکہ وه غصہ سے چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔
لیکن حضرت یونس علیہ السلام کو جوں ہی احساس ہوا کہ اُن سے غلطی ہو گئی ہے ، انہوں نے اپنے آپ کو ملامت کیا اور مچھلی کے پیٹ کے اندھرے قید خانے سے اللہ کو پکارا ۔
فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ سورة الأنبياء
بالآ خر وه اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، بیشک میں اپنے نفس پر ظلم کیا۔
نوٹ کیجئے حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ کی قید خانہ سے رہائی کیلئے توحیدِ باری تعالیٰ کا ہی سہارا لیا اور اللہ کی ہی پاکی بیان کی ۔۔۔۔ کسی نبی ‘ ولی یا اللہ کے کسی برگزیدہ بندے کو نہیں پکارا اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی اور کا وسیلہ نہیں پکڑا۔
حضرت یونس علیہ السلام نے کہا ’ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ ‘ یعنی ’ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا اللہ ‘ جو کہ کلمہٴ توحید ہے اور کہا ’ سُبْحَانَكَ ‘ یعنی ’ سبحان اللہ ‘ جو کہ ا لله تعالی کی تسبيح ہے اور پھر ’ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ‘ اپنے غلطیوں کا اقرار و اعتراف اِن لفظوں میں کیا کہ ’ بیشک میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں ۔۔ اس جملے میں اِن باتوں کا اعتراف ہے کہ اے اللہ میں نے تیرے حکم کا انتظار نہ کرکے تیرا کچھ نہیں بگاڑ ا اور مجھے اس قید میں ڈال کر تو نے مجھ پر کویٴ ظلم نہیں کیا کیونکہ تو اس سے پاک ہے کہ کسی پر ظلم کرے‘ یہ تو ہم انسان ہی ہیں جو جلد باز ہیں نا شکرے ہیں اور بے صبرے ہیں اور اپنے ہی جان پر ظلم کرنے والے ہیں۔
تب ہمارے غفور الرحیم رب نے نہ صرف اپنے نبی کی دعا قبول کی اور انہیں غم (قید) سے نجات بخشی بلکہ یہ بھی فرما دیا کہ جو بھی مومن بندہ یہ دعا مانگے گا ‘ اُسے نجات ملے گی:
فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ ﴿٨٨﴾ سورة الأنبياء
پس ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں غم سے نجات بخشی، اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں،
رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا کہ
ذوالنون ( یعنی یونس علیہ السلام ) کی وہ دعاء جو انہوں نے مچهلی کی پیٹ کے اندر مانگی تھی (یعنی لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ) جو مسلمان اپنے کسی بهی مقصد کے لئے ان کلمات کے ساتھ دعاء کرے گا اللہ تعالی اس دعاء کو قبول فرماویں گے ۔( رواه الترمذي والحاكم )
یہ دعا بھی ہے اور کلمہٴ توحید بھی ۔ اس کی برکتوں سے ایک طرف حضرت یونس علیہ السلام ایک ایسی قید خانے (مچھلی کی پیٹ ) سے آزاد ہوئے جس کا تصور بھی کویٴ انسان نہیں کر سکتا تو دوسری طرف ان کی مشرک قوم بھی شرک کی ظلمتوں سے آزاد ہو یٴ اور ایک اللہ پہ ایمان لے آیٴ ‘ ایک اللہ کی بندگی میں داخل ہو گیٴ۔
انسانی تاریخ میں واحد قوم ہے جنہیں اللہ کا عذاب آنے کے بعد نجات ملی۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے:
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٩٨﴾ سورة يونس
پس کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے۔ جب وه ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لیے زندگی سے فائده اٹھانے (کا موقع) دیا۔
اگر کویٴ بندہٴ مومن اللہ کی وحدانیت کے اعلان کے ساتھ ساتھ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہوئے اللہ سے اپنی مغفرت کا طلب گار ہو تو اُسے اس دعا کا سہارا لینا ہوگا۔ کیونکہ اس دعا میں ۔۔۔ کلمہ توحيد (لا إله إلا أنت ) بھی ہے ...... تسبیح و تنزيہ ( سبحانك ) بھی ہے ...... اور استغفار ( إنى كنت من الظالمين ) بھی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ :
میں تمہیں وہ چيز نہ بتاؤں کہ اگرکسی پر کوئ مصیبت اور آزمائش آجاۓ تو وہ اسے پڑھے تو اسے اس سے نجات مل جا ئے گی وہ یونس علیہ السلام کی دعا ہے ( لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین )۔ مستد رک حاکم اور صحیح الجامع ( 2605 ) میں بھی یہ حدیث ہے ۔
اس وقت پوری امت گوناگوں مصیبتوں‘ آزمائشوں اور پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے اور طرح طرح کے عذابات کا شکار ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم سب اس دعا کی معنی مطلب کو سمجھیں‘ کلمۂ توحید ’’ لا الہٰ الا اللہ محمدُ الرسول اللہ ‘‘ کی معنی مطلب سمجھیں‘
صرف اور صرف اللہ وحدہ‘ لا شریک کو پکاریں‘ اسی سے فریاد کریں ‘ اسی سے دعا مانگیں۔
ایک اللہ کی بندگی میں آئیں۔
شرک و بدعات کی ہر فعل کو ترک کریں۔
اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھیں۔
اور اِس دعا کو اپنی روزانہ کی دعاؤں میں شامل کریں تاکہ ہماری بھی بخشش ہو جائے اور اُمت بھی نجات پائے۔
اِس دعا سے قوم کی تقدیر بدل جاتی ہے‘ قوم پر آیٴ ہویٴ عذاب ٹل جاتا ہے۔
اسدعاءکی کچھ خصوصیات وفوائد
1. الله تعالی کی توحيد ، الله تعالی کی تسبيح و تنزيہ ، اور إستغفار
لا إله إلا أنت = الله تعالی کی توحيد
سبحانك = الله تعالی کی تسبيح و تنزيہ
إنى كنت من الظالمين = إستغفار اور الله تعالی کے لیئے بندگی کا إعتراف
سبحانك = الله تعالی کی تسبيح و تنزيہ
إنى كنت من الظالمين = إستغفار اور الله تعالی کے لیئے بندگی کا إعتراف
2. صحیح حدیث میں ہے کہ جو مسلمان بنده کسی بهی مقصد کے لیے اس کے ساتھ دعاء کرے گا تو اس کی دعاء قبول ہوگی۔
3.یہ مبارک دعاء قرآن مجید میں مذکور هے ، لہذا اس کے پڑہنے سے قرآن کی تلاوت کا ثواب بهی ملے گا۔
4. یہ دعاء الله تعالی کے ایک جلیل القدر نبی حضرت یونس علیہ السلام نے نے کی ہے اور اللہ تعالی نے قبول فرمائی ہے، لہذا ان کے لئے خاص تهی ، اور تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے ، پس جو بھی شرک سے براٗت اور اپنی گناہوں کے اقرار و پشیمانی کے ساتھ ان کلمات کے ذیعے اپنے لئے دعا مانگے گا، اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لیے قبولیت کا وعدہ ہوچکا ہے (لیکن شرک سے برأت شرط ہے)۔
5. صحیح حدیث میں ہے کہ اس دعاء میں الله تعالی کا اسم اعظم بهی ہے۔
6. بیماری میں چالیس مرتبہ یہ دعاء پڑہنے والا شخص اگر اسی بیماری میں فوت ہوجائے ، تو اس کو شہید کا أجر ملے گا اور اگر وه صحت یاب ہوجائے تو اس کے تمام گناہوں کو بخش دیا جائے گا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں شرک سے براٗت اور اپنی گناہوں کے اقرار و پشیمانی کے ساتھ اپنی ہر دعا میں " لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ " کو بھی شامل کرنے کی توفیق عطا کریں۔ آمین